پنجاب پولیس امن قائم کرنے میں ناکام کیوں؟
پنجاب پولیس بہت بد نام ہے،کرپٹ ہے،سیاسی ہے طرح طرح کے القبات سے نوازا جاتا ہے،اور شائد سچ بھی ہے. کچھ دن پہلے عثمان بزدارکی پنجاب پولیس کو آرڈر ملا،ڈسکہ الیکشن میں نوں لیگ کے ایک سابق ناظم کو اگر گرفتار کرلیا جائے تو حکمران جماعت یہ الیکشن جیت سکتی ہے، پولیس نے اسے گرفتار بھی کیا،تشدد بھی کیا گیا! اس کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والوں پرلاٹھی چارج بھی کیا گیا! الیکشن میں جیت کو یقینی بنانے کے لیے گاڑیوں پر پولیس والوں نے ڈنڈے بھی برسائے! یعنی پنجاب پولیس نے روکا بھی اور اندر بھی ٹھوکا! نتیجہ کیا نکلا الیکشن کے روز حکمران پارٹی اور پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدواروں کے حامیوں کے درمیان جھگڑے نے دو افراد کی جان لے لی،بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی،پولیس کی اس کارروائی کی وجہ سے حکمران بھی الیکشن چوری کے الزام میں بدنام ہوئے اگر یہ کہاجائے اس متنازعہ الیکشن کی وجہ سے عام انتخابات پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا،محکمہ پولیس کا اپنا داراہ بھی بری طرح بدنام ہوا الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا پڑا،ڈی پی او، ڈی سی او،اے سی اور دو ڈی ایس پی معطل، آرپی او اور کمشنر کو تبدیل کرنا پڑا۔کمشنر اور ڈی سی او کی شہرت کے بارے میں مجھے زیادہ علم نہیں ہے البتہ آر پی او اور ڈی پی او کو میں زاتی طور پر جانتا ہوں اچھی شہرت کے حامل پولیس آفیسرز ہیں، ناتجربہ کاریوں اور خوشامدی میاں مٹھوٹولے نے اچھے بھلے افسران کے کیر ئیر کو نہ صرف تباہ کرکے رکھ دیا ہے بلکہ ادارے کے مورال کو بھی جھنڈے کی طرح سر نگوں کر دیا ہے،یہ اک جھلک ہے نیا پاکستان کی اور آنے والی تبدیلی کی۔ ایسے حالات میں کوئی بھی آفیسرز آرپی او، اور ڈی پی او لگنے کے لیے تیار نہیں ہے۔پنجاب حکومت کی جانب سے گڈ گورننس کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن اس کی اصلیت صرف محکمہ پولیس کی کارکردگی سے ہی دیکھی جاسکتی ہے جن کا ڈنڈا صرف معصوم عوام پر ہی برستا ہے اور مجرم آزاد پھرتے نظر آتے ہیں صرف ایک شہر پنجاب کے دل لاہور کی بات کرلیں ڈکیتی اور راہزنی کی 30 سے 40 وراداتیں روز کا معمول بن گئی ہیں، پچھلے دنوں ڈاکو وزیر اعظم عمران خان کے بھانجے کے گھر بھی لوٹ مار کر کے چلتے بنے پوش علاقوں میں ڈاکوؤں چوروں کے ایسے پراسرارگروہ سرگرم ہیں جو گھروں میں اسلحہ کے زور پر اہل خانہ کو یر غمال بناکر وارداتیں کرنے میں سرگرم ہیں، ماڈل ٹاؤن جیسے پوش علاقے میں ڈاکوؤں کے اس گروہ نے ایک ہفتہ میں تین مختلف گھروں میں داخل ہو کر3 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی وارداتیں کی ہیں،امن و امان کی صورتحال کا اندازہ آپ اس سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ ایک مقامی نیوز چینل کے مطابق دو گھنٹوں کے دوران شہر میں خواتین سمیت شہریوں کیساتھ ڈکیتی کی 8 وارداتیں ریکارڈ کی گئیں۔ یعنی ہر 15 منٹ بعد ایک واردات، ایک دن ایسا بھی تھا ڈکیتی مزاحمت پر 3افرادکو ڈاکوؤں نے گولیاں مار کر زخمی جبکہ ایک شہری کو ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیا،یوں تو ہمارے حکمران اور رعایا اکثر اس بات سے شاکی ونالاں رہتے ہیں کہ ہمارے ادارے زبوں حالی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔جدید ترین دور، عمدہ تنظیمیں اور حکمرانوں و دیگر مشیروں کے علاوہ افسران کی بھرمار ہے جو ان تمام اداروں کا جائزہ بھی لیتے رہتے ہیں ہے۔کام کرنیوالے بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ دیکھا جائے تو اب چیک اینڈ بیلنس بھی کافی زیادہ بڑھ چکا ہے۔ ملازمت کا پورا حساب کتاب دینا پڑتا ہے۔ ادارے زبوں حالی کا شکار نہیں ہیں۔ میں سمجھتی ہوا کہ کافی حد تک بہتری آئی ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں حالات یکسر مختلف نظر آتے ہیں اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا ان اداروں پر اس طرح سے سختی نہیں کی جارہی جس طرح دوسرے شعبہ جات میں دیکھنے آرہی ہے۔ مثال کے طور پر ان میں نمایاں ترین ادارہ محکمہ پولیس ہے۔ اگرچہ پولیس کے نام پر چند ایک اچھے کارنامے بھی ہیں‘ لیکن ایسا شاذو ناذ ہی نظر آتا ہے کہ کوئی ایماندار افسر اپنی ذاتی اچھائی کی بنیاد پر کچھ اچھے کام کر گزرا ہو وگرنہ حالات نہایت ابتر ہیں۔ بدقسمتی سے قانون کے ان رکھوالوں کا شعبہ دراصل عوام میں شروع سے اب تک دہشت اور ناانصافی کی علامت بن چکا ہے اور اس تصور کو کوئی توڑ نہیں سکا۔ لوگ دور ہی سے پولیس والوں کو دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے ہیں اگرچہ وہ بے قصور ہی کیوں نہ ہوں۔ پاکستان اور خصوصا" پنجاب پولیس شروع سے اپنے کارناموں کی وجہ سے بدنام ترین ہے اور اسکی وجہ پولیس کا نہایت سنگدلانہ اور بے رحمانہ رویہ ہے۔پچھلے کئی دن سے میڈیا کے ذریعہ بے شمار کارہائے نمایاں سامنے آچکے ہیں جہاں پولیس گردی سے بے شمار لوگ اپنی جانیں اور اپنی عزتیں گنوا بیٹھے ہیں۔ زیرِ حراست لوگوں کی موت کے پے درپے واقعات نے عوام کو مزید خوفزدہ کررکھا ہے۔ ایک انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ پنجاب آجکل سنگدل پولیس کا مقبوضہ علاقہ بنا ہوا ہے۔ تاریخ مرتب ہورہی ہے نہ اس سے قبل اس طرح کے واقعات کو سنجیدگی سے لے کر محکمہ پولیس پر سختی کی گئی اور نