پنجاب۔۔۔اہل ِ تصوف اور بہادر سپوتوں کی دھرتی
پنجاب دنیا کے خوش نصیب ترین خطوں میں سے ایک ہے جہاں ہمیشہ قدرت کی نعمتوں کی فراوانی رہی ہے۔موسم،آب و ہوا،زرخیز زمین سمیت یہاں ہر وہ نعمت میسر رہی ہے جو تہذیب کو بنیادیں فراہم کرتی ہے۔پنجاب کی تاریخ پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو اس کا ذکر قدیم کتب میں بھی ملتا ہے۔ہندوستان کی قدیم ترین داستانوں میں سے ایک، مہا بھارت میں یہاں اس دھرتی کو”پنج ندا“ لکھا گیا ہے جس کے معنی پانچ ندیوں کے ہیں،یہ تذکرہ ثانوی یا زیب حکایت نہیں بلکہ تفصیل سے موجود ہے۔اسی طرح ابن ِ بطوطہ کے سفر نامے میں بھی اس خطے کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ابن ِ بطوطہ پنجاب کی سرزمین سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے یہاں تک لکھا کہ یہ دنیا کی قدیم اور مہذب تہذیبوں میں سے ایک ہے،جہاں کبھی بھوک اور آفات نے مستقل ڈیرے نہیں ڈالے۔ابوالفضل کی آئین ِ اکبری میں بھی پنجاب کا ناصرف ذکر موجود ہے بلکہ اس کی عسکری اہمیت کے بارے میں سیر حاصل بحث شامل ہے۔بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر اور سکندر سے ہلاکو تک،پنجاب کو نہایت اہم خطے کے طور پر دیکھا اور لکھا گیا ہے۔
اس طرح کی بے شمار تاریخی اسناد ہیں جو پنجاب کو ہزاروں سال پہلے کی تہذیب کا وارث ثابت کرتی ہیں۔ان تمام تاریخی دستاویزات سے یہ بھی ثابت ہے کہ پنجاب کی سرزمین ہی کو ہندوستان کامرکزکہااور سمجھا جاتا تھا۔ ان حوالوں سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو پنجاب کی تہذیب کا شمار دنیاکی ابتدائی جدید شہری زندگی میں کیا جاتا ہے جہاں انسانی قدروں سے لے کر رہن سہن کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔آپ ہڑپہ کو دیکھئے، بارہ سوسال قبل ازمسیح میں لکھی گئی رگ وید میں اس شہر کو ہری یوپیہ لکھا گیا ہے۔یعنی،تین ہزار سال پہلے بھی اگراس خطے میں کوئی زندہ تہذیب موجود تھی تو پنجاب کا مرکز اس کی آبیاری کر رہا تھا۔اس خطے نے جدید معاشرت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا،اناج اگانے سے لے کر محفوظ رکھنے تک بے شمار ایسے معاملات ہیں جن میں پنجاب نے اس دور میں بھی مثالی ترقی کر رکھی تھی جب دنیا کی دیگر زندہ تہذیبیں ابھی اپنی پہچان کے نشان تلاش کر رہی تھیں۔
تاریخی حقائق کے آئینے میں دیکھیں تو پنجاب کی اہمیت کو کسی بھی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔لیکن بد نصیبی سے ایک سازش کے تحت پنجاب کے ہیروز کو ولن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی جس میں پنجاب دشمن بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔یہ سلسلہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب یہاں بیرونی حملہ آوروں کی آمد ہوئی۔سکندر آیا تو اس کے سامنے پورس ڈٹ کے کھڑا ہوا اور دنیا کی مضبوط ترین فوج کا مقابلہ جوانمردی سے کیا۔منگولوں سمیت جب کبھی کوئی یہاں حملہ آور ہوا تو پنجاب کے لوگوں نے مقابلہ کیا، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ثابت کیا کہ گردن کٹوا لینا شکست نہیں جیت ہے۔مغل دور میں دُلا بھٹی جیسے ان گنت پنجابی مجاہد وں سے بہت آگے نکل کر دیکھیں تو ہمیں انگریز کے خلاف بھی پنجابی ہی میدان ِ عمل میں دکھائی دیتا ہے۔وہ رائے احمد کھرل ہو یا پھر آزادی کا عظیم ہیرو بھگت سنگھ،پنجابی ہر دور میں آزادی کی دلہن کے ماتھے کا جھومر دکھائی دیتے ہیں۔اس خطے کے جوانوں نے کبھی شکست تسلیم نہیں کی،یہ ہر طرح کے حالات میں مقابلہ کرتے ہیں۔انہیں زیر کرنا کبھی آسان نہیں رہا۔اگر وقتی طور پر یہ زیر عتاب آبھی گئے تو بپھرے ہوئے دریا کی طرح بڑھے اور چٹانوں سے سر ٹکرا کر اپنے ہونے کا پتا دیتے رہے۔
