مسئلہ تعلیم کا
علم ایک طاقتور اور ضروری ہتھیار ہے ایک جدید تعلیم یافتہ اور پرامن معاشرہ بنانے کے لیے جو ملک کے روشن مستقبل کی طرف لے جائے ،یہ کسی ملک کی ترقی کے لیے بھی سب سے ضروری اور طاقتور ہتھیار ہے ،بنیادی تعلیم ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے جب کہ اعلی تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ہنر مند افرادی قوت فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو کئی مشکلات کا سامنا ہے ، بےتحاشا آبادی ، وسائل کی کمی ، ہنر مند اساتذہ کی کمی، وسائل کا زیاں، عدم تحقیق لیکن اساتذہ کی کمی سب سے اہم ہے، زیادہ تر اساتذہ کے پاس اپنے مضمون کو پڑھانے کے لیے محدود علم ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیز میں m phill اور phd کے اساتذہ کو ریسرچ مشکل لگتی ہے کیونکہ ان کے پاس ریسرچ کے لیے علم کی کمی ہے، پاکستانی مارکیٹ میں کس طرح کی کتنی ملازمتیں ہیں اور ان کو پر کرنے کے لیے کس طرح کے کتنے ہنر مند افراد چاہئیں، ہائر ایجوکیشن (hec) کی طرف سے ان سب چیزوں کو مد نظر رکھ کر پلاننگ دکھائی نہیں دیتی ، جس کی وجہ سے بہت سارے یونیورسٹیز کے گریجویٹس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔
ٹیکنالوجی نے تعلیم کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں، یہ اب ہم پر ہے کہ ہم کب تک سسک سسک کر جینا چاہتے ہیں اور کب ان سے فائدہ اٹھانا شرو ع کریں گے ،اب طالب علموں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی کلاس روم ،ٹیچر ،یونیورسٹی کیمپس کا ہونا ضروری نہیں، ورچوئل ایجوکیشن (virtual education) جس کے ذریعے طلبہ اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ سے انٹرنیٹ کے ذریعے ریکارڈڈ لیکچر دیکھ سکتے اور امتحانی مرکز میں امتحان پاس کر کے کسی بھی شعبے کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ۔پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ کنٹری کے لیے جہاں وسائل کی کمی کی وجہ سے fsc کے بعد یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے میریٹ انتہائی زیادہ ہوتا ہے اور صرف چند طلبہ ہی سرکاری یونیورسٹیز میں پہنچ پاتے ہیں، باقی پرائیویٹ یونیورسٹیز میں بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں یا تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، ایسے ملک میں virtual education ان تمام طلبہ کی زندگی بدل سکتی ہے ،تمام بین لااقوامی ادارے ورچوئل ایجوکیشن کو موثر نظام تعلیم مان چکے ہیں اور اس ڈگری کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ دوسری ڈگری کی ۔
ایک ریسرچ ورچوئل ایجوکیشن سے تعلیم یافتہ طلبہ کو زیادہ موثر قرار دے چکی ہے ،آپ خود سوچئے جب ایک استاد ہی ایک مضمون لاکھوں طلبہ کو پڑھا سکے گا تو وہ استاد یقینناً ہزاروں میں سے ایک ہو گا، اس سے اساتذہ اور بلڈنگس اور انفراسٹرکچر کی کمی تو دور ہو گی ہی ،ساتھ ہی تمام طلبہ کو ایک بین الاقوامی اور یقینناً ایک انتہائی اعلی درجے کا استاد ملے گا جو کہ عام حالت میں پاکستان میں ناممکن ہے ۔ذرا سوچئے ورچوئل ایجوکیشن کے ذریعے جدید سے جدید انجینئرنگ کی یونیورسٹی کتنی آسانی سے کھڑی کی جا سکتی ہے، mbbs کےطلباء کے لیے حکومت صرف سرکاری ہسپتالوں میں ٹریننگ کی سہولت دے اور امتحان لے ،استاد اور کالج کی بلڈنگ کی ضرورت ختم کر کے یقینناً نظام تعلیم میں تبدیلی آسکتی ہے،بین الاقوامی یونیورسٹیز سے معاہدے کر کے ان کے اساتذہ اور ان کا کورس گھر بیٹھے طلبہ تک پہنچ سکتا ہے اور ہماری یوتھ یقینناً ڈرگز جیسی سرگرمیوں سے نکل کر ملک کی طاقت بن سکتی ہے اور ملک میں انڈسٹریل revolution کا سبب بن سکتی ہے ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