دس کروڑ تاوان مانگنے والے ملزم انجام کو کیسے پہنچے؟
’ہیلو، تمھارا ’سامان‘ ہمارے پاس ہے۔ دس کھوکھوں کا بندوبست کرو اگر اپنا سامان صحیح سلامت واپسی چاہتے ہو تو۔‘ایک لاچار اور بے بس باپ احمد یار جن کا پانچ سال کا بیٹا عریض 13 مئی کو گھر کے باہر پارک میں کھیلتے ہوئے اغوا ہو گیا تھا، انھیں 14 مئی کی دوپہر پونے ایک بجے کے قریب ایک نامعلوم غیر ملکی نمبر سے کال کرنے والا پنجابی میں یہ کہتے ہوئے مخاطب ہوا۔احمد یار کو پہلے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ نامعلوم کالر سامان کسے کہہ رہا ہے اور پھر 10 کھوکھوں سے کیا مراد ہے۔لیکن چونکہ احمد یار اپنے بیٹے کے اغوا کے متعلق لاہور کے علاقے بحریہ ٹاؤن کی حدود میں واقع تھانہ سندر میں درخواست جمع کروا چکے تھے تو انھیں اندازہ تھا کہ شاید بیٹے کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا ہے اور ایسے فون آسکتے ہیں۔اس لیے وہ تھوڑی ہی دیر میں سمجھ گئے کہ سامان سے مراد ان کا مغوی بچہ ہے لیکن وہ پھر بھی جرائم کی دنیا میں استعمال ہونے والی ٹرم کھوکھے کے متعلق ناواقف تھے۔روزنامہ پاکستان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے احمد یار نے بتایا کہ سامان کی اصطلاح انھیں سمجھ آگئی تھی کہ ان کے بیٹے کے متعلق بات کر رہے ہیں لیکن کھوکھوں کی اصطلاح کا انھیں نامعلوم کالر سے پوچھنا پڑا کہ یہ کیا چیز ہے۔احمد یار کے مطابق اس کالر نے جواب دیا کہ 'دس کھوکھوں کا مطلب ہے 10کروڑ!'، جس پر احمد یار نے کالر سے کہا کہ ’میری اتنی سکت نہیں کہ ابھی دس کروڑ کا بندو بست کر سکوں۔‘اس پر نامعلوم کالر نے کہا کہ ’وہ نہیں جانتے بس پیسوں کا بندوبست کریں چاہے بنکوں سے ادھار لیں، بچے بیچیں یا کچھ اور کریں انھیں بس 10کروڑ چاہیں۔‘احمد یار کے مطابق کالر ان کے ساتھ پنجابی میں بات کر رہا تھا۔احمد یار 10 کروڑ تاوان کے مطالبے پر پریشان ہو گئے کیونکہ ان کے پاس اس وقت اتنے روپے نہیں تھے۔ احمد یار گذشتہ کچھ سالوں سے چاول کا کاروبار کرتے ہیں اور وہ اس کاروبار سے معقول آمدنی کما رہے ہیں۔ احمد یار کے دو بیٹے ہیں، ایک آٹھ سالہ محمد عبد اللہ اور دوسرا پانچ سالہ عریض۔عریض پری نرسری کا طالبعلم تھا اور 13 مئی کو گھر کے باہر بنے پارک میں جھولا جھولتے ہوئے اغوا ہو گیا۔
عریض اس وقت اپنے دیگر کزنز اور محلے کے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا جب تقریباً سہ پہر ساڑھے پانچ بجے کے قریب دو نقاب پوش ملزمان سرخ رنگ کی 125 موٹر سائیکل پر آئے اور عریض کو زبردستی اٹھا کر ساتھ لے گئے۔احمد یار نے بتایا کہ وہاں موجود عریض کے کزنز اور دوستوں نے شور کیا لیکن جب تک لوگ جمع ہوتے ملزمان تیزی سے وہاں سے فرار ہو چکے تھے۔احمد یار نے روزنامہ پاکستان کو بتایا کہ 13مئی کو وہ اس وقت گکھڑ منڈی گوجرانوالہ میں تھے جب انھیں گھر سے بیٹے کے اغوا کی اطلاع دی گئی۔ جس کے بعد وہ فوراً لاہور واپس پہنچے اور پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کیا۔پنجاب پولیس کے ضابطہ کار کے تحت قتل، ڈکیتی، ریپ اور اغوا کے کیسیز میں لوکل پولیس کے ساتھ ساتھ کرائم ایجنسی (سی آئی اے) کی ٹیمیں بھی متحرک ہو جاتی ہیں اسی لیے جیسے ہی اس اغوا کا مقدمہ درج ہوا تو فوراً سی آئی اے پولیس کی ٹیمیں بھی حرکت میں آگئیں۔ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار نے روزنامہ پاکستان کو بتایا کہ اطلاع ملتے ہی سی آئی اے لاہور کی تمام ٹیمیں متحرک ہوگئیں کیونکہ پہلی ترجیح بچے کو صحیح سلامت بازیاب کروانا تھا۔ایس پی سی آئی اے کے مطابق ان کا ٹیکینیکل ونگ بھی پوری طرح متحرک ہوچکا تھا جو سی سی ٹی وی کی مدد سے بچے کے اغوا اور ملزمان کے فرار کے روٹ کی نشاندہی کر رہا تھا۔'ہم تین، چار روز کے اندر اندر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ بچے کو اغوا کرنے والے کون لوگ ہو سکتے ہیں اور کس مقصد کے لیے بچے کو اغوا کیا گیا ہے۔'عاصم افتخار کے مطابق 'اس وقت تک بچے کے والدین کو ہم نے یہ اطلاع نہیں دی کہ ان کے بچے کے اغوا میں کون کون ملوث ہوسکتا ہے تاکہ بچے کی بازیابی کا آپریشن متاثر نہ ہو۔' دوسری طرف پولیس متاثرہ خاندان بالخصوص مغوی بچے کے والد احمد یار کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھی اور اسے اغوا کاروں کے ساتھ بات چیت کے متعلق آگاہ کرتی رہتی۔ احمد یار کے مطابق اغوا سے لے کر ان کے بیٹے کی بازیابی تک اغوا کاروں نے اسے 14سے 15 کالز کیں جس میں تاوان کی رقم کے متعلق بات چیت ہوئی۔ پولیس بھی احمد یار کو سمجھا رہی تھی کہ وہ بات چیت کے ذریعے جتنا زیادہ وقت اغوا کاروں سے لے سکتے تھے اتنا لیں تاکہ انھیں ان کی لوکیشن کے متعلق صحیح معلومات مل سکیں۔کیونکہ اغوا کار ہمیشہ کال ایک غیر ملکی نمبر سے کرتے کیونکہ ان کا ایک ساتھی مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں بیٹھ کر یہ سب کر رہا تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں موجود ملزمان کی لوکیشن تک پہنچنا ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کے مطابق پولیس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بات چیت کے پانچویں روز بات پانچ کروڑ تاوان تک آگئی اور ہوتے ہوتے 19 مئی کو ڈیڑھ کروڑ روپے میں اغوا کاروں کے ساتھ ڈیل فائنل ہو گئی۔ لیکن ملزمان میں سے ایک مہوش جو کہ احمد یار کی سوتیلی ساس ہیں وہ نہیں مان رہی تھی اور ان کا بار بار اصرار تھا کہ پانچ کروڑ سے کم میں ڈیل نہیں کرنی۔یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مغوی بچے کے نانا نے دو شادیاں کر رکھی ہیں۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کامران عادل نے روزنامہ پاکستان کو بتایا کہ اغوا برائے تاوان کے لیے ساری منصوبہ بندی احمد یار کی سوتیلی ساس 25 سالہ مہوش نے کی جس کو عملی جامع اس نے اپنے دوست اور پولیس ریکارڈ یافتہ ملزم شہباز کے ذریعے پہنچایا۔ کامران عادل کے مطابق شہباز نے مہوش کے کہنے پر بچے کو اغوا کرنے کے لیے اپنے دیگر ساتھیوں کا بندو بست کیا تھا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق شہباز اور دیگر ملزمان اقدام قتل سمیت دیگر سنگین وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کامران عادل نے بچے کی بازیابی کے بعد روزنامہ پاکستان کو بتایا کہ پولیس پہلے دن سے تمام روٹ پر نظر رکھے ہوئے تھی اور ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں ملزمان بچے کو پشاور یا کراچی وغیرہ نہ لے جائیں جس سے ہمارے لیے مشکلات بڑھ جانی تھیں۔ ’آج کل آپ کو پتا ہے کہ بہت سے گینگ آپریٹ کر رہے ہیں اور ایسے کیسیز میں وہ پیسے لے کر کسی دوسرے گروہ کو بیچ دیتے ہیں اور پھر پولیس کا مغوی کو واپس لانا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے۔‘ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کامران عادل کے مطابق پولیس اس شبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف شہروں میں چھاپے مار رہی تھی اور اسی طرح کے ایک چھاپے میں جو سرائے عالمگیر مارا گیا تھا وہاں سے دو ملزمان سجاد اور اکرم کو حراست میں لیا گیا اور ملزمان کے قبضے سے دو عدد جدید کلاشنکوف اور 1000 گولیاں بھی برآمد کی گئیں۔ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے مطابق دوران تفتیش ملزمان نے سب بتا دیا اور بچے کو ان کے دیگر ساتھی لاہور کے ایک مقام پر چھوڑ گئے جہاں سے پولیس نے اسے اپنی حفاظت میں لے لیا۔'ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے مطابق اس گینگ کا غیر ملکی ساتھی بھی بہت جلد انٹر پول کی مدد سے وطن واپس لایا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس واردات کے مرکزی ملزم مہوش اور اس کے دوست شہباز جو کہ دونوں فرارتھے بچے کی بازیابی کے چند روز بعد پولیس کی ایک ٹیم ان کی گرفتاری کے لیے لاہور کے علاقے باٹا پور میں پہنچی جہاں بچے کو اغواء کرنے والا مرکزی ملزم شہباز ایک مبینہ پولیس مقابلے کے دوران ہلاک ہوگیا جس کے پانچ روز بعد دوسرے ملزم اویس کو بھی اسی علاقے میں لے جا کر ہلاک کردیا گیا اور کہا گیا کہ وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ ڈی آئی جی کامران عادل کے مطابق سی آئی اے اقبال ٹاؤن کی ٹیم اطلاع پاکر بھسین گاؤں پہنچی تھی جہاں ملزم نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ میں مارا گیا۔ملزم کی ساتھی خاتون اور مغوی بچے کی سوتیلی نانی مہوش کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے انسپکٹرزسی آئی اے محمد علی، وقاص الحسن،نبی بخش اور انسپکٹر حسنین فاروق،سب انسپکٹرز ظہیر الدین بابر،محمد قاسم، عامر انجم،رانا محمد اکرم اور سب انسپکٹر شہروز لطیف،اے ایس آئی محمد علی،نویداحمد اورجواد فاروق، ہیڈ کانسٹیبل فقیر حسین،کانسٹیبل محمد اجمل اور کانسٹیبل ڈرائیور محمد اکبر کو تعریفی اسناد اور نقد انعام سے نوازا۔سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے روزنامہ پاکستان کو بتایا کہ بچے کے اغوا کا کیس لاہور پولیس کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر گیا تھا تاہم خصوصی ٹیم نے دن رات کی محنت سے کیس کو حل کیا۔ سربراہ لاہور پولیس نے کہا کہ بچہ اغوا کیس کے دلخراش واقعہ نے پورے معاشرہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا کیونکہ بچے کی جان کو اغوا کاروں سے خطرہ لاحق تھا۔ لاہور پولیس نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی اور پیشہ وارانہ مہارت بروئے کار لاتے ہوئے گھناونے جرم کے مرتکب ملزمان کو گرفتار کیا۔ بلال صدیق کمیانہ نے کہا کہ اغوا برائے تاوان کے ملزمان کسی رعائت کے مستحق نہیں،تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی۔سی سی پی او نے کہا کہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت پولیس کی اولین ترجیح ہے۔
٭٭٭
بحریہ ٹاؤن سے پانچ سالہ بچے کا اغوا
اغوا برائے تاوان کے لیے ساری منصوبہ بندی احمد یار کی سوتیلی ساس مہوش نے کی