کراچی، ترقیاتی کاموں کی تکمیل سے قبل لاگت دوگنا سے بھی بڑھ گئی
کراچی (نصیر احمد سلیمی)
سید شریف الدین پیر زادہ جنکا انتقال گزشتہ ہفتے کراچی میں ہوا ان کی شخصیت کا ذکر رہ گیا تھا۔ اس بار اس پر بات ہو گی۔ مگر پہلے ذکر سندھ کے مالی سال کے بجٹ کا اور 2017- 2018ء کے بجٹ میں کراچی کی تعمیر و ترقی کے لئے مختص کی گئی اس رقم کے تنازعہ کا، جس نے سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس کو مچھلی بازار بنا رکھا ہے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور میئر کراچی وسیم اختر شعلے اگلتے بیانات کے گولے داغ رہے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ بجٹ میں رکھی گئی رقم کراچی کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کافی ہے یا ناکافی ہے؟ غیر جانبدار سنجیدہ حلقے اسے اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دے رہے اور کہتے ہیں کہ یہ ناکافی ہے بنیادی سوال یہ ہے کہ جس طرح اٹھارویں ترمیم کے بعد اختیارات کا ارتکاز ختم کرکے صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں اسی طرح اس آئینی ترمیم کے تحت اسی تناسب سے صوبہ سے بلدیات کو اختیارات کی منتقلی نہیں کی جا رہی ہے؟ جس طرح آئین مرکز کو یہ اختیارات دیتا ہے کہ وہ صوبہ میں خرچ ہونے والی رقوم کی شفافیت پر نظر رکھے۔ اسی طرح صوبوں کو بھی بلا شبہ یہ حق ہے کہ وہ صوبہ کی طرف سے بلدیات کو ملنے والی رقوم کے خرچ ہونے کی شفافیت کو یقینی بنائے مگر خرچ تومنتخب بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی ہونا چاہئے جہاں تک صوبہ کا یہ اعتراض ہے کہ صوبہ کراچی میں اپنے طور پر ترقیاتی کام اس وجہ سے کرا رہا ہے کہ ماضی میں ایم کیو ایم کی بلدیاتی اور صوبائی قیادت کے ذریعہ خرچ ہونے والی رقوم میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں ہوئی ہیں اورخورد برد کی شکایات بھی ہیں میرٹ اور ڈس میرٹ پر تفصیل سے گفتگو کر یں گے۔ سر دست تو اتنا عرض ہے کہ اس سے پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم دونوں ہی کا دامن داغ دار ہے کاش وزیر اعلیٰ چھ ماہ قبل صوبائی حکومت کی زیر نگرانی کراچی کے پروجیکٹ کی لاگت میں سو فیصد سے زیادہ کا نوٹس لے کر اس کی شفاف انداز میں تحقیقات کرانے کا حکم جاری فرماتے کہ کس طرح سندھ حکومت کے اپنے شروع کردہ پروجیکٹ کی لاگت 3 ارب سے بڑھ کر چھ ارب سے زیادہ ہو گئی وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ وہ درخواست کریں سندھ ہائی کورٹ نوٹس لے کر جے آئی ٹی بنائے جو تحقیق کرے۔
ملک کے نامور قانون دان، ممتاز دانشور بانی پاکستان کی زندگی اور تحریک پاکستان پر نہایت مستند تحقیقی کتابوں کے مصنف سید شریف الدین پیرزادہ 94 سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد کراچی کے مقامی ہسپتال میں بروز جمعہ 6 رمضان المبار ک کو انتقال کر گئے۔ عمومی طور پر سید شریف الدین پیر زادہ کا نام ان نامور اور بڑے وکیلوں کے ساتھ آتا ہے۔ جنہوں نے بندوق بردار فوجی آمروں کے ماورائے آئین غیر قانونی اقدام کو جواز فراہم کرانے کے لئے اپنے ذہن رساکی توانائیاں صرف کی تھیں یہ درست ہے کہ اس حوالہ سے ان کی شخصیت بھی ان بڑے وکیلوں کی طرح ہمیشہ متنازعہ رہی ہے اور تاریخ کے صفحات میں بھی ان کی شخصیت کا یہ کردار متنازعہ ہی رہے گا۔ تاہم یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ پہلے بڑے قانون دان ہیں جنہوں نے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کا ساتھ دیا تھا۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق انکا نام کافی بعد میں آتا ہے۔ سب سے پہلا نام 1958ء کے مارشل لا کی حمایت کرنے والوں میں اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر کا ہے جنہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب جلیلہ پر فائز رہتے ہوئے ان کے غیر قانونی اقدام کو سند جواز عطا کی۔ بلکہ ان کی کابینہ کا حصہ بھی بن گئے تھے دوسرے بڑے ناموں میں ذوالفقار علی بھٹو، محمد علی بوگرا ، منظور قادر، اے کے بروہی،شیخ خورشید احمد (مرحوم) اور ایس ایم ظفربھی شامل ہیں ، سید شریف الدین پیر زادہ تو جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ سے رخصتی کے بعد شامل کئے گئے ۔ اس تفصیل کا مقصد پیرزادہ کا فوجی آمروں کے ماورائے آئین، غیر قانونی اقدام کو جواز فراہم کرانے میں قانونی و آئینی معاونت کا دفاع کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہ بتانا ہے کہ اس صف میں ذوالفقار علی بھٹو، محمد علی بوگرا، منظور قادر، اے کے بروہی، شیخ خورشید احمد اور ایس ایم ظفر سمیت کم و بیش وقت موجود کے سب ہی بڑے نام کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ستم ظریفی تو یہ بھی ہوئی ہے کہ جسٹس منیراگر ایوب خاں کی کابینہ میں چلے گئے تھے۔ وہ تو مارشل لاء لگنے سے پہلے سے درپردہ اس سازش کا حصہ تھے جو ملک کے پہلے متفقہ دستور 1956ء کے نافذ ہوتے ہی اس کو منسوخ کرنے کے درپے تھے۔ اور نہیں چاہتے تھے کہ طے شدہ شیڈول کے مطابق 1956ء کے دستور کے تحت عام انتخابات ہو سکیں مگر اس ستم ظریفی کا کیا کریں گے چیف جسٹس کے منصب جلیلہ پر ان کے بعد فائز ہونے والے ایسے دو چیف جسٹس نے بھی ریٹائر ہونے کے بعد دوسرے اور تیسرے مارشل لاء میں مشیر کے طور پر کابینہ کا حصہ بننا قبول کیاجنہوں نے عدالتی زندگی میں آئین کی حکمرانی اور قانون کی سربلندی قائم کرانے کے لئے تاریخ ساز فیصلے رقم کئے تھے۔ انہی میں سے دو بڑی قد آور بلند قامت شخصیات نے ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل یحییٰ خان کے دوسرے مارشل لا اور جنرل ضیاء الحق کے تیسرے مارشل لا میں ان کا قانونی مشیر بننا قبول کیا تھا، سابق چیف جسٹس اے آر کانیلئیس یحییٰ خان کے مشیر بنے سابق چیف جسٹس حمودالرحمن جنرل ضیاء الحق کے مشیر بنے تھے یہ جسٹس حمود الرحمن ہی تھے۔ جنہوں نے اپریل 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے سول مارشل لاء دور میں عاصمہ جیلانی کیس میں جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کو ناجائز اور غاصبانہ اقتدار قرار دیکر بھٹو کے سول مارشل لاء کو اسی غاصبانہ اقتدار کا تسلسل قرار دیکر تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے کی خبر سنتے ہی اسی دن عجلت میں مارشل لاء اٹھانے کا اعلان کرنے پر حکومت کو مجبور کیا تھا، ورنہ بھٹو صاحب نے ایک سوچار ارکان قومی اسمبلی سے قومی مفاد میں مارشل لا کو جاری رکھنے کے دستخط کروا کر اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔ جسے بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی کے ایوان میں لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ارکان قومی اسمبلی نے مجھے مارشل لا جاری رکھنے کا اختیار دے دیا ہے۔ مگر میں ایک ڈیمو کریٹ ہوں اس لئے مارشل لاء اٹھانے کا اعلان کرتا ہوں(یہاں پر یہ ذکر کرنا غیر مناسب نہ ہوگا۔ بھٹو صاحب نے مارشل لا اٹھانے سے قبل اسمبلی سے جو عبوری دستور منظور کرایا تھا۔ اس میں بھٹو صاحب نے بطور صدر وہ تمام اختیارات حاصل کرلئے تھے جوکسی بھی مطلق العنان حکمران یا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی ذات میں جمع ہوتے ہیں)۔
