وفاقی حکومت کا رمضان پیکج، دیہات کی ساٹھ فی صد آبادی محروم ہے
وفاقی حکومت کہتی ہے کہ غریب عوام کو روز مرہ اشیاء کی خریداری میں ’’معاونت‘‘ کی مد میں اربوں روپے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو دئیے گئے ہیں جو رمضان پیکج کے نام سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے ’’تحفہ‘‘ کے طور پر دئیے گئے ہیں پنجاب حکومت تو اس دعویٰ میں تقریباً 9 ہاتھ آگے چلی گئی اور وفاق کے مقابلے میں تقریباً 9 ارب 50 کروڑ روپے کے بجٹ اعلان کر دیا، جو سستے رمضان بازار کی صورت میں عوام کی سہولت کے لئے ہونا تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے اور عوام اب بھی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ نظر آرہے ہیں خصوصاً دیہی علاقوں میں نہ تو وفاقی رمضان پیکج کی کوئی سہولت نظر آرہی ہے اور نہ ہی پنجاب حکومت کی طرف خادم اعلیٰ کا کوئی تحفہ نظر آرہا ہے اور جسے عوام رمضان نہیں بلکہ ’’سنسان بازار‘‘ کا نام دے رہے ہیں ہاں البتہ لاہور کے علاوہ اکا دکا شہروں میں قیمتی ’’ائیرکنڈیشن‘‘ قائم بازار میں سرکاری عملہ ضرور براجمان ہے اور عوام کو دی جانے والی ریلیف سے زیادہ اخراجات ان ائرکنڈیشن بازار کو قائم کرنے اور کرایہ کی مد میں خرچ ہو رہے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام شہری علاقوں میں ہو رہا ہے اور شہر بھی وہ جو بڑے کہلاتے ہیں وطن عزیز کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے جو دیہاتوں میں رہتی ہے اس طرح حکومت اور سرکاری اہلکار اور مشینری آئین کی سراسر نفی اور خلاف ورزی کر رہے ہیں کیونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ملنے والا رمضان پیکج بلا تفریق ہر شہری کے لئے ہونا چاہیے لیکن یہ تمام سہولتیں صرف شہری علاقوں تک محدود کر دی گئی ہیں اور ملک کی بڑی آبادی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جو سراسر نا انصافی ہے اب اس نا انصافی کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں کس انداز میں لیتی اور اس کا کیا ازالہ کرتی ہیں یہ تو ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن اس حوالے سے پاکستان ایگری فورم جنوبی پنجاب کے عہدیداران اس مسئلہ کو لئے سنجیدگی سے مجاز عدالت میں لے جانے کا سوچ رہے ہیں اب انہیں وہاں کیا ریلیف ملے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
دوسری طرف مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی اور عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید احمد خان دستی کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر فوری طور پر جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقلی نے ہل چل پیدا کر دی ہے جس کے لئے جنوبی پنجاب کے چیدہ چیدہ سیاستدانوں نے نہ صرف احتجاج کیا بلکہ ان میں کافی رہنما ان سے ملنے جیل بھی پہنچ گئے جن میں مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود حسین قریشی، ملک عامر ڈوگر ایم این اے سمیت دوسرے رہنماء بھی شامل ہیں پولیس کا موقف ہے کہ عوامی راج پارٹی کے سربراہ کو سرکاری پانی کی چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اوران پر پہلے بھی 22 کے قریب مقدمات ہیں جبکہ دوسری طرف جمشید دستی کے حواری یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ انہیں یہ سزا قومی اسمبلی میں صدر مملکت کے خطاب پر