پنجاب اور پنجابی چونکہ مزاحمت کا استعارہ تھے اس لیے کوئی بھی قابض یہاں آیا تواِس خطے کی ثقافت مٹانے کوشش کی۔مغل سلطنت کا مرکز چونکہ پنجاب ہی تھا سو دلی یا لاہور میں تخت اتنا اہم نہیں تھا جتنا پنجاب پر کنٹرول رکھنا ضروری تھا۔مغل دور میں یہاں کی زبان اور ثقافت کو پہلا بڑا نقصان پہنچایا گیا اور سرکار دربار کی زبان فارسی کو اولین حیثیت دے دی گئی۔لین دین اور کاروبار کے لیے فارسی زبان کا استعمال ہوتا رہااور سرکار کی ملازمت کے لیے بھی فارسی زبان کا سمجھنا اور لکھنالازم قرار دیا گیا۔یوں مغلیہ دور جو کئی صدیوں پر محیط تھا،پنجابی زبان کے لیے آزمائش کا عہد ثابت ہوا۔ثقافت چونکہ زبان کی محتاج ہوتی ہے اس لیے پنجاب کا کلچر جاندار ہونے کے باوجود ایرانی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ثقافتی اثرات قبول کرتا رہا۔پنجاب کے علاوہ دنیا میں ایسی مثالیں کم ملتی ہیں کہ بیرونی ثقافت کا تسلط ہزار سال کا عرصہ طے کرے اور مقامی روایات پہلے روز کی طرح تروتازہ رہیں۔
یہ پنجاب کا کلچر ہی تھا جس نے اتنی صدیوں کے باوجوداپنی حیثیت مکمل طور پر فراموش نہیں کی اور بنیادوں کو مضبوطی سے قائم رکھا۔پنجاب کے عوام نے اپنی ثقافت کو ہر حال میں زندہ و جاوید رکھا اور دربار سرکار کی تمام ترسازشوں کے باوجود اپنی پہچان کوسنبھالے رکھا۔اس کی دو بڑی وجوہات تھیں،ایک سکھ دھرم کا پنجابی زبان کے ساتھ گہرامذہبی تعلق اور دوسرا بغاوت کا جذبہ جو مذاہب سے بالا ہوکر پنجابی کو قابض حکمرانوں کے مقابل متحرک رکھتا۔مغل دور کے اختتام کے ساتھ یہ بغاوتیں اور بھی تیزہوئیں،نتیجتاًپنجاب میں پنجابیوں کی اپنی یعنی رنجیت سنگھ کی حکومت آگئی۔رنجیت سنگھ پنجاب کا بیٹا تھا،وہ جانتا تھا کہ پنجاب کا حکمران رہنا ہے تو اسے مذاہب کی تفریق کے بجائے پنجابی ہونے کی پہچان نمایاں کرنی ہوگی۔رنجیت سنگھ نے تصوف اور پنجاب کی رہتل کے دھاگے میں سکھ، مسلمان اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے پنجابیوں کو پرودیا۔وہ بابا نانک کا ماننے والا ضرور تھالیکن سیوک شاہ حسینؒ اور میاں میر ؒکا بھی تھا۔اس کاکاروبارِ حکومت چلانے والوں میں بہت سے مسلمان بھی شامل تھے جنہوں نے مسلمان رعایا کو یہ احساس دلائے رکھا کہ حکومت پنجابیوں کی ہے،کسی خاص مذہب کی نہیں۔جب پنجاب کی حدود وسیع ہورہی تھیں توسازشیں بھی بڑھنے لگیں،رنجیت سنگھ کے بعد پنجابی حکومت کا تخت بھی متزلزل رہا۔انگریز نے مذہبی،مسلکی اور لسانی بنیادوں پر جھگڑوں کے بیج بوئے جو نفرت کے تناور درختوں کی شکل میں سامنے آئے۔آپسی جھگڑوں نے پنجابیوں کو بہت کمزور کر دیااور گورے کو قبضہ کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہ آئی۔
انگریز کا دور آیا تو پنجاب کی روایتی مزاحمت اس کے لیے سب سے بڑاخطرہ تھی۔انگریز سرکار نے یہاں ایسی تقسیم کی بنیاد رکھی جس نے کبھی پنجابیوں کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔سب سے پہلے اس خطے کی بولی کے خلاف سازش کی گئی اور اسے کارِ سرکار سے دور کر دیا۔پنجابی،جو تخت لاہور کے مختصر دور میں ذریعہ تعلیم بنی تھی اپنے وجود پر خود ہی سوالیہ نشان بن گئی۔شاہ مکھی اور گرومکھی رسم الخطوط پر جیسے مذہبی چھاپ لگا دی گئی۔بابانانک کو گرومکھی اور بابافرید کو شاہ مکھی کے چوکھٹے میں فٹ کرکے مسلمان اور سکھ دھرم کے ماننے والوں میں بانٹ دیا گیا۔پنجابی زبان کا مذہبی حوالے سے بٹوارہ اب تک کی سب سے بڑی سازش ثابت ہوا۔انگریز دور میں جس زبان نے سب سے زیادہ صدمے برداشت کئے وہ پنجابی ہی تھی۔ پنجابی زبان میں تحقیق کا کام تو جیسے نہ ہونے تک ہی محدود رہا۔جو پنجابی کتب خانوں اور تراجم کی جانب راغب ہو رہے تھے انہوں نے بھی مزاحمت کی راہ اختیار کی۔پنجابی نے ایک بار پھر کتاب کی جگہ ڈھال اور قلم کی جگہ بندوق اٹھا لی۔پنجابی انگریز سرکار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر ان کی نسلیں بھی اسی لڑائی میں خرچ ہوئیں۔یہ وہ وقت تھا جب علمی انقلاب چھاپہ خانے کی شکل میں دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ چھاپہ خانے کی ہندوستان آمدنے زبانوں کی ترقی میں انقلاب کا دروازہ ضرور کھولا لیکن پنجابی کے لیے یہ انقلاب بھی آکسیجن کی وہ کھڑکی ثابت نہ ہوا جس سے اس زبان سانسیں بحال ہو سکتیں۔انگریز چالاک تھا،جانتا تھا کہ جب زبان کمزور ہوجائے تو قوم خودبخود ٹوٹ جاتی ہے۔ثقافت سلامت رہتی ہے نہ ادب سمیت کسی بھی روایت کی جڑیں مضبوط رہتی ہیں جو اس خطے کا سرمایہ مانی جاتی ہیں۔پنجابی کے ساتھ بھی یہی کھیل ہوا،لیکن یہ زبان اتنی طاقتور تھی کہ آ ج سازش کی کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود اپنی جگہ پرقائم ہے۔یہ کل کی طرح آج بھی اپنی بقا کی جنگ تو لڑ رہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پنجابی زبان مٹ جائے گی یا پنجاب کی ثقافت کا نشان باقی نہیں رہے گا۔اسے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں،یہ پنجاب واسیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے
انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے پنجاب اور پنجابی نے آزادی کے بعد ایک اور بڑی آزمائش کا سامنا کیا۔تقسیم ہند ہوئی تو پنجاب کو غیر فطری طور پر دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔یہ بڑی سازش تھی جس نے پنجابیوں کو عملی طور پر بہت کمزور بنایا،پنجاب کی تقسیم نے زبان اور ثقافت پر ایسا کاری وار کیا کہ آج بھی پنجاب اِس طرف کا ہو یا اُس طرف کا،دونوں جانب محرومیا ں ہیں۔بالخصوص پاکستان کے حصے میں آئے پنجاب کی بیوروکریسی نے انگریز کی پنجابی دشمن سوچ سے بغاوت نہیں کی۔انگریز سرکار کی اس معنوی اولاد نے پہلے پنجابی کو نصاب سے دور کیا اور پھر ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے پنجابی تصوف اور شعری رعنائی کی زبان نہیں،بدتمیزی اور گالم گلوچ کی زبان ہے۔ہمارے انگریز پرور حکمرانوں نے ہمیشہ پنجاب کے ساتھ دشمنی کی روایت نبھائی،مارشل لاؤں اور نام نہاد جمہوریت پسندوں کی مغربی سوچ نے اس زبان کو ہمیشہ نقصان پہنچایا۔اول تو پنجاب کے پاس کبھی حکمرانی رہی ہی نہیں،اور اگر نواز لیگ کی شکل میں پنجابی حکمران نصیب بھی ہوا تو اسے یہ تاثر مٹانے کے لیے پنجاب کا حق مارناپڑا کہ سب سے بڑا صوبہ دوسروں کے حقوق غصب کر رہاہے۔