خدا کی دلچسپی کا سامان کچھ اور ہے!
سبھی جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کا شمار دُنیا میں سب سے کم ٹیکس دینے والی قوموں میں ہوتا ہے۔ خیرات، مگر بڑھ چڑھ کر دیتے ہیں۔ ٹیکس کا بنیادی تصور اسلام میں زکوٰۃ و عشر کی شکل میں روزِ اوّل سے موجود رہا ہے کہ جس کے تحت معاشرے کے خوشحال افراد اپنی آمدنی کے تناسب سے حکومت کے خزانے میں ایک متعین حصہ جمع کرواتے ہیں۔ اس آمدن سے ہی حکومت ِ وقت دیگر ا مور سلطنت چلانے کے ساتھ ساتھ اپنے شہریوں کی بہبود کی ذمہ داری اپنے سر لیتی ہے۔ وطن ِ عزیز میں لیکن صاحب حیثیت طبقہ نا صرف ٹیکس بلکہ زکوٰۃ بھی حکومتوں کو دینے سے کتراتا ہے۔یہ عمومی طرزِ عمل جہاں حکمرانوں پر عدم اعتماد کا اظہارسمجھا جا سکتا ہے تو وہیں اس کے پیچھے خود ثواب دارین کمانے کی خواہش بھی کارفرما رہتی ہو گی۔لوگ خود اپنے ہاتھوں مستحق عزیزو اقربا، حاجت مندوں اور نیک نام خیراتی اداروں کی امداد پراپنا مال خرچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی ایک عظیم الشان ادارے محض عوام کی طرف سے دی گئی زکوٰۃ اور خیرات کے بل بوتے پر چلتے ہیں۔
سخاوت عالمگیر مذاہب کی تعلیمات کا بنیادی جزو ہے۔ حضری عیسیٰ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ اونٹ تو سوئی کے ناکے سے باآسانی گزر سکتا ہے، مگر بخیل دولت مند کا جہنم سے بچ نکلنا ممکن نہیں۔ اسلام میں صدقہ و خیرات کی اہمیت یوں بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ اللہ کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے کہ اس کی راہ میں دیا گیا مال گویا اس کی ذات پر ایک قرض ہے، جس کا بدلہ نہ صرف آخرت بلکہ اِس دُنیا میں بھی پورے کا پورا، بلکہ بڑھا کر لوٹایا جائے گا۔ اللہ کے نبیؐ کہ سخاوت میں اپنی مثال آپ تھے، خلفائے راشدین اور بیشتر صحابہ کرامؓنے بھی زندگی،محض اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر، فقراور قناعت میں بسر کی،جو ہاتھ میں آیا دوسرے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں لوٹا دیا۔
دُنیا بھر میں مسلمان اخوت،سخاوت اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لئے جانے جاتے ہیں۔صدقہ و خیرات بلاؤں کو بھی ٹالتا ہے۔چنانچہ زکوٰۃ و عشر کے علاوہ بھی پاکستان میں اربوں روپے خدا کی راہ میں صدقہ و خیرات کی صورت میں ہاتھ بدلتے ہیں۔ پورا سال وطن ِعزیز کے شہروں اور قصبوں میں مخیر حضرات کروڑوں روپے صرف کرتے اور وسیع وعریض دسترخوان سجاتے ہیں، جہاں سے ہر روز ہزاروں مزدور، پردیسی اور نادار اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ایسے ہی مخیر حضرات مفلس والدین کی بچیوں کی اجتماعی شادیوں کا اہتمام کرتے اور ان میں آسانیاں بانٹتے ہیں۔ ٹرسٹ کے خیراتی ہسپتالوں میں غریب غرباء کا علاج فی سبیل اللہ کیا جاتا ہے۔ مدرسوں میں زیر تعلیم مفلس بچوں کی کفالت اپنے سر لے لی جاتی ہے۔ مسجدیں بناتے اور آباد رکھتے ہیں۔ سیلاب، زلزلہ اور دیگر قدرتی آفات میں تجوریوں کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں۔
