وزیر اعظم کا لاہور میں قیام، قانونی مشاورت، جے، آئی ، ٹی کے سامنے جائیں گے
پاناما کا ہنگامہ جاری ہے اور جے، آئی، ٹی کے حوالے سے الزامات اور جواب الزام کا سلسلہ بھی نگران فل بنچ کے روبرو پیش ہو چکا ہے، اسی دوران جے، آئی ، ٹی کی طرف سے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے نام بھی طلبی کا خط لکھ دیا گیا ہے اور اب یہ بحث شروع ہوگئی کہ ان کو کس حیثیت سے طلب کیا گیا ہے، بعض ماہرین آئین وقانون کے مطابق یہ طلبی کسی طور پر ملزم کی حیثیت سے نہیں بلکہ وہ ایک گواہ ہوں گے جن سے پاناما لیکس کی روشنی میں عدالت عظمیٰ کے تیرہ سوالات کے مطابق وضاحت چاہی جائے گی اور اس سے پہلے ان کے صاحبزادگان حسین نواز اور حسن نواز کے بیانات کو سامنے رکھ کر بھی سوالات ہوں گے، وزیر اعظم محمد نواز شریف نے جوڈیشل اکیڈیمی جاکر جے، آئی،ٹی اراکین کے سوالات کا جواب دینے کا فیصلہ کرلیا اور وہ کل (جمعرات) گیارہ بجے پیش ہوں گے ان کے اس عمل کو جمہوری قرار دے کر سراہا جارہا ہے۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف شنگھائی کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس آرہے تھے کہ خراب موسم کے باعث ان کا طیارہ ان کو لاہور لے آیا اور وہ یہاں اپنی رائے ونڈ رہائش گاہ پر پہنچ گئے والدہ کی قدم بوسی کی ایک رات آرام کیا اور اتوار کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا جس میں ماہرین قانون بھی طلب کئے گئے، اس اجلاس میں اسلام آباد سے وزرا اور مشیر بھی آئے، وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف بھی شریک ہوئے، قانون دان حضرات نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جے، آئی، ٹی کی کارروائی، کارکردگی حسین نواز، حسن نواز اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد سے کئے جانے والے سوالات اور سلوک سے لے کر عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کے مسئلہ پر بریفنگ دی، وزیر اعظم نے اس اجلاس میں طویل مشاورت کے بعد نوٹس لئے اور جمعرات کو وہ ان سے استفادہ کریں گے ، یوں یہ ہفتہ لاہور میں بھی سیاسی طور پر سرگرم گنا گیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاہور میں ہیں وہ ایک ہفتہ کے لئے یہاں آئے اور ڈویژن کی سطح پر پارٹی کے عہدیداروں کو بلاول ہاؤس بلاکر افطار ڈنر دیتے رہے ہر روز ایک ڈویژن کو بلایا گیا ان سے بلاول نے خطاب بھی کیا اور ان کی رائے بھی سنی، اس دوران وہ ملتان بھی گئے جہاں 8جون کو سابق وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی نے ان کے اعزاز میں افطار پارٹی دی تھی، لاہور میں افطار پارٹیوں کے دوران بلاول اپنی رائے تو دیتے رہے تاہم انہوں نے حال میں نامزد عہدیداروں سے ان کی رائے بھی دریافت کی، جو رائل پام کلب میں پیر کے روز پنجاب کی تنظیم نے ان کے اعزاز میں دعوت افطار دی، اس عہدیدار اور کارکن بھی بلائے گئے۔ بلاول نے خطاب بھی کیا۔ دعوت میں بدنظمی بھی ہوگئی۔
