بھائی نے بھائی اور بھابی کو ابدی نیند سلا دیا!

بھائی نے بھائی اور بھابی کو ابدی نیند سلا دیا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آج کے نفسا نفسی کے دور میں بھائی کے بھائی کا دشمن بن جانے اور خون سفید ہو جانے کا مقولہ زباں زد عام ہے جسکی وجہ ہمارے ہاں ہونیوالے گھریلو جھگڑے ہیں جن میں بیچ بچاؤ تو عزیز و اقرباء یا اہل علاقہ کی طرف سے کسی حد تک اکثر کروادیا جاتا ہے مگر ان جھگڑوں کے حتمی تدارک کی سبیل نہیں کی جاتی ہے جس کے سبب دلوں میں پلنے والی رنجشیں کدورتیں حسد اور نفرت ایسے ہولناک واقعات کو جنم دیتی ہے کہ جن میں نوبت انسانی جانوں کے بے دریغ ضیاع تک جا پہنچتی ہے جس کی ایک واضح مثال تھانہ سٹی بی ڈویژن شیخوپورہ کی حدودکی آبادی شاہ کالونی کا دردناک واقعہ ہے جس نے اہل دل افراد کو لرزا کر رکھ دیا،واقفان حال کے مطابق محلہ احمد پورہ مریدکے کے رہائشی سلطان علی کی بیٹی اومیسا بتول کی شادی چند برس قبل شیخوپورہ کی آبادی شاہ کالونی کے رہائشی محمد حسین کے بیٹے گل زمان سے ہوئی جس کے خاندان کا ذریعہ معاش مویشیوں پالنا اور دودھ فروخت کرنا تھا اومیسا بتول اور گل زمان کی زندگی نہایت خوش و خرم بسر ہورہی تھی، میاں بیوی ایک دوسرے کے اچھی طرح مزاج آشنا ہوچکے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کا آپس میں کبھی کوئی بڑا جھگڑا نہیں ہوا تھا جبکہ اومیسا بتول کے والدین بھی نہایت خوش تھے کہ انکی بیٹی کے دامن میں اللہ تعالیٰ نے خوشیاں ہی خوشیاں سمیٹ رکھی ہیں اومیسا بتول کے والدین جب بھی بیٹی سے ملنے مریدکے سے شیخوپورہ آتے تو بیٹی کو لاڈ پیار دینے کے ساتھ ساتھ داماد کو بھی خوب پیار سے نوازتے جو انکی بیٹی کی خوش و خرم ازدواجی زندگی کی بنیاد اور محور تھا مگر انکی یہ خوشی گل زمان کے بڑے بھائی وقاص کیلئے قابل برداشت نہیں تھی جو چھوٹی چھوٹی بات پر اکثر گل زمان سے جھگڑا شروع کردیتا اسے بیوی کے سامنے ننگی گالیاں دینے سمیت اسکی تزلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑتا حتیٰ کہ بیوی کے پلو سے بندھے ہونے کے طعنے تک دیتا مگرگل زمان اور اسکی بیوی اومیسا بتول اسکی ڈانٹ ڈپٹ اور گالی گلوچ کو برداشت کرکے ہمیشہ سر تسلیم خم کئے رہتے تاکہ گھر کا ماحول مزید کشیدہ نہ ہو اور بات ہاتھا پائی تک نہ پہنچ جائے، 29 مئی کی شام اومیسا بتول کاوالد سلطان علی اپنے قریبی رشتہ دارحر سکندر و دیگر کے ہمراہ بیٹی اور داماد سے ملنے مریدکے سے ان کے ہاں شاہ کالونی آیا آدھی رات تک یہ لوگ باہم گپ شپ میں محو رہے قریبی عزیز و اقرباء کے حال احوال سمیت مختلف موضوعات پر انکی باہمی گفتگو چلتی رہی اور قریب آدھی رات یہ کنبہ خوش گپیوں کے بعد سو گیا، صبح کا سورج طلوع ہواتو حالات ہر روز کی طرح یکسر تھے مگر کسی کو خبر نہ تھی کہ کچھ ہی پل میں ان پر کونسی قیامت ٹوٹنے والی ہے، اومیسا بتول اپنے والد اور اسکے ہمراہ آئے دیگر مہمانوں کے ناشتے کی تیاری میں لگ گئی جبکہ اس کا شوہر گل زمان معمول کے مطابق بھینسوں کو چارہ ڈالنے اورانکا دودھ دھونے کی تیاری کرنے میں مگن ہوگیا اسی دوران اچانک اس کا بڑا بھائی وقاص گھر میں داخل ہوا جس نے جونہی اومیسا بتول کے والد اور دیگر مہمانوں کو دیکھا تو اس کا مزاج ایک دم تبدیل ہوگیا اور اس نے چھوٹے بھائی گل زمان پر بے جاء چیخنا چلانااور شدید گالی گلوچ شروع کردی وہ گل زمان کوباور کروانے لگ گیا کہ وہ بھینسوں کا درست ڈھنگ سے خیال نہیں رکھتا انہیں چارہ وقت پر نہیں ڈالتا اور نہ ہی ان کا دودھ وقت پر دھوتا ہے حالانکہ گل زمان اپنی ان ذمہ داریوں کو معمول کے مطابق ادا کرتا آرہا تھا اور اس روز بھی وہ اپنے بڑے بھائی وقاص کے آنے سے قبل بھینسوں کو چارہ ڈالنے اور دودھ دھونے کی تیاری کررہا تھا جبکہ گل زمان