سچ پوچھئے تو نواز لیگ نے بھی پنجاب کے ساتھ اپنوں والا سلوک نہیں کیاجس طرح پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سندھ کے حقوق کو اولین ترجیح دی،حالانکہ پنجاب نے ہمیشہ انہیں نوازا اور ایوان ِ اقتدار تک بھی پہنچایا۔پنجاب کے سیاست دانوں اور اشرافیہ کی مجرمانہ خاموشی اور نام نہاد مصلحت کا نتیجہ یہ نکلااس صوبے کا مقدمہ کسی بھی فورم پر لڑا ہی نہیں گیا،یوں ایساماحول پیدا ہواکہ ملک کے دیگر حصوں کے لیے قربانیوں کے باجود وہاں سے کبھی کلمہ خیر نہیں آیا۔پنجاب نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے،یہاں کبھی تعصب آیا ہی نہیں۔پختون بھائی ہوں یا سندھ سے آئے ہم وطن یاپھر بلوچ قوم پرست،پنجاب نے کھلے بازووں سے خوش آمدید کہا۔اس محبت کے باوجودپنجاب کو گالی دینا اور پنجابی کے ساتھ دشمنی جیسے کارِ خیر سمجھ کر کی گئی۔اب بھی سیاسی مفادات کے لیے پنجاب کی تقسیم کا ایسا ایجنڈا زیر بحث ہے جس سے ناصرف ریاست کمزور پڑے گی بلکہ پنجاب کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔بہرحال پنجاب اور اس میں ہزاروں سال کی جدوجہد کرکے اپنی روایات کو زندہ رکھنے والے اتنے بھی کمزور نہیں کہ ایسی سازشوں کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں۔
تمام سازشوں کے باوجود آج بھی پنجاب میں وہی تازگی دکھائی دے رہی ہے جو کسی زندہ ثقافت کے سلامت اور توانا ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔پنجاب کے عوام اپنی ہزاروں سال پرانی روایات اور ثقافت سے محبت کے اظہار کے لیے ”پنجاب کلچرڈے“منارہے ہیں۔آج چیت کی یکم تاریخ ہے،یہ بہار کی آمد کا اعلان ہے۔دنیا میں بیشتر اقوام بہار کے آغاز پر ہی اپنے ثقافتی تہوارمنانے کی روایت رکھتی ہیں۔پنجاب نے صدیاں سازشوں کا سامنا کرتے گزار یں لیکن اپنی پہچان کو فراموش نہیں ہونے دیا۔آج پنجابی سیوک اسی پہچان کو عَلم بنا کر عملی میدان میں نکل آئے ہیں کہ ہمیں اپنی ثقافت ڈھول پوری دنیا میں بجاکر اعلان کرنا ہے کہ استحصال کی روش،گولی کا زخم اور سرکار کی غلام گردشوں میں ہونے والے سازشیں بھنگڑا ڈالتے پنجابی کے کھُسے کی نوک پر۔
آج پنجابی چاہتے ہیں کہ ان کی ثقافت کا دن منانے کی روایت زندہ ہو،وہ ثقافت جسے قتل کرنے کے لیے ہر دور کی بڑی عالمی قوت کوشش کر چکی لیکن ناکام رہی۔کلچر ڈے منانے کا فیصلہ پنجاب اور پنجابی کے لیے کام کرنے والی تمام تنظیموں نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔اگرچہ وقت کی کمی اور دیگر معاملات بھی آڑے آئے،لیکن پنجاب اور پنجابی روایات سے محبت کرنے والوں نے ہمت نہیں ہاری۔آج کی تاریخ اس لیے بھی اہم ہے کہ پہلی بار پنجابی ثقافت کا دن منایا جارہا ہے،اس میں شامل ہونے والا ہر شخص وہ تاریخی کردار بن جائے گا جس نے اس روایت کو زندہ کیا۔یہ دن، پنجاب کا چہرہ ہے جس کی پہچان وہ روایتی انا اور بہادری ہے جسے پنجاب دشمن قوتوں کی سازشیں کبھی دھندلا نہیں سکتیں۔آج یکم چیت ہے،چیت کا مہینہ بھی کیلنڈر سے زیادہ پنجابیوں کے دلوں میں ہے۔یہ پہلی چیت اس طلوع کی پہلی کرن ہے جو آنے والی نسلوں کو ایسی روشنی دے گا جس میں اپنی ثقافت کا ہر نقش روشن اور نمایاں ہوکر دکھائی دے گا۔آج کا دن پنجاب کا دن ہے،اس پنجاب کادن جس کی پہچان مٹانے کی کوشش کئی صدیوں سے ہوتی رہی لیکن اس کا اُچاشملہ جھکا نہ آنکھوں سے”روایتی انکھ“ کی سرخی گئی۔پنجاب آج بھی قائم ہے اور اللہ کے فضل سے ہمیشہ اسی طرح ہنستا بستا اور لہلہاتا رہے گا۔