بلاول بھٹو زرداری کی اس مرتبہ لاہور آمد کے موقع پر یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اس سے پہلے ہی نذر محمد گوندل اور ڈاکٹر فردوس اعوان پارٹی چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن افواہوں کی زد میں ہیں، کائرہ تردید کررہے ہیں، جہاں تک ندیم افضل چن کا تعلق ہے تو وہ ان دنوں چھٹی پر بیرون ملک ہیں ان کی جگہ قائمقام جنرل سیکرٹری نامزد کئے گئے وہ واپسی پر ہی جواب دیں گے ان کے حلقے مسلسل تردید کررہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے حلقوں میں اس صور تحال کا سنجیدگی سے جائیزہ لیا جارہا ہے اور بلاول بھٹو کی موجودگی میں بھی اس پر بات ہوئی، مجموعی طور پر سینئر اراکین کی یہ رائے تھی کہ بلاول کو خود اضلاع کے دور سے کرنا چاہئیں، جواب میں بتایا گیا کہ ملتان میں جلسہ عام کے بعد جلسوں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ ان اجلاسوں میں جو بنیادی طور پر تنظیمی اجلاس کہے جائیں گے بلاول بھٹو نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے قربانیاں دینے اور ذاتی نقصان کے باوجود عدلیہ کا احترام کیا، جماعت کے بانی کا ’’عدالتی قتل‘‘ ہوا اور ہمارے وزیر اعظم کونااہل قرار دیا گیا اس کے باوجود ہنگامہ نہیں کیا، اب بھی پیپلز پارٹی عدلیہ کے ساتھ ہی کھڑی ہے اور کھڑی ہوگی، پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ان کے ’’انکل‘‘ چھوڑ گئے اور اب ان (بلاول) کے ’’انکل‘‘ چھوڑ گئے ہیں، اس سے جماعت کو فرق نہیں پڑتا کہ یہ نظریاتی اور جیالوں کی جماعت ہے، انہوں نے کارکنوں کو پرانے جذبے سے سرگرمیاں جاری رکھنے کی ہدائت کی۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ اور ادارہ منہاج القرآن کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری بھی کینیڈا سے لاہور پہنچ گئے ہیں وہ عید تک یہیں قیام کریں گے کہ وہ اعتکاف کے لئے بسائے جانے والے مجوزہ’’ شہر اعتکاف‘‘ میں قیام کریں گے تاہم ایر پورٹ پر جہاں انہوں نے یہ بتایا کہ وہ معمول کے مطابق سالانہ اعتکاف کے سلسلے میں آئے ہیں، جس میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں جن کی روحانی تربیت ہوتی ہے، وہاں انہوں نے سیاست پر بھی بات کی اور جے، آئی، ٹی کی تحقیق پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، ان کی گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ اس جے، آئی، ٹی سے شریف خاندان کی بریت ہوگی اور ان کوکلین چٹ مل جائے گی اسی حوالے سے انہوں نے پھر قصاص کا ذکر کیا اور کہا انصاف نہیں مل رہا وہ انصاف لینے آئے ہیں، مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ رمضان اور عید الفطر کے موقع پر چندہ جمع کر کے لے جانے آئے ہیں۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جب سے تحریک انصاف میں گئیں خبروں کا موضوع ہیں اور ان کے حوالے سے منفی اور مثبت باتیں ہو رہی ہیں، گزشتہ اتوار کو وہ لاہور پریس کلب آئیں تو ان سے سوالات بھی اسی بارے میں ہوئے، وہ ایک مرتبہ پھر بولیں ’’ میں ہمیشہ فرنٹ فٹ پر کھیلتی ہوں‘‘ کرکٹ کا دور ہے اور کرکٹ کی اصطلاح استعمال کی۔ ان کا موقف یہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسی نے پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکنوں اور راہنماؤں کو مایوس کیا کہ مسلم لیگ (ن) ہی حریف جماعت ہے اور مسلم لیگ (ن) کو کچھ نہیں کہا جارہا تھا، اسی مایوسی کے عالم میں انہوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو سامنے کوئی دوسری پسند نہیں تھی صرف تحریک انصاف ہی عوامی بہبود کے لئے جدوجہد کررہی ہے اس لئے جدوجہد پر یقین رکھنے والے تو ادھر ہی آئیں گے۔ ان سے قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن، امتیاز صفدر وڑائچ اور بعض دوسرے لوگوں کے حوالے سے سوال کئے گئے تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور کہا کہ ہر کوئی اپنے فیصلے کا مجاز ہے۔