قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا عزم،جامع قانون سازی کا اعلان

قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا عزم،جامع قانون سازی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد (سٹاف رپورٹر، نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے آئین کے مطابق فلاحی ریاست کے جامع قانون کی تیاری کا اعلان کر دیا۔ قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ عدالتی انصاف کیساتھ، سماجی، معاشی، سیاسی اور مذہبی انصاف ضروری ہے اس حوالے سے قائمہ کمیٹی تمام متعلقہ وزارتوں سے بریفنگ لیتے ہوئے انتخابی ایکٹ کی طرح اس معاملے پر یکساں جامع قانون کا مسودہ تیار کریگی۔ آئندہ اجلاس میں اس بارے میں وزارت قانون و انصاف سے تفصیلی بریفنگ مانگ لی گئی ہے۔ قائمہ کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ ہر وزارت کو اپنی صر ف ایک سمری وزیراعظم یا کابینہ کو بھجوانے کیلئے 70 ہزار روپے کے فوٹو سٹیٹ کے حوالے سے اخراجات آتے ہیں۔ وزارتوں میں فوٹو سٹیٹ کے کروڑوں کا بجٹ ہیں۔ کروڑوں روپے کے ضیاع کو روکنے کیلئے سیکرٹریز کو ای میل کا پابند بنایا جائے۔ سیکرٹری قانون و انصاف نے اجلاس کی کارروائی کے دوران واضح کیا کہ قانون کی حکمرانی کیلئے تمام اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہو گا اور اگر کوئی تجاوز کر تا ہے تو اسے جوابدہ بنانا بھی ضروری ہے۔ یہاں انسداد بدعنوانی کا کوئی ادارہ اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے بغیر کسی جواز صوبائی ملاز مین کو پھنسا دیتا ہے اور جواز کے طور پر وفاقی ملازم پر مقدمہ بنایا جاتا ہے، یہ سلسلہ روکنا ہو گا۔ وفاق اور صوبوں میں انسداد بدعنوانی کا بھی جا مع یکساں قانون ہونا چاہئے ،کمیٹی کو اس حوالے سے ضرور غور کرنا چاہئے۔ قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کا دوسرے روز بھی اجلاس چیئرمین ریاض فتیانہ کی صدارت میں ہوا۔ دوسرے روز بھی خواجہ سعد رفیق اجلاس میں شریک ہوئے۔ چیئرمین کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہا مقدمات کی بھرمار کر کے حوالے سے صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ سپریم کورٹ میں دو لاکھ 81 ہزار، ماتحت عدالتوں میں 14 لاکھ 70 ہزار مقد مات زیرالتواء ہیں جس کی وجہ سے عوام کا انصاف کے نظام پر اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔ شہریوں کو قوانین سے آگاہی ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں مجموعی طور پر 740 قوانین ہیں۔ مارشل لاء دور میں 230 آرڈیننس جاری ہوئے۔ سیاسی حکومتوں میں 360 آرڈیننس جاری ہو ئے ۔ سول حکومتوں میں آرڈیننس کے اجراء کا سلسلہ زیادہ تھا۔ انصاف، انسانی حقوق، سماج، خواتین سمیت دیگر شعبوں کے ناصرف کئی کئی قوا نین ہیں بلکہ کئی کئی ادارے قائم ہیں۔ فلاح و امداد کے نام پر بیت المال، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، غربت میں کمی کا پروگرام اور کئی دیگر منصوبے اور ادارے ہیں ان سب کو یکجا ہونا چاہئے۔ سیکرٹری قانون نے واضح کیا کہ عدالتی انصاف کیلئے معاشی و سماجی انصاف ضروری ہے کیونکہ اگر پیٹ خالی ہونگے تو ڈاکے تو مارے جائیں گے۔ حسین طارق، فاروق اعظم سمیت کئی ارکان نے سرکاری وکلاء کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا ان کو ہٹائے جانے کا طریقہ کار ہونا چاہئے۔ سیکرٹری قانون نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ان سے ہم باز پرس نہیں کر سکتے تاہم اگر شکایت ملتی ہے تو ہم نام واپس لے سکتے ہیں۔جب تک عزت نفس، احترام کو یقینی نہیں بنایا جاتا معاشرے میں اطمینا ن و سکون نہیں آئے گا۔ ارکان نے رائے دی کہ سرکاری وکلاء کی کارکردگی سکور کارڈ ہونا چاہئے۔ کمیٹی نے اتفاق رائے سے قانونی مسودوں کی تیاری کو لاء کالجز کے نصاب میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے، وزارتوں کو پیپر لیس کرنے کیلئے آئندہ اجلاس میں وزارت خزانہ اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مدعو کر لیا گیا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا آئین کی شق اڑتیس کے تحت پاکستان کو حقیقی معنوں میں فلاحی و مدینہ جیسی ریاست بنانے کے دعوے نہیں ہونے چاہئیں، اس کیلئے جامع قانون ہونا چاہئے ۔ریاض فیتانہ کا کہنا تھا بھارت فوڈ سکیورٹی کا قانون بنا چکا مگر پاکستان میں اس حوالے سے کچھ نہیں ہوا، خواہش سے کام نہیں بنتا ہمیں قانون بنانا ہو گا۔ سماجی شعبوں میں کام کرنیوالے اداروں کو یکجا کرنا چاہئے۔ حسین طارق نے بتایا پیپلزپارٹی کے دور میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو پیپر لیس کرنے کا نجی بل متعارف کرایا گیا تھا مگر اس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ قائمہ کمیٹی نے ہندو میرج لاء کا ضابطہ کار نہ بننے پر بھی برہمی کا اظہا رکرتے ہوئے وزارت مذہبی امور کو فوری طور پر قواعد و ضوابط بنانے کی سفارش کر دی۔ قائمہ کمیٹی نے تمام قوانین کو جدید ویب سائٹ پر اپ لوڈکرنے کیلئے سافٹ ویئر بنانے کا کام شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا ،کمیٹی نے جرگہ و پنچائیت کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے متبادل طریقہ کار کے تاحال قواعد و ضوابط اور انفراسٹرکچر وضع نہ ہونے کا بھی نوٹس لیتے ہوئے وزارت سے رپورٹ مانگ لی ،یہ قانون تین سال قبل منظور ہوا تھا قانون کے تحت لین دین، لڑائی جھگڑوں کے معمولی تنازعات کو اس نظام کے تحت حل کرنا تھا تاکہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو مگر تین سال پہلے قانون بننے کے باوجود قواعد اور بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں بن سکا۔
قائمہ کمیٹی انصاف

مزید :

صفحہ آخر -