بدلتے زمان و مکاں
میں زمان پارک کے سامنے سے گزر کر ایک مقامی کلب میں شام کو جم جاتا ہوں اور ویک اینڈ پر گالف کھیلنے جاتا ہوں۔ پچھلے چند ماہ سے وہاں سے گزرنا مشکل ہوتا تھا۔ امیدواران کے بل بورڈز کی بھرمار ہوتی تھی۔ پھر ماہِ رمضان سے پہلے ٹینٹ لگا کر کرسیاں بھی رکھ دی گئیں۔ آدھا ٹینٹ سڑک پر ہوتا تھا۔ میڈیا چینلز کی گاڑیاں بھی سڑک پہ رونق افروز ہوتی تھیں۔ ٹریفک پھنس پھنسا کر اور بچ بچا کر جیسے تیسے نکلتی تھی۔ بعض مرتبہ راستہ ہی بند ہوتا تھا تو میں اور کلب جانے والے دوست مال روڈ اور ڈیوس روڈ سے گزر کر ایچیسن کالج کے پیچھے سے براستہ ٹھنڈی سڑک دوبارہ نہر پر پہنچ جاتے تھے۔
سب نے محسوس کیا کہ زمان پارک کے باہر موجود اکثر لوگ ٹویٹر پہ سرگرم پارٹی ورکرز، رہنماؤں اور باہر بیٹھ کر“چیزے”لینے والے کاغذی مہم جو ہرکاروں سے مختلف لگتے تھے۔ پوش علاقے تو دور کی بات ہے اکثر اشخاص مقامی بھی نہیں لگتے تھے۔ وہ بمشکل پچاس کی تعداد میں ادھر ادھر پھرتے نظر آتے اور ٹریفک میں پھنسے لوگوں کو عجب تمسخر، تفخر اور کمال بے نیازی سے دیکھتے جیسے انکی تکلیف سے انہیں تسلی ہو رہی ہے۔ اور کہہ رہے ہوں تمہیں کیا معلوم ہماری طاقت اور منصوبوں کا۔ انکی یہ سوچ کوئی اتنی غلط بھی نہ تھی۔ افراتفری پھیلانے اور ہنگامہ کرنے کے منصوبے یہیں طے ہوتے تھے۔ آشیرباد بھی یہیں سے ملتی تھی۔ 9مئی کے قریب وہاں گہما گہمی بڑھ گئی۔ بظاہر غیر مقامی عناصر بھی بڑھ گئے۔ استحصال صاف نظر آ رہا تھا، جیسے دیگر سیاسی جماعتوں میں بھی ہوتا ہے، نوجوان، وہ بھی زیادہ تر نچلے طبقے کے بیروزگار یا چھوٹی موٹی نوکری یا دیہاڑی والے اکثریت میں تھے۔
پاکستانی معاشرے میں طبقاتی تقسیم سر چڑھ کر بولتی ہے۔ آپ دور سے بتلا سکتے ہیں کہ کون متمول ہے، کون متوسط ہے اور خاص طور پر کون غریب و تہی دست ہے۔ انکے چہرے کی زردی، اڑی ہوئی رنگت اور پرانا بے ڈھنگا لباس دور سے انکی حیثیت کا ڈھونڈورا پیٹتا ہے۔ ایسے ہی افراد اور نوجوان سیاسی جماعتوں کی حرص و ہوس کا ایندھن بنتے ہیں۔ انکو حیلے بہانوں اور نعروں سے بہکایا جاتا ہے اور انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ انکی ناکامیوں، حسرتوں اور غربت کے ذمہ دار دوسری جماعتیں ہیں۔ ہم مسیحا ہیں۔ ہم نجات دہندہ ہیں۔ حسرتوں کے مارے غریب و نیم غریب جوکہ اپنی بدقسمتی اور ناکامیوں کے لئیے کسی کو موردِ الزام ٹہرانا چاہ رہے ہوتے ہیں، اس بات کو من و عن مان کر انکا شکار ہو جاتے ہیں۔ الطاف حسین نے بھی ایم کیو ایم کے عسرت زدہ نوجوانوں کو بہکایا کہ تم زندگی کی دوڑ میں پیچھے اور ناکام اس لئیے ہو چونکہ تم مہاجر ہو۔ ہر رہنما کوئی کارڈ کھیل کر ان کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے۔
۹ مئی کو ایسے ہی سیر شکم طوطا چشم رہنماؤں نے محروم لوگوں کو بہکا کر اور ہنکا کر طے شدہ اہداف تک پہنچا دیا۔ انہیں ریاست کے ساتھ بھڑا دیا۔ عسکری املاک کو جلا دیا۔ قانون حرکت میں آیا تو انہی کو آگے بڑھا دیا۔ عظیم رہنما نے اپنے لگڑری گھر کی عافیت سے ایک غیر ملکی کو انٹرویو میں کمال متانت سے کہا کہ اپنے بیٹوں کو لندن سے پاکستان بلانا مناسب نہیں کیونکہ ابھی حالات خطرناک ہیں۔ اوروں کے بچوں کو ایندھن بنا دیا۔ اسکے مالدار ساتھیوں میں سے بہت نے ہاتھ جوڑ کر اور گھٹنے ٹیک کر اپنے کو بچا لیا ہے۔
اب زمان پارک کے باہر سناٹا ہے۔ نہ ٹینٹ، نہ ایندھن لوگ، نہ فیشن ایبل خواتین، نہ نعرے نہ غلغلے،نہ میڈیا کی گاڑیاں۔ ایک ہو کا عالم ہے جیسے کوئی یہاں رہتا ہی نہیں۔ محل نما گھر کے دو باسی اپنے انجام کے منتظر ہیں۔ انکے سمیت دو سو پیروکار عسکری املاک کی گھیراو جلاؤ کی سازش اور تیاریوں میں ملوث ہونے پر قانون کے سخت شکنجے میں کسے جائیں گے۔ باقی حواری کونوں میں سر دیے نوحہ کناں ہیں۔ کوئی کہیں کہیں بین بھی ڈالتا ہے۔ سمندر پار سے سینہ کوبی بھی ہوتی ہے۔ امریکہ و برطانیہ کے مست ماحول میں مست مئے پندار جن کلاکاروں کے معاشی و سیاسی خواب ٹوٹے انکے ٹویٹر پہ زنجیر زنی کی موہوم آواز آتی ہے جو رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
ٹویٹر کہانی بھی عجیب ہے۔ ایلگوردم کے علاوہ اس میں بہت ہیر پھیر ہے۔ ٹوئٹر کے اشتہاری وسائل میں شائع ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2023 کے اوائل میں پاکستان میں ٹوئٹر کے صارفین کی تعداد 4.65 ملین تھی۔ یعنی چالیس لاکھ 65 ہزار۔ ان میں سے بھی فعال ۳% سے زائد نہیں۔ یعنی آٹے میں دال کے برابر۔ سی آئی اے کے مطابق عراق میں جب داعش عروج پر تھی تو اسکے پچھتر ہزار اکاؤنٹ بنائے گئے تھے جنہیں ختم کیا گیا۔ داعش نے پھر پنتالیس ہزار اکاؤنٹ بنا لئیے۔ رفتہ رفتہ انہیں بھی ختم کیا گیا۔ جعلی اکاؤنٹ ایسے ہی ختم ہوتے جاتے ہیں۔
یہ سارا منظر تاریخ اپنے سینے میں سمو رہی ہے۔ نیم وا آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ کتنے ہی ایسے مَیں کے مارے کوتاہ اندیش میرِ کارواں اسکے اورقِ تاریک میں گم ہو گئے۔ کبھی بھی سیاستدانوں کی ہوس اور حرص نے انہیں یکجا نہ ہونے دیا۔ اور سب ایک ایک کر کے ٹھکانے لگتے رہے۔ کوئی پھانسی لگا، کوئی پابندِ سلاسل ہوا، کوئی جلاوطن ہوا مگر کسی نے کسی سے سبق نہ سیکھا۔ زمان پارک کے باہر ٹریفک بغیر رکاوٹ کے رواں دواں ہے۔ زندگی معمول پہ آ گئی ہے۔