مفاہمت کی سیاست یا ’’مُک مکا‘‘؟
سیاسی قائدین کو دیئے جانے والے ظہرانے میں وزیراعظم محمد نوازشریف نے سیاسی بلوغت، مفاہمت، تدبر اور صلح جوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کے لئے متحدہ اپوزیشن کے اُمیدوار جناب رضا ربانی کی حمایت کر دی۔ اس موقع پر سیاسی قائدین سے گفتگو میں وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی کئی فیصلے افہام و تفہیم سے کئے ہیں، مفاہمت اور اتفاقِ رائے کا یہ سیاسی کلچر اب پاکستان میں دائمی ہونا چاہئے تاکہ آئندہ بھی امورِ مملکت اسی جذب�ۂ خیر سگالی کے ساتھ چلائے جا سکیں۔ وزیراعظم نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ وزیراعظم کی اس دعوت میں آصف علی زرداری شریک نہ ہوئے تھے جس کا محبت بھرا گلہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ زرداری صاحب نے گزشتہ رات ہمیں اپنے ہاں بلایا، نہ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میاں صاحب کے اس ’’حسنِ طلب ‘‘ پر زرداری صاحب نے اِسی شام دعوت کا اہتمام کر دیا، جس میں دیگر سیاسی رہنما ایک بار پھر مدعو کئے گئے تھے۔ وزیراعظم نے ڈپٹی چیئرمین شپ کے لئے بھی اپنا اُمیدوار نہ لانے کا اعلان کیا اور اس پر بلوچستان کا حق فائق قرار دیتے ہوئے، یہ اختیار خود بلوچستان کی چھوٹی جماعتوں کو دے دیا کہ وہ اپنا متفقہ اُمیدوار خود نامزد کریں اس پر عمل بھی ہو گیا اور مولانا عبدالغفور حیدری ڈپٹی چیئرمین منتخب ہو گئے تحریک انصاف کے امیدوار بھی سولہ ووٹ لے اڑے۔ وزیراعظم کے اس جذبۂ خیر سگالی سے وفاق یقیناًمضبوط ہوگا۔ قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ سردار ایاز صادق کی صورت میں پنجاب کے پاس ہے، جبکہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر جناب جاوید مرتضیٰ عباسی کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ اب سینیٹ کے چیئرمین (رضا ربانی) سندھ سے اور ڈپٹی چیئرمین بلوچستان سے منتخب ہو گئے ہیں تو اس سے مملکت کے اہم مناصب کے حوالے سے چاروں وفاقی اکائیوں میں ایک طرح کا توازن پیدا ہوجائے گا اور چھوٹے صوبوں کے ’’احساسِ محرومی ‘‘ کا ازالہ ہوگا۔ پارلیمان کا ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں فی الواقع وفاق کی علامت نظر آئے گا جو جمہوریت کے علاوہ خود وفاق کے بھی بہترین مفاد میں ہوگا۔ پوری دُنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان میں جمہوریت پنپ رہی ہے اور وفاق کے تقاضے پورے کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم کے اس فیصلے کو تمام سیاسی جماعتوں نے سراہا اور اسے قابلِ تحسین قرار دے دیا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد اگر جناب نوازشریف چاہتے تو خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کا راستہ روک سکتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن اس کے لئے سارا ہوم ورک کر چکے تھے، لیکن وہ وزیراعظم کو قائل نہ کرسکے جن کا مؤقف دو ٹوک تھا کہ جس کا جہاں مینڈیٹ ہے، اُسے تسلیم کیا جائے اور حکومت سازی کے لئے پہلا حق اسی کو دیا جائے۔ بلوچستان میں وزیراعظم نے ایثار وقربانی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں ان کی اپنی جماعت (مسلم لیگ ن) سنگل لارجسٹ پارٹی تھی، لیکن انہوں نے کھلے دل سے قربانی دی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعت (نیشنل پارٹی) کے رہنما عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنوایا، حالانکہ عددی لحاظ سے یہ تیسرے نمبر پر تھی، جبکہ صوبے کی گورنر شپ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو دی ۔ پھر بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں بھی کوئٹہ سے اپنا میئر اور ڈپٹی میئر نہ لائے۔ اب سینیٹ کے حوالے سے بھی اسی جذب�ۂ مفاہمت ، تدبر، اعلیٰ اقدار اور برتر اخلاقیات کا مظاہرہ کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس پورے معاملے میں ’’خاں صاحب‘‘ پھر اکیلے رہ گئے اور جو جماعتیں موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہتی تھیں اُن کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ *