کس نے کیا کارکردگی دکھائی
الیکشن قریب آتے ہی مختلف طبقات جماعتوں اور افراد کی طرف سے بہت کچھ کرنے یا کچھ نہ کر سکنے کے دعووں کی دھول اڑائی جا رہی ہے۔ انتخابی مہم کے ابتدائی دنوں کی مفابلہ بازی کو دیکھ کر ایسے محسوس ہو نے لگا ہے کہ2018 ء کے الیکشن کی مہم کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی، اس سلسلے میں دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے کاروباری طبقہ اور عوام کے مطالبات کیا تھے اور انہیں کس حکمران نے کس حد تک پورا کیا ہے۔
2013 ء کے الیکشن سے پہلے ملک میں بجلی کا شدید بحران تھا۔کارخانے ملیں اور فیکٹریاں بیشتر وقت بند رہتے۔ مارکیٹو ں میں مندی کا عالم رہتا۔ گھروں میں لوڈشیڈنگ اور گرمی سے لوگ جھلس رہے ہوتے تھے۔
صنعت کے لئے بجلی بنیادی ضرورت ہے، اس لئے بجلی نہ ملنے کی وجہ سے فیکٹریاں بیرون ملک منتقل ہونے لگی تھیں ، ان حالات میں کاروباری طبقے اور عوام کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت بجلی مہیا کرے۔
اس وقت کی حکومت پہلے تو ٹس سے مس نہ ہوئی، لیکن مطالبے میں شدت پیدا ہوئی تو حکمرانوں نے بجلی دینے کے نام پر اپنی کمائی کا دروازہ کھول لیا۔ کرپشن میں دھنسے ہوئے رینٹل پاور اسٹیشن منگوا لئے۔ ان سے حاصل ہونے والی بجلی اس قدر مہنگی تھی کہ مصنوعات کی پیداوار ی لاگت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ، عام آدمی گھر کے برتن بیچ کر بھی بجلی کا بل ادا نہ کرسکتا۔
کاروباری طبقے کی چیخ و پکار سن کر اعلی عدلیہ نے رینٹل پاور اسٹیشنوں کو ناقابل استعمال قرار دے دیا۔ الیکشن میں بھرپور کامیابی سے میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف اقتدار میں آئے۔
بجلی کی فراہمی کو انہوں نے اپنی پہلی ترجیح قرار دیا اور دھڑا دھڑ بجلی کے منصوبوں کا آغاز کر دیا گیا۔ میاں محمد شہباز شریف کی لگاتار محنت اور نگرانی سے متعدد منصوبے جلد مکمل ہوکر بجلی دینے لگے۔ کارخانے اور فیکٹریاں چلنے اور روزگار کے مواقع بڑھنے لگے۔ حکومت نے بجلی کی پیداوار کے لئے آبی ذرائع کے علاوہ سولر اور ونڈ وغیرہ سے بھرپور استفادہ کیا۔
پانچ سال میں حکومت نے گیارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرکے صوبے سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیا، اس طرح پنجاب حکومت نے میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں کاروباری طبقے اور عوام کی پریشانیوں کا مداوا کر دیا۔ خیبر پختونخوا اور سندھ کی حکومتوں نے بجلی کی پیداوار کے لئے شدید قسم کی نااہلی کا ثبوت دیا۔
خیبر پختونخوا نے صرف 70میگا واٹ بجلی پیدا کی، جبکہ سندھ کے حکمرانوں نے ایک میگا واٹ تک بجلی نہیں بنائی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کراچی میں گھنٹوں بجلی ناپید اور عوام گرمی میں جھلستے رہتے ہیں۔ دونوں صوبوں کے حکمران دن رات پنجاب کے حکمرانوں کی کارکردگی پر الزامات کی دھول ڈالتے رہتے ہیں ۔
بجلی کی کمی کے ساتھ ساتھ 2013ء کے الیکشن سے پہلے ملک میں دہشت گردوں کا راج تھا، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا، جب مسجد امام بارگاہ دینی مدرسہ پولیس اسٹیشن یا پبلک مقام پر خود کش حملہ یا یم دھماکہ نہ ہوتا، جس میں متعدد افراد لقمہ اجل بن جاتے تھے، کاروباری مراکز اور منڈیوں پر ہمہ وقت خوف کے بادل منڈلاتے رہتے تھے۔
بیرونی تاجر اور سرمایہ کار پاکستان آنے سے کتراتے تھے، میاں محمد نواز شریف کی حکومت بنی تو انہوں نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور پاک فوج کی قیادت کو ایک جگہ بٹھایا اور معاملے کی سنگینی سے انہیں آگاہ کیا۔ پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کا اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا۔ پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔ کافی کو مار مکایا۔ جو بچے وہ بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور اسلحہ فیکٹریوں کو تہس نہس کر دیا۔
