عورت کے حقوق……طبقاتی مسئلہ
اس سال 8مارچ کو خوا تین کے عالمی دن کی اہمیت اس اعتبار سے زیادہ اہم رہی کہ اس مرتبہ ملکی میڈیا میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے گرما گرم بحث کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا۔ خاص طور پر ایک مرد ڈرامہ نگار اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے سرگرم ایک خاتون کے درمیان ایک ٹی وی پرو گرام میں جس طرح کاجھگڑا ہوا، اس پر تو باقاعدہ ٹی وی ٹاک شوز، خبروں، کالموں اور آرٹیکلز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سب کا نقصان یہ ہوا کہ خواتین کے حقوق جیسے انتہائی سنجیدہ موضوع نے سطحی رنگ اختیار کر لیا۔ظاہر ہے خواتین کے حقوق کے حوالے سے دُنیا بھر میں کئی مکاتب فکر موجود ہیں اور اس بارے میں ہر کسی کا اپنا اپنا موقف ہے۔ اس کالم میں یہ کوشش کی جائے گی کہ پا کستان میں خواتین کے حقوق کو طبقاتی اور سماجی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
سب سے پہلے تو ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا کہ کیا عورتوں کے حقوق کا مسئلہ صرف صنف کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے؟یعنی کیا پا کستان میں خواتین کو صرف اس لئے حقوق نہیں ملتے کہ وہ عورت ہیں؟پا کستانی اشرا فیہ کے طرزِ زندگی کو دیکھا جائے تو اس اشرا فیہ کا ایک حصہ تو ضرور ایسا ہے، جو آج بھی اپنے طبقے کی خواتین کو سماجی حقوق دینے کو تیار نہیں، مگر اس کے ساتھ اسی اشرا فیہ کے اندر ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے کہ جن کی خواتین کو مغرب کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے،اپنی مرضی کاذریعہ معاش اپنانے، اپنی مرضی کا لباس پہننے، اپنی مرضی کا جیون ساتھی چننے کی پوری آزادی حاصل ہے۔اشرافیہ کے اس حصے کی خواتین کو لگ بھگ اسی طرح کی آزادیاں حاصل ہیں،جیسی مغرب کے طبقہ اعلیٰ کی خواتین کو۔جہاں تک پا کستان کے متوسط طبقے کا تعلق ہے تو اس طبقے کے اندر بھی بہت سے حصے پائے جاتے ہیں۔ متوسط طبقے کی کئی خواتین ڈاکٹری اور درس و تدریس کے شعبوں میں اپنا بھر پور کر دار ادا کر رہی ہیں، مگر متوسط طبقے میں ایسے حصے بھی ہیں، جو عورت کو تعلیم دلوانے کے تو حق میں ہیں، مگر ان کی ملازمت کو اچھا تصور نہیں کرتے۔
اب اگر ہم غریب طبقات کی عورتوں کی طرف دیکھیں تو یہ حقیقت واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ایسے طبقات میں خواتین کے حقوق نہ ہونے کے برا بر ہیں۔ایسی خواتین جن کو جبری طور پر کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے، یا ایسی خواتین جو کارخانوں یا بھٹہ مزدوری کا کام کرتی ہیں،یا گھروں میں ملازمت کرتی ہیں، ایسی خواتین کے حقوق کا واقعی کوئی پرسان حال نہیں ہے، جبکہ جنوبی پنجاب، اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ایسے علاقے، جہاں پر ابھی بھی قبائلی اور جاگیرداری نظام کے اثرات مو جود ہیں، وہاں تو عورت کو سرے سے انسا ن ہی نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان کی اس سماجی صورتِ حال کے ذریعے ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دُنیا بھر کی طرح پا کستان میں بھی خواتین کے حقوق کا مسئلہ سرا سر طبقاتی مسئلہ ہے،یعنی جس طبقے کے پاس وسائل کی فراوانی ہے اس طبقے کی خواتین کی اکثر یت کو بھی معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کا مسئلہ نہیں، مگر جو طبقہ ہر طرح کے وسائل سے محروم ہے، اس کی خواتین کے حقوق بھی پا ما ل ہوتے ہیں۔اس مسئلے کو سیاسی پہلو سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے خطے کے چار ممالک ایسے ہیں، جہاں پر خواتین کو حکمرانی کا موقع بھی ملتا رہا، جیسے پا کستان میں بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم بنیں، بھارت میں اندرا گاندھی لگ بھگ 15سال وزیراعظم رہیں سری لنکا میں چندریکا کما را ٹنگااور سریما و و بندرا نائیکے حکومت کر تی رہیں،جبکہ بنگلہ دیش کی سیاست تو گزشتہ کئی سالوں سے دو ہی خواتین خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد کے گرد گھوم رہی ہے۔