ان ایک سو چار ارکان قومی اسمبلی میں سے اس وقت تو کوئی ایک رکن بھی اب پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہے، مگر بہت سے ارکان ایسے ہیں۔ جن کے باپ یا دادا نے مارشل لا جاری رکھنے کی دستاویز پر دستخط کرکے بھٹو صاحب کو دیئے تھے مارشل لا کی حمایت کرنے والے سید شریف الدین پیر زادہ ہوں یا ان کے دوسرے ہم عصر وہ نام ور قانون دان جنہوں نے جنرل ایوب خان ، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف یا دوسرے مارشل لا کے تسلسل ذوالفقار علی بھٹو کے سول مارشل لاء کی حمایت اور معاونت کی تھی۔ انہی نامور قانون دانوں نے سول حکومتوں کو قانونی معاونت فراہم کی تھی۔ سید شریف الدین پیر زادہ بھی منتخب سول حکومتوں کو قانونی معاونت فراہم کرتے رہے ہیں اور عدالتی بحرانوں سے نکالنے میں مدد بھی کرتے رہے ہیں، ان کا قابل ذکر اورقابل فخر وکیل کے طور پر کردار ہے۔ 1954ء میں جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے قائد اعظم ؒ کی قیادت میں قائم ہونے والی دستور اسمبلی کو غیر قانونی طور پر توڑا تھا، دستور سازاسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تو سید شریف الدین پیرزادہ اس قانونی ٹیم میں جو نیر وکیل کے طور پر شامل تھے، وہ اس ٹیم کے واحد رکن تھے۔ جنہوں نے اس کیس میں کوئی فیس نہیں لی تھی، یہ سید شریف الدین پیر زادہ ہی تھے۔ جو مولوی تمیز الدین کو پولیس کے نرغے سے بچا کر رجسٹرار کے سامنے پٹیشن داخل کرانے میں کامیاب ہوئے تھے عدالتی تاریخ میں ججز کیس میں ان کی عدالتی معاونت کو فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ اس ججز کیس نے ہی اعلیٰ عدالتوں کے سربراہوں کے تقرر کو سنیارٹی کی بنیاد پر سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ دے کر اس ضمن میں وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیار ہمیشہ کے لئے ختم کردیئے۔ واضح رہے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اس اصول سے انحراف کیا گیا تھا، سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سعد سعود جان تھے، مگر محترمہ نے اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت بہت جونیئر جج جسٹس سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنادیا تھا، جس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔ بطور جسٹس سید سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینج نے مشہور زمانہ ججز کیس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا، سینئر جج ہی چیف جسٹس بنا کرے گا، اسی ججز کیس میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کا معیار اور طریقہ کار بھی طے کردیا گیا تھا سید شریف الدین پیر زادہ کی قانونی معاونت وزیر اعظم نواز شریف کو ان کی پہلی اور دوسری حکومت میں،بھی حاصل رہی ہے۔ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے برپا کردہ عدالتی بحران سے نکالنے میں سید شریف الدین پیر زادہ کا کلیدی کردار تھا۔ سید شریف الدین پیر زادہ کو ’’جدہ‘‘ کا جادوگر لقب دینے والے اردشیر کاوس جی نے اس بحران کے ختم ہونے کے بعد کہا تھا ’’جدہ کے جادوگر کی جادوگری‘‘ نے وزیر اعظم نواز شریف کو بحران سے نکال دیا ہے۔ ان کی قانونی معاونت دوسرے منتخب حکمرانوں کوبھی حاصل رہی ہے۔ آج وہ چاہے اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں ان کے یا ان جیسے دوسرے قانون دانوں کے متنازعہ کردار کووقت گزرنے کے ساتھ شائد لوگ بھول جائیں۔ مگر سید شیریف الدین پیر زادہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی وجہ سے اور حصول پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد میں نوجوان وکیل کے طور پر فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند کی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ سید شریف الدین پیر زادہ اپنے ہم عصر ان قانون دانوں میں بھی ممتاز ہیں۔ جنہوں نے قانون کے شعبہ سے باہر بھی تصنیف و تالیف کا کام کیا ہے۔ سید شریف الدین پیر زادہ قانونی اور آئینی امور پر تو اتھارٹی تھے ہی، وہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی زندگی اور تحریک پاکستان پر مستند تحقیقی کام کرنے والے کے طورپر اتھارٹی تسلیم کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے جس زمانے میں تحریک پاکستان کی تاریخ ’’فاؤنڈیشن آف پاکستان‘‘ کی تین ضخیم جلدیں لکھی تھیں اور پاکستان منزل بہ منزل جیسی تحقیقی کتاب لکھی تھی اور قائد اعظمؒ کی زندگی پر ’’حیات قائد اعظم کے چند گوشے‘‘ اور ’’دستاویزات قائد اعظمؒ ‘‘ تب ’’ قائد اعظم پیپرز‘‘ اور تحریک پاکستان سے متعلق دیگر پیپرز اور دستاویزات منظر عام پر نہیں آئی تھیں قائد اعظم اور تحریک پاکستان پر تین عشروں سے زیادہ عرصے سے تحقیق کرنے والے معروف محقق جناب خواجہ رضی حیدر تصدیق کرتے ہیں کہ سید شریف الدین پیر زادہ نے قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے حوالہ سے اپنی تصانیف میں جتنا کچھ لکھا ہے، قائد اعظم پیپرز اور تحریک پاکستان کے حوالہ سے منظر عام پر آنے والے پیپرز اور دستاویزات حرف بہ حرف اس کی تصدیق اور تائید کرتی ہیں سید شریف الدین پیرزادہ نے قائد اعظمؒ اور تحریک پاکستان کے موضوعات کے علاوہ بھی کئی دیگر قانونی اور آئینی مسائل پر تحقیقی کام کیا ہے جو انہیں تادیر زندہ رکھے گا۔
ان سے کوئی لاکھ اختلاف کرے۔ مگر کوئی ان کی پاکستان سے عشق کی حد تک محبت سے انکار نہیں کرسکتا،کیونکہ اس معاملے میں وہ کسی سے کمپرومائزپر کبھی تیار نہیں ہوئے۔بلا شبہ وہ قانون دان تھے اور اس لئے بڑے تھے کہ تاریخ کی کہانیوں تک ان کی نگاہ جاتی تھی اسی لئے ’’وقت موجود‘‘ میں ان کے مشورے نہایت دور رس ہوا کرتے تھے وہ قانون کی آنکھ سے تاریخ کو دیکھتے تھے اور قانون کو تاریخ کی آنکھ سے دیکھتے تھے۔ انہیں قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ دنیاوی معاملات میں جیسے بھی ہوں قائد اعظم اور پاکستان انکا عشق تھا ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ ان کی طبائع سے قریب ہو جاتے تھے ان کے لئے سید شریف الدین پیر زادہ ریشم کی طرح نرم اور شہد کی طرح شیریں تھے۔
ان کی رحلت سے ملک ایک بڑے نامور قانون دان اور قائد اعظم کی قیادت میں حصول پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد میں کام کرنے والے محقق کارکن سے محروم ہو گیا ہے۔ اس نامہ نگار کو ان سے بہت زیادہ قربت نہیں رہی ہے مگر اپنے عزیز مرحوم دوست غلام احمد اسماعیل اور استاد محترم جناب الطاف حسن قریشی ا ور اپنے مربی مولانا ظفر احمد انصاریؒ اور ابن الحسن مرحوم کی وجہ سے درجنوں بار ان سے ملنے اور گفتگو کے مواقع حاصل رہے ان سے ملاقات کے وقت محترم ابن الحسن مرحوم کا یہ جملہ ہمیشہ ذہن نشین رہا کہ ان سے ملاقات کے وقت ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرنا۔ اگر وہ ایک گھنٹے بھی ایسے موضوع پر بات کرتے رہیں جس سے تمہیں دلچسپی نہ ہو تب بھی ہمہ تن گوش ہو کران کو سنتے رہنا۔ ایک گھنٹے کی گفتگو میں ایک آدھ منٹ کی ایسی گفتگو ضرور ہو گی جو تمہیں کوئی بڑی خبر دے گی۔ میرا ذاتی تجربہ بھی محترم ابن الحسن کے ارشاد کے عین مطابق ہے جب ملا ان سے کوئی خبر ضرور ملی۔اپنی عمر کے آخری ڈیڑھ دو برس میں وہ باریش ہوگئے تھے البتہ ان کے حوالے سے یہ خبر کہیں نہیں آئی۔