ایک اور بجٹ کا سامنا ہے۔۔۔ 

 ایک اور بجٹ کا سامنا ہے۔۔۔ 
 ایک اور بجٹ کا سامنا ہے۔۔۔ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 بجٹ کا کیا ہے؟ ہر سال آ جاتا ہے اسے اعداد و شمار کا گورکھ دھندا کہا جاتا ہے جس زمانے میں ہم اقتصادیات کا مضمون پڑھ رہے تھے ان دنوں پتہ چلا کہ بجٹ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے سر پلس بجٹ اور دوسرا ہوتا ہے خسارے کا بجٹ۔ ہوتا تو سرپلس بجٹ اچھا ہے مگر یہ عوام کو پسند نہیں آتا۔ اس میں حکومت اپنے اخراجات کم اور آمدنی زیادہ ظاہر کرتی ہے۔ اخراجات کم کئے جاتے ہیں تو ایک طرف مقتدرہ کے اللے تللے کم ہو جاتے ہیں تو دوسری جانب عوامی فلاحی منصوبوں پر کٹ لگ جاتا ہے اور یوں عوام کو ملنے والی سہولتیں کم ہو جاتی ہیں۔ جبکہ ٹیکسوں کی شکل میں عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوائے جاتے ہیں اس پر ظاہر ہے کہ عوام ناخوش ہوتے ہیں اور جمہوریت میں تو حکومت بنانے اور اسے جاری رکھنے کے لئے عوام سے ہی ووٹ لینا پڑتے ہیں۔ ٹیکس بڑھا دیئے جائیں اور سہولتیں گھٹا دی جائیں تو ووٹ کیسے ملیں گے؟ خسارے کا بجٹ معیشت کے لئے برا مگر عوام کے لئے پسندیدہ ہوتا ہے۔ اس میں ٹیکس بڑھائے نہیں جاتے بس ان میں ردو بدل کیا جاتا ہے۔ سہولتیں اور رعائتیں البتہ بڑھا دی جاتی ہیں اسی لئے اسے عوام دوست بجٹ کہا جاتا ہے یہ بجٹ اقتصادی ترجیحات کی بجائے سیاسی ترجیحات کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ عوام اس پر سکھ کا سانس لیتے اور حکمران جماعت کو آمدہ الیکشن میں ووٹ دیتے ہیں۔ جمعہ کو وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل  نے جو قومی بجٹ پیش کیا ہے اسے بھی ”عوام دوست بجٹ“ کہا جا رہا ہے 9502 ارب روپے کے بجٹ میں خسارہ 4598 ارب روپے ہے۔ تنخواہوں میں 15 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ایڈہاک الاؤنس بنیادی تنخواہ میں شامل کر کے سرکاری ملازمین کو مزید خوش کر دیا گیا ہے۔ زرعی آلات اور بیجوں پر عائد سیلز ٹیکس ختم کر کے کاشتکاروں کو خوش کر دیا گیا ہے۔ چھوٹے دکانداروں پر فکس ٹیکس عائد کر کے دکانداروں کو انکم ٹیکس دفاتر کے چکروں اور وکیلوں کی فیسوں سے نجات دلا دی گئی ہے چنانچہ تاجر برادری بھی خوش۔ ماہی گیروں کے لئے پورٹ کلیرنس کی شرط ختم۔