ان چار ممالک میں، جن پر عورتوں کو حکمرانی کے موقع ملتے رہے ہیں، دُنیا کے لگ بھگ ڈیڑھ ارب انسان بستے ہیں، اور کیا وجہ ہے کہ ان چا رو ں ممالک میں خواتین کی اکثر یت بھی نہ صرف بنیادی حقوق سے محروم ہے، بلکہ ان چا روں ممالک سے آئے روز ایسی خبر یں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ کسی خاتون کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا، کسی کو ونی، کسی کو کاروکاری کا نشانہ بنا یا گیا، کسی عوت کو جہیز نہ لانے پر زندہ جلا دیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔اگر خواتین کے حقوق کا مسئلہ صرف اور صرف صنفی مسئلہ ہی ہو تا تو پھر اس اعتبار سے تو ان ممالک میں عورتوں کے پاس مثالی حقوق ہونے چاہئیں تھے، مگر ایسا نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ان ممالک میں جن خواتین کو حکمرانی کرنے کا موقع ملا یا جن خواتین کو سیاست میں مقام ملا، ان سب کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اشرا فیہ کے طبقات سے ہی رہا۔یہی وجہ ہے کہ پا کستان سمیت ان ممالک میں خواتین کی اکثر یت بنیادی حقوق سے ہی محروم رہی،کیونکہ خواتین کی اکثر یت کو معاشی ترقی کے مواقع نہیں دیئے، بلکہ پا کستان میں تو عورتوں کے سیاسی حقوق کے نام پر اسمبلیوں میں خواتین کے لئے نشستوں کو بھی مخصوص کیا گیا ہے ……آپ تحقیق کر لیں، قومی اسمبلی اور صوبا ئی اسمبلیوں میں سیاسی جما عتیں اکثر ایسی خواتین کو ہی رکن بنواتی ہیں، جن کا تعلق اشرافیہ کے طبقے سے ہو تا ہے۔محروم طبقے کی خواتین کو رکن بننے کا موقع بہت کم ملتا ہے، اس سے اسمبلیوں میں خواتین کے حقوق تو محفوظ نہیں ہوتے، مگر اشرا فیہ کو اقتدار میں مزید حصہ مل جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دُنیا کی سب سے پرانی جمہوریت (برطانیہ) دُنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ جمہوریت(امریکہ) اور دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت(بھارت)کی اسمبلیوں میں بھی خواتین کے لئے نشستوں کو مخصوص نہیں کیا جاتا۔ ان ملکوں،خاص طور پر بھارت میں جب بھی خواتین کے لئے نشستیں مخصوص کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس پر سب سے بڑا اعتراض یہی اُٹھتا ہے کہ اس سے اشرافیہ کی خواتین ہی مخصوص نشستوں کی رکن بن جائیں گی۔ آج جو لوگ مغرب میں خواتین کی آزادی کو مثالی انداز میں پیش کرتے ہیں، وہ شاید اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ قرون وسطیٰ کے عہد میں یورپ میں خواتین کے حقوق جس طرح پا مال کئے جا تے تھے اس کی آج کے مشر قی معاشروں سے مثالیں ملنا بھی مشکل ہو گا۔ قرون وسطیٰ کے یورپ میں کسی بھی عورت کو جا دوگر، گمراہ اور بد چلن قرار دے کر زندہ آگ میں جلا دیا جا تا تھا۔امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں عورتوں کو ووٹ کا حق بھی 20ویں صدی کے دوسرے عشرے میں دیا گیا۔ آج ہمارے ہاں کے مغرب نواز طبقے عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مغرب میں عورتوں نے سب سے پہلے معا شی حقوق حاصل کئے اور معاشی حقوق حاصل ہونے کے بعد ہی ان کو سیاسی اور سماجی حقوق ملے۔پوری دُنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ طبقے اپنے طبقات کا ہی معاشی، سماجی اور سیاسی تحفظ کرتے ہیں۔اگر کوئی یہ تصور کرتا ہے کہ پا کستان میں اشرا فیہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی این جی اوزعلامتی نوعیت کے مارچ اور نعرے لگا کر محروم طبقات کی خواتین کو حقوق دلوا پائیں گی تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی۔ ایسے علامتی مارچوں سے اشرا فیہ کی خواتین کا تو بھلا ہو جا تا ہے، مگر جس طبقے کی خواتین کو حقیقی معنوں میں حقوق کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا کوئی بھلا نہیں ہوتا۔ خواتین کی حقیقی آزادی کے لئے ضروری ہے کہ اس طبقاتی نظام کو سمجھ کر اس میں تبدیلی لانے کی جدوجہد کی جائے۔خواتین کے حقیقی حقوق طبقاتی مسائل کے حل کے ساتھ ہی مشروط ہیں۔