دہشت گردوں کی وجہ سے جو لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پرمجبور ہوئے تھے، انہیں حکومت نے بحفاظت ان کے گھروں میں پہنچایا۔ اللہ کا صد شکر کہ پاک سرزمین دہشت گردوں سے کافی حد تک پاک ہو چکی ہے۔
کراچی میں اکثر سڑکوں کو معصوم خون سے رنگین بنا دیا جاتا تھا۔ بھتہ خوری عروج پر تھی۔ بوری بند لاشیں اکثر دوکان یا گھر کے سامنے ملتی تھیں ۔ کراچی بندرگاہ پر تجارتی سامان لانے اور لے جانے والے ٹرک اکثر راستے میں لوٹ لئے جاتے تھے ۔
داد فریاد سننے والا کوئی نہ تھا رینجرز کے جوانوں نے جان نثارانہ کارروائیوں سے بھتہ خوروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا، کافی مارے گئے اور کچھ تائب ہوگئے، اب کراچی میں امن بحال ہوچکا ہے، مارکیٹوں میں کاروباری سرگرمیاں جاری وساری ہیں اور عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
حسد کی پیاس بجھانے اور نت نئی سازشوں کا جال بچھانے والے جو جی چاہے کہتے رہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی پیدا وار بڑھانے صنعتوں کو چلانے اور امن بحال کرنے میں پاک فوج کے ساتھ ساتھ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا کافی کردار تھا۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے انفراسٹرکچر کو معیاری بنانا بے حد ضروری ہوتا ہے۔2013 ء سے پہلے سٹرکیں اور شاہراہیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی تھیں۔ لاہور سے اسلام آباد تک موٹر وے میاں محمد نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں تعمیر کی تھی، اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے انفراسٹرکچر بہتر بنانے کی طرف دھیان تک نہیں دیا تھا۔
لامحالہ کاروباری طبقہ کا پر زور مطالبہ تھا کہ انفراسٹرکچر معیاری بنایا جائے۔ میاں برادران نے اقتدار میں آتے ہی شاہراہوں کی تعمیر و ترقی پر کام شروع کرایا۔ لاہور میں ٹریفک کا اژھام رہتا تھا، چنانچہ میٹرو بس چلانے کا منصوبہ بنایا گیا، جونہی سڑک پر ٹریک کی تعمیر شروع ہوئی سیاست دانوں نے اسے جنگلا بس کہہ کر حقیر اور بے فائدہ قرار دینا شروع کر دیا۔ طعنوں اور مشکلات کے باوجود کام جاری رہا لاہور میٹر و کی تکمیل کے بعد راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان میں بھی میٹرو بس چلائی گئی، اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ پورے پنجاب میں خوبصورت سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا، اس طرح پنجاب حکومت نے بہترین ٹرانسپورٹ سہولتیں فراہم کرنے کے لئے کاروباری طبقہ اور عوام کا مطالبہ پورا کر دیا۔
کسی وقت ہسپتالوں کی صورت حال کافی خراب تھی ۔
میاں محمد شہباز شریف نے ایک ایک ہسپتال پہنچ کر اسے دیکھا اور اسے اپ ڈیٹ کرایا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کلاشنگوف کلچر کی وجہ سے والدین بہت پریشان رہتے تھے، میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف نے طالب علموں کے ہاتھ سے کلاشنکوف لے کر انہیں لیب ٹاپ دے دیا، تاکہ تعلیمی صلاحیتوں کو فروغ ملے، اس سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ماحول میں کافی بہتری آئی۔
والدین نے سکھ کا سانس لیا ہے ۔کاروباری طبقہ کافی حد تک مطمئن ہے کہ بہتر حکومتی کارکردگی کی وجہ سے صنعتوں کی شرح نمو میں کافی بہتر آئی ہے، اسی طرح ڈانوا ڈول سٹاک ایکسچینج کی ترقی و رونقوں میں اضافہ ہوا ہے۔
خلاصہ یہ کہ 2013ء سے پہلے بجلی کا شدید بحران تھا۔ 2018ء آنے تک پنجاب میں وافر بجلی مل رہی ہے۔2013 ء سے پہلے ملک میں دہشت گردوں کا راج تھا۔ 2018ء کے آنے تک دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی اور ملک میں امن قائم ہوچکا ہے۔
کراچی میں کاروبار کرنا اور کاروباری طبقے کا رہنا محال و مشکل تھا، جبکہ2018 ء سے پہلے کراچی میں امن قائم ہو چکا ہے ۔
کاروباری سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں، بد قسمتی سے دوسری حکومتوں نے بجلی کا بحران ختم کرنے کے لئے کچھ نہ کیا اور نہ میٹرو یا موٹر وے بنائی۔ البتہ دوسروں پر الزامات کے پہاڑ تعمیر کئے ۔