اور اومیسا بتول کی خاموشی وقاص کا غصہ ٹھنڈہ کرنے کی بجائے اس کے اشتعال کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہی تھی کیونکہ اس روز وقاص دل میں تہہ کرچکا تھا کہ آج اومیسابتول کے والد و دیگر مہمانوں کے سامنے انکی شدید تذلیل کریگا مگر ان میاں بیوی کی خاموشی جھگڑے کو بڑھاوا نہ دینے کی خاطر تھی اور یہ بات وقاص کے ارادوں پر پانی پھیرنے کے مترادف تھی لہذاٰ اس نے جی بھر کر گالی گلوچ کی اور جونہی گل زمان نے اسکی کی بات کاٹتے ہوئے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی اور یہ بتانا شروع ہی کیا تھا کہ اس نے بھینسوں کوپانی پلانے سمیت چارہ ڈال دیا ہے اور کچھ ہی دیر میں انکا دودھ بھی دھولے گا مگر گل زمان کا یہ جواب آتے ہی وقاص کا اشتعال آسمان سے باتیں کرنے لگا اور اسکے ذہن پر پڑے بدبختی کے پردے نے اسکا عقل و شعور غارت کردیا اور غصے میں لا ل پیلے ہوچکے وقاص نے اپنی قمیض کے نیچے چھپائی پسٹل نکالی اور گل زمان پر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کردیں کچھ ہی فاصلے پر کھڑے گل زمان کیلئے اس اچانک ہونے والی فائرنگ کی زد میں آنے سے خود کو بچا پانا ممکن نہیں تھا جو سینے پر گولیاں لگتے ہی زمین پر آگرا ملزم وقاص کا اگلا ٹارگٹ گل زمان کی بیوی تھی جسے نشانہ بناتے ہوئے پسٹل میں موجود ساری گولیاں اس پر داغ دیں جو امیسا بتول کے جسم کے مختلف حصوں پر لگیں اور وہ بھی زخمی شوہر کی طرح زمین پر آگری، گھر کے ایک کمرے میں موجود اومیسا بتول کے والد اور دیگر مہمان جو جھگڑے سے آگاہ تو تھے مگر اس یہ سوچ کر خاموش تھے کہ دونوں بھائیوں کا باہمی معاملہ ہے اگر ہم مداخلت کریں گے تو وقاص اسے اپنی مرضی کا رنگ دیکر ہمارا بیٹی کے ہاں آئندہ آنا جانا بند کروادے گا مگر جونہی فائرنگ اور اومیسابتول کے چیخنے کی آواز انکے کانوں میں پڑی تووہ بھاگ کر کمرے سے باہر صحن میں آئے جہاں گل زمان اور اومیسا بتول گولیاں لگنے کے باعث خون میں لپ پت پڑے تھے اور ملزم وقاص انہیں دیکھ کر پسٹل لہراتا ہوا موقع سے فرار ہوگیا،اومیسا بتول کے والد نے دیگر مہمانوں کے ہمراہ بیٹی اور داماد کو سہارا دیا اور مدد کی دھائیاں دینا شروع کردیں فائرنگ اور آہ و صد اکا برپا شور سن کر قریبی ہمسائے بھی آ پہنچے جنہوں نے اس کربناک صورتحال سے آگاہ ہو کر پولیس اور ریسکیو اہلکاروں کو اطلاع دی مگر ریسکیو اہلکاروں کی مدد پہنچنے تک گل زمان سفر آخرت پر روانہ ہوگیا اور اسکی اکھڑتی سانسیں سسر کے دامن ہی میں تمام ہوگئیں جبکہ اومیسا بتول جس کی سانسیں قدرے چل رہی تھیں کو ریسکیو اہلکاروں نے فوری ڈی ایچ کیو ہسپتال اور گل زمان کی نعش کو پوسٹ مارٹم ہاؤس منتقل کیا مگر تشویشناک حالت کے تحت اومیسا بتول کو میو ہسپتال لاہور ریفر کردیا گیا جہاں وہ دو روز تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد شوہر کی طرح زخمو ں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی، با پ جو ایک روز قبل ہی داماد کے جنازہ میں شرکت کرکے بھاری قدموں سے اس دعا کے ساتھ بیٹی کے پاس واپس میو ہسپتال پہنچا تھا کہ اللہ کرے اسکی زندگی بھی اسکی بیٹی کو لگ جائے اور وہ بیٹی کو جانبر دیکھ سکے اسے بیٹی کی بھی میت کو کاندھا دینا پڑا، دوسری طرف تھانہ سٹی بی ڈویژن پولیس نے اومیسا بتول کے باپ سلطان علی کی مدعیت میں اومیسا کے وقت آخر سے ایک روز قبل گل زمان کے قتل کا مقدمہ سفاک بھائی وقاص کے خلاف درج کیا تھا اومیسا بتول کے دم توڑ جانے پر اسکا قتل بھی صفحہ مثل کا حصہ تو بنادیا مگر فرار ملزم وقاص کی گرفتاری عمل میں نہ لاسکی۔
٭٭٭

شیخوپورہ میں معمولی تنازع پر 

وقاص کے متشدد رویے کے باوجود مقتول میاں بیوی کی خاموشی جھگڑے کو بڑھاوا نہ دینے کی خاطر تھی 

مزید :

ایڈیشن 1 -