کی جانے والی تقریر اور تنقید کی وجہ سے انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے ایک وفاقی وزیر نے برملا اسمبلی کے فلور پر دھمکی میں کہا تھا اب کون سچا اور کون غلط بیانی کر رہا ہے اس کا فیصلہ مشکل ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ عوامی راج پارٹی کے سربراہ کی گرفتاری مظفر گڑھ کینال کی بندش پر احتجاج اور اسے زبردستی کھولنے کی وجہ سے ہوئی کیونکہ اس نہر کی بندش سے علاقے میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے جس سے علاقے کے مکینوں کے ڈھور ڈنگر اور مال مویشی رکھنا مشکل ہو رہا تھا جبکہ پانی کی قلت سے علاقے میں فصلات پر برا اثر پڑ رہا تھا جبکہ محکمہ انہار اس نہر کو چلانے کی حکمت عملی ہی نہیں بنا رہا جس پر علاقے کے مکینوں نے سخت احتجاج کیا تو جمشید دستی نے ہیڈ ورکس پر جا کر خود اس نہر میں پانی چھوڑ دیا جس پر ان پر مقدمہ قائم کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا ان کی گرفتاری کے دوسرے روز مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود حسین قریشی ان سے ملنے سنٹرل جیل ملتان گئے جہاں انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی اور دونوں رہنماؤں کو جیل کے باہر لگے بیریئر پر ہی روک لیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ ملاقات نہیں کرائی جا سکتی کیونکہ ’’حکم‘‘ نہیں ہے جس پر دونوں رہنماؤں نے احتجاج کیا اور جیل بیریئر کے قریب ہی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں جمشید دستی کے حقوق کی جنگ لڑنے اور سسٹم بچانے آیا ہوں کیونکہ اگر قومی اسمبلی کا سیشن جاری ہو اور کوئی رکن قتل بھی کر دے تو دوران سیشن اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا لہٰذا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف رکن قومی اسمبلی کی گرفتاری کا نوٹس لیں جبکہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ان کی اجلاس میں شرکت کو یقینی بنائیں انہوں نے اس کارروائی کو انتقامی کارروائی قرار دیا اور کہا کہ میرا جمشید دستی سے لاکھ اختلاف ہو لیکن ان کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں مخدوم شاہ محمود قریشی نے جمشید دستی کی گرفتاری کو حکمرانوں کی بوکھلاہٹ قرار دے دیا اور سپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ وہ جمشید دستی کے فوری طور پر پروڈکشن آرڈرز جاری کریں کیونکہ دوران اجلاس کسی بھی رکن کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا اگر انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی گئی تو پی ٹی آئی مزاحمت کرے گی ادھر عوامی راج پارٹی کے سربراہ کی گرفتاری پر عمران خان، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور شیخ رشید احمد سمیت تمام اپوزیشن رہنماؤں نے سخت مذمت کی ہے کیونکہ اسمبلی میں احتجاج ان کا آئینی حق تھا اس کی سزا دینا اپوزیشن کی آواز کو دبانا ہے لیکن ایک بات رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کے حق میں گئی ہے کہ ان کی گرفتاری پر ان کے سیاسی مخالفین نے بھی مذمت کی ہے خصوصاً مظفر گڑھ سے ان کے پرانے سیاسی حلیفوں اور حریفوں نے سخت احتجاج کیا جن میں تازہ تازہ تحریک انصاف میں شمولیت اخیار کرنے والے ’’سابق شیر پنجاب‘‘ ملک غلام مصطفی کھر بھی شامل ہیں۔