ماہی گیر طبقہ خوش، صنعتی فیڈر لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ۔ صنعتکار بھی خوش۔ نوجوانوں کے لئے آسان اقساط پر لیپ ٹاپ اور 5 لاکھ تک بلا سود قرضے۔ طلبہ اور نوجوان بھی خوش ہو جائیں۔ دفاع کے لئے 1523 ارب روپے مختص، یوں ”وہ“ بھی مطمئن۔ فلم کو صنعت کا درجہ دے کر ایک ارب روپے کا سالانہ فنانس فنڈ قائم۔ فن کار بھی راضی۔ بڑے ڈیموں کے لئے 183 ارب روپے اور بجلی کی ترسیل و تقسیم بہتر بنانے کے لئے 73 ارب روپے رکھ دیئے گئے۔ لوڈشیڈنگ میں کمی کا امکان۔ عوام کی ایک مشکل آسان شمسی توانائی کے لئے سولر پینل، ادویات، زرعی و صنعتی مشینری سستی کر دی گئی۔ غریب مریض بھی دعائیں دیں گے۔اس طرح کے سیاسی بجٹ پر اپوزیشن کا چیخنا تو بنتا ہے۔ چنانچہ تحریک انصاف نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ معاشی ترقی کی شرح 5 فیصد نہیں رہے گی۔ افراط زر 30 فیصد ہو جائے گا یہ عوام دشمن اور کاروبار دشمن بجٹ ہے۔ عمران خان نے و یہ بھی کہہ دیا ہے کہ آئی ایم ایف کے لئے یہ بجٹ قابل قبول نہیں ہوگا۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ یہ بھی روایتی سا طرزِ عمل ہے کہ حکومت اور اس کے حامی بجٹ کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں جبکہ اپوزیشن والے اعتراضات کے انبار لگا رہے۔ ایسے میں ایک دلچسپ پہلو بھی ہے۔ متحدہ حکومت والے جب متحدہ اپوزیشن تھے تو جن حکومتی منصوبوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ انہیں اس بجٹ میں جاری رکھنے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ ان میں عمران خان کا محبوب بلین ٹری منصوبہ اور ”کٹا بچاؤ، مرغی پالو“ پروگرام شامل ہیں۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ عوام دوست، بجٹ لا کر دراصل متحدہ حکومت نے الیکشن کی تیاری کر لی ہے۔ یہ تحریک انصاف اور عمران خان کی بڑھتی مقبولیت کا توڑ کیا گیا ہے اور اب جلد ہی اسمبلیاں توڑ کر عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔ یہاں بھی صورتحال دلچسپ ہو جائے گی۔

اگر انتخابی نتائج متحدہ حکومت کی توقع یا خواہش کے مطابق مثبت آئے اور پھر اسی کی حکومت بن گئی تو اپنا ہی پیش کردہ بجٹ ان کے ”گاٹے فٹ“ ہو جائے گا۔ پھر سوری سوری کر کے ترامیم کرنا پڑیں گی۔ بقول موجودہ وزیر خزانہ اس طرح کا ایک غیر حقیقت پسندانہ اقدام تحریک انصاف کی سابق حکومت نے جاتے جاتے کیا تھا کہ عالمی منڈی میں تیل کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے باوجود ملک میں پٹرول و ڈیزل کی فی لیٹر قیمت دس روپے کم کر کے نئی حکومت کی راہ میں بارودی سرنگ بچھا دی تھی۔ فی الحال تو کچھ نہیں کہا جا سکتا  کہ یہ بجٹ جوابی بارودی سرنگ ہے یا ممکنہ خودکش حملہ۔ آئندہ انتخابات میں (اگر جلدی ہو گئے) موجودہ حکومت ہار جاتی ہے اور موجودہ اپوزیشن تحریک انصاف جیت جاتی ہے تو یہ بجٹ ان کے لئے بارودی سرنگ ہوگا اگر موجودہ حکمران اتحاد جیت جاتا ہے تو پھر یہ خودکش بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکمران اتحاد نے آئینی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس صورت میں تو یہ بجٹ اسے خود ہی بھگتنا ہوگا۔ اگر یہ صورتحال رہی اور اس ”پل صراط“ سے یہ حکومت بخیریت گزر گئی تو یہ معجزہ ہی ہوگا۔ خدا کرے کہ یہ معجزہ ملک، قوم اور معیشت کے لئے فادۂ مند ہو۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں ملک اور قوم اور معیشت نے قائم رہنا ہے۔ اس کے خوشحال مستقبل کے لئے ماہرین معیشت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ عوام تو دعا ہی کر سکتے ہیں۔ سو وہ کر رہے ہیں اور بعض صورتوں میں تو جھولیاں اٹھا اٹھا کر ”دعائیں“ کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کو عوام کے ووٹوں کی فکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آہوں سے بچنے کا بھی اہتمام کر لینا چاہئے کہ دعائیں قبول ہوں نہ ہوں آہیں آسمان تک پہنچتی ہیں۔ خدا کرے کہ بجٹ میں جو کچھ دکھایا اور بتایا گیا ہے حقیقت میں بھی ویسا ہی ہو۔ آمین۔

مزید :

رائے -کالم -