خدا کے کچھ بندے حج وعمرہ کے علاوہ رمضان کا آخری عشرہ حرمین شریفین میں ہی بسر کرتے ہیں۔ حرمین شریفین میں بیٹھے ہوئے بھی غریب ہم وطنوں کی حالت ِ زار پر ہمہ وقت دل گرفتہ وپریشان رہتے ہیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں لاچار عوام کو پستے دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ حکومتوں کو کوستے ہیں۔ملک میں کاروباری حالات سے ہمیشہ شاکی رہتے ہیں۔ اپنے کاروبار میں مگرشرح منافع کم کرنے سے خود کو معذور پاتے ہیں۔ ہاریوں، مزدوروں، ملازموں کی تنخواہیں نہیں بڑھاتے،مگر صدقہ و خیرات سے ان کی دل جوئی کرتے رہتے ہیں کہ جس سے بہر حال رب بھی راضی رہتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں،جو مال دار طبقے کے مفادات کا خیال رکھیں، ان کے پارٹی فنڈز میں عطیات فراغ دِلی سے دیتے ہیں۔ مفادِعامہ کے کاموں پربخل نہیں کرتے، مگر حکومتوں کو ٹیکس پورانہیں دیتے۔زکوٰۃ بھی نہیں دیتے۔
حالیہ چند ہفتوں میں کہ دُنیا، مگربدل کر رہ گئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ سر پڑی وباء کس کروٹ بیٹھے گی۔ اِسی ہنگام میں رمضان المبارک کی آمد۔ اس ماہِ مقدس میں کہ آسمانوں سے رحمتیں برستی ہیں۔ فرشتے قلم کھولے نیکیاں لکھنے کو بے تاب رہتے ہیں۔دِل کہ اس مہینے میں پگھل کر آنکھوں سے بہہ نکلتے ہیں۔ مومن مگرمتفکّر ورنجیدہ تھے کہ اس بار برکتوں بھرے مہینے میں بھی مسجدیں آباد ہوں گی یا کہ نہیں۔ عمرہ کے سفر پر توپابندی ٹھہری، حج کا اس سال ٹھیک سے معلوم نہیں۔
اندریں حالات جی چاہتا ہے کہ نیکو کاروں سے عرض کروں کہ اس بار مسجدوں میں گریہ زاری کے ساتھ ساتھ گھر وں میں بھی نیکی کے چشمے کھود لیں اور جی بھر کر سیر ہوں۔کچی بستیوں کے سِروں پر ہر شام راشن بھرے ٹرکوں سے امنڈتے ہجوم پرتھیلے اچھالنے کی بجائے زکوٰۃ و خیرات اس بار حکومت کے حوالے کر دیں کہ سفید پوشوں کی پردہ پوشی میں کام آ سکے، چلتی کاروں کی کھڑکیوں سے بازو باہرنکال کر بیلچے اٹھائے ریوڑوں میں بھیک بانٹنے کی جگہ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے دفتروں میں سفید پوش ملازمین،اپنے کارخانوں میں دیہاڑی دار مزدوروں، اور اپنے گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں،ڈرائیوروں، باورچیوں اور خاکروبوں کو کچھ مہینوں کے لئے بن کام کئے ان کی تنخواہیں ان کے گھروں میں ہی بھیجتے رہیں۔ آفت کے اس دور میں خدا کے بندوں کو بے آسرا ہونے سے بچائے رکھیں۔انہی کے بل بوتے پرہم نے آسودگی سمیٹی۔ اب انہی کوکچھ لوٹانے کا موسم ہے۔ عجب کڑا وقت آن پڑا ہے۔اُس ذات سے، مگر امید ہے کہ جو سب کچھ دیکھتا، سنتا اور جانتا ہے، نیتوں سے ہر گز بے خبر نہیں۔
مطاف پھیرے لینے والوں سے لبا لب ہو یا سائیں سائیں کرتا خالی،ربِّ کعبہ کی بادشاہی کو زوال نہیں۔وہ مقدس مہینے میں جا بجا پھیلی مسجدوں میں رات گئے ہماری مناجات کا بھی محتاج نہیں۔اس کی دلچسپی کا سامان توکچھ اور ہے۔ وہ معاف کرنے والا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہوجاتا ہے۔ کیا خبراس بار بھی ہمیں معاف کر دے۔