امکان غالب تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری ملتان آئیں گے تو انہیں سیاست کے بڑے ناموں کی پارٹی میں شمولیت کی سلامی دی جائے گی لیکن لگتا ہے کہ ’’پارٹی‘‘ کو نظر لگ گئی ہے اس لئے تو اتنا کچھ انتظام کرنے کے باوجود ایک ہی خاندان کے دو سابق ایم پی اے بھائیوں کو ایک مرتبہ پھر پارٹی میں شمولیت اختیار کروا دی گئی قبل ازیں بھی وہ پیپلز پارٹی میں ہی تھے لیکن بوجوہ تحریک انصاف میں چلے گئے لیکن اب پھر ٹوپی گھوم گئی ہے اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود گیلانی کی تمام تر شبانہ روز کاوشوں کے کوئی نامور سیاسی شخصیت قابو نہ آسکی اب یہ پیپلز پارٹی کی قسمت کہ ایسے وقت میں ہوا جب انہیں کم از کم جنوبی پنجاب سے وننگ ہارسز کی سخت ضرورت ہے کیونکہ یہ بات وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا جس طرح سے صفایا ہو رہا ہے اور ان کے رہنماء جس تیزی سے ادھر ادھر جا رہے ہیں اس سے پنجاب میں سیاسی واپسی کا ان کا خواب پورا نہیں ہو پائے گا لہذا جنوبی پنجاب پر ہی فوکس کیا جا رہا تھا لیکن بلاول بھٹو زرداری کے اس دورہ میں نہ صرف انہیں خود مایوسی ہوئی بلکہ مقامی رہنماء بھی سخت مایوس ہوئے ہیں جس کا برملا اظہار انہوں نے نجی محفلوں میں بھی کیا ہے اور اب وہ انتظار کر رہے ہیں کہ دوسری سیاسی جماعتیں آنے والے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کریں اور جنہیں ٹکٹ نہ ملیں ان کو پیپلز پارٹی ’’اپنا‘‘ لے کیونکہ پارٹی کے اپنے عہدیدار یہ کہہ رہے ہیں کہ نئے لوگ شامل کرانا تو دور کی بات ہے موجودہ لوگ ہی پارٹی میں رہ جائیں تو بڑی بات ہے کیونکہ ان کے چیئر مین کے آنے پر پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں کے لئے الگ الگ انتظامات کئے تھے جس پر عہداوں اور کارکنوں میں سخت تلخ کلامی بھی ہوتی رہی جبکہ متعدد جیالوں کو دعوتی کارڈ بھی نہیں دئیے گئے جبکہ بلاول زرداری بھٹو خود بھی کوئی زیادہ مطمئن نہیں ہوئے شاید اسی لئے انہوں نے حکومت پر نہ صرف سخت تنقید کی بلکہ لتے بھی لئے اور کہا کہ ملک میں حکومت نہیں عذاب مسلط ہے کاروباری بادشاہوں سے پوچھا جائے تو تذلیل سمجھتے ہیں 19 ہزار میگا واٹ بجلی صرف اشتہارات میں ہے حقیقت حال طویل لوڈشیڈنگ ہے خصوصاً سندھ میں 19 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے کسان، مزدور اور پاور لومز ورکرز بدحالی کا شکار ہیں جبکہ حکمران کارکن بیلٹ میں شوگر ملیں قائم کر رہے ہیں جو کسانوں کا استحصال ہے انہوں نے ایف ایف سی ایوارڈ کو بجٹ میں شامل نہ کرنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کے حصہ میں جنوبی پنجاب میں ریکارڈ ترقی ہوئی ہے تاہم بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی پنجاب کی الگ صوبہ بنانے کے موضوع کو تقریر کا حصہ نہیں بنایا اور نہ ہی کسی بات چیت میں اس کا ذکر کیا جبکہ جنوبی پنجاب الگ صوبہ کی گردان کرنے والے پارٹی رہنماء بھی حیرت انگیز طور پر اس موضوع پر خاموش رہے جس کا سرائیکی قوم پرست جماعتوں نے سخت برا منایا کیونکہ انہیں توقع تھی کہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین جنوبی پنجاب کو الگ صوبے کی تحریک کی حمایت کریں گے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا جس پر سرائیکی قوم پرست لیڈر سخت مایوسی کا شکار ہوئے کہ پیپلز پارٹی پر سخت تنقید بھی کی اور بلاول بھٹو زرداری پر جنوبی پنجاب کو نظر انداز کرنے کا الزام بھی عائد کر دیا ۔