تبدیلی کا سال ؟

تبدیلی کا سال ؟
تبدیلی کا سال ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سپریم کورٹ نے عام انتخابات کے نامزدگی فارم میں تبدیلی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کر کے 25 جو لائی کو عام انتخابات کے انعقاد کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ دور کر کے انتخابی عمل کی ہموار روانی یقینی بنا دی۔

ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری بدنظمی سے پریشان ہونے کی ضرورت تو نہیں، لیکن ہمارا سماج اس وقت جس قسم کے سیاسی تضادات میں الجھا ہوا ہے،اسے صحت مند جمہوری عمل اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی متوازن بنایا جا سکتا ہے، صرف آئینی راستہ ہی محفوظ راہ عمل ہے،شاہراہ دستور سے بھٹکنے کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔

لاریب،سپریم کورٹ نے الیکشن کے انعقاد کی راہ میں حائل تکنیکی رکاوٹوں کو دور کر کے سیاسی قوتوں اور ریاست کو براہ راست تصادم سے بچا لیا۔فی الوقت ہمارا معاشرہ غیرمعمولی تبدیلیوں کے جن حساس مراحل سے گزر رہا ہے اس میں عدلیہ، مقتدرہ اور پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی ادارہ مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا،ایک تو انتخابی معرکہ بجائے خود سیاست،معیشت اور ذہن انسانی میں طوفان برپاکر کے شدید قسم کی محاذآرائی کا محرک بنتا ہے جس کی حدّت معاشرے کی جزیات تک اتر جاتی ہے،دوسرا فاٹا انضمام اور مغربی سرحدات کے ازسر نو تعین کے عمل نے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی پیچیدگیوں کو دوچند کر دیا۔

مغربی سرحدات پر آباد قبائلی معاشرے کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ بھی کم پُرخطر نہیں،وہ اجتماعی محرکات جن پر ہمارا سیاسی نظام کھڑا ہے،وہ انسان کی ان انفرادی جبلتوں سے کہیں زیادہ کمزور ہیں،جو حصول دولت،شہرت،پیکار اور انتقام کے جذبات سے لبریزہیں،یہی جبلتیں ہمارے اقتصادی نظام کی تہہ میں بھی کارفرما نظر آتی ہیں، پھرایک محدود مگر جداگانہ قبائلی شناخت کے مسحورکن رومانس سے نکل کے مخلوط اور غیر محدود معاشرتی ماحول کی طرف ذہنی ہجرت کرنے والے لوگ، اس نفسیاتی سفر میں بے یقینی اور کنفیوژن کا شکار بھی ہو سکتے ہیں،بیشک،جس معاشرے کو صدیوں تک خوف و ترغیب کے ہتھیاروں سے ریگولیٹ کیا گیا ہو وہاں شخصی آزادی نعمت سے زیادہ حیرانی کا موجب بنتی ہے۔
قبائلیوں کو موروثی عادات اور اپنی آبائی جبلتوں کو عقلی ہدایت کے تابع لانے میں وقت لگے گا، اس لئے فاٹا کا ایک ایسے متنوع معاشرے میں ادغام سہل نہیں،جہاں کی اکثریت شخصی آزادیوں کو قبائلی عصبیت پر فوقیت دیتی ہو،اعلی ہذالقیاس،قبائلی پٹی کی اجتماعی حیات میں پیدا ہونے والے مد وجزر کو معمول پر لانے کے لئے بھی جمہوری عمل کی لچک اور نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کی متغیر حرکیات کو بروکار لانا پڑے گا کیونکہ رائے عامہ ہی افراط و تفریط کو ختم کرنے کا حتمی ذریعہ اور کسی قانون سے زیادہ موثر وسیلہ ثابت ہوتی ہے۔

مشرقی سرحدات پر بھارت سے برھتی ہوئی کشیدگی اور کشمیر میں آزادی کی پرجوش تحریک بھارت کے لئے اتنی پریشان کن نہیں، جتنی وہ ہمارے بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور اس خطہ میں طاقتوروں کے درمیان پیکار کی ممکنات کو ظاہر کرتی ہے۔

جنوبی پنجاب،ہزارہ اور سندھ میں نئے صوبوں کے قیام کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں جنہیں زیادہ دیر تک نظرانداز کرنا ممکن نہیں ، حالات کے تیور بتاتے ہیں بہاولپور، سرائیکی، ہزارہ اور جنوبی سندھ صوبہ کے قیام کو اب نوشتہ دیوار سمجھا جائے۔

ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی اور فاروق ستار نے پہلی دفعہ یک زباں ہو کے نہایت واشگاف الفاظ میں کراچی وحیدرآباد پر مشتمل جنوبی سندھ صوبہ کے قیام کا مطالبہ کر کے سندھ کی سیاست میں ہلچل پیدا کردی،دراصل ایم کیو ایم کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہی اردو بولنے والوں کے لئے الگ انتظامی یونٹ کا حصول تھا، لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اس وقت کی فوجی حکومت سندھ کی حد تک زیادہ دفاعی پوزیشن میں چلی گئی اس لئے ایم کیو ایم کے بنیادی مطالبات کو التوا میں رکھنا پڑا،سن انیس سو اَسّی اور نوّے کی دہائی میں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے دور حکمرانی میں یکے بعد دیگرے دو آپریشنوں کے ہاتھوں پامال ہونے والی ایم کیو ایم جب سیاسی تنہائی کا شکار ہوئی تو اس نے سندھی قوم پرستوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے ابتدائی چارٹر آف ڈیمانڈ،کو ٹہ سسٹم کا خاتمہ،بہاریوں کی واپسی اور الگ انتظامی یونٹ کے قیام جیسے مطالبات سے عارضی پسپائی اختیار کر کے خو د کو بائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں کیلئے قابل قبول بنایا۔
اب وقت نے کروٹ بدلی تو ایم کیو ایم نے ایک بار پھر الگ انتطامی یونٹ کے حصول کے مطالبہ کو اٹھا کے اپنی دم توڑتی سیاست کو نئی توانائی فراہم کی،تاہم الگ صوبہ کے حصول کی خاطر ایم کیو ایم کو پنجاب اور خاص طور پر جنوبی پنجاب کے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر کالا باغ ڈیم کے قیام کی کھل کے حمایت کرنا ہو گی،ایک حیران کن امر یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ اور سوشل میڈیا میں عین عام انتخابات کے دوران کالاباغ ڈیم بنانے کے ایشو کو زیر بحث لانا،خیبر پختونخوا میں اے این پی اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کو توانائی دینے کے مترادف ہو گا۔بلاشبہ!بڑے وچھوٹے ڈیموں کے قیام کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں،اس وقت پاکستان جن گمبھیر مسائل سے دوچار ہے ان میں پانی کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین نظر آتاہے،ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں تسلیم کیا کہ مستقبل کی جنگیں پانی کے حصول کی خاطر لڑی جائیں گی،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کے حصول کے تنا زعات دراصل بقاء کی جنگ ہیں جو مسئلہ کشمیر سے کہیں زیادہ سنگین ثابت ہوں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی حالیہ پریس بریفنگ میں پہلی بار،افغانستان سے امریکہ کی فاتحانہ واپسی کی آرزو کا اظہار کر کے ایک بڑی پالیسی شفٹ کا اشارہ دیا،اگر ہمارا اندازہ درست ہے تو اس سے جنوبی ایشیاکی جیوپالیٹکس میں انتہائی دور رس تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں، انہوں نے دوہزار اٹھارہ کو تبدیلی کا سال قرار دیتے ہوئے جو مختصر کمنٹ کیا اس میں ایک جامع پیغام پنہاں تھا جسے امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا نے سمجھا اور اپنا نپّا تلہ ردعمل بھی دیا،بریفینگ کے فوری بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے اعلی سطح کے سفارتی روابط کو بحال اورافغانستان میں طالبان کے عارضی سیز فائر پر بات کی،اس ایشو پر واشنگٹن میں خوشگوار حیرت سے مزین اعلی سطح مشاورت اجلاسوں کا انعقاد کسی بڑی تبدیلی کی غماضی کر رہا ہے۔
686ارب ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود اٹھارہ سالوں پر محیط اس طویل اور ناشائستہ بنا دینے جنگ میں امریکہ کو ایسی ادھوری فتح ملی،جسے ابھی جنگ سے جدا نہیں کیا جا سکتا،اسکا ایک قدم فتح کی جانب تو دوسرا ہارے ہوئے مگر زندہ دشمن کی گردن پر ہے،ایسے میں میدان جنگ سے امریکہ کی روانگی شکست سے زیادہ خطرناک نتائج کی حامل ہو گی،دنیا کی واحد سپرپاور اپنی ساکھ اور دھاک کو داو پر لگا کر افغانستان کے میدانوں کو نہیں چھوڑ پائے گی،اس لئے ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ دنیا کی اس مہیب جنگی طاقت کا بڑھتا ہوا اشتعال اس خطہ کو تباہی کی طرف دھکیلتا چلا جائے گا۔اس وقت افغان وار کا نقطہ ارتکاز ہی یہاں سے امریکی افواج کی فاتحانہ یا غیر فاتحانہ واپسی پر محمول ہے،اگر افغانستان میں جنگ جاری رہی تو ہم بھی غیرجانبدار نہیں رہ پائیں گے ،بلکہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کا کوئی ملک بھی خود کو اس جنگ کی قہرمانیوں سے الگ نہیں رکھ سکتا،چنانچہ پرامن بقائے باہمی کی خاطر ساوتھ ایشیا کے تمام ممالک کو امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ دینے کی حکمت عملی پر متفق ہونا پڑے گا۔فطرت کے اٹل قوانین کہتے ہیں کہ جب یہ جنگ ختم ہو گی تو معلوم ہو گا کہ فاتح اور مفتوح نے وہ تمام چیزیں کھو دیں،جن کی خاطر وہ لڑ رہے تھے۔ خطہ میں امن کی بحالی کے لئے وسیع تر مفاہمت کے معاملہ میں ہم اپنی عسکری قیادت کی بصیرت پر بھروسہ کر سکتے ہیں کیونکہ انہیں چالیس سالوں پر محیط اس اعصاب شکن کشمکش کی جزیات کا کامل ادراک اور عہد جدید کی مہیب دہشت گردی سے نمٹنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے،افغان تنازعہ کا پرامن حل پاکستان کے لئے علاقائی تنازعات سے جان چھڑا کے آگے بڑھنے کا بہترین موقعہ بن سکتا ہے کیونکہ سی پیک کی تخلیق کے بعد ایک خوبصورت مستقبل اس قوم کا منتظر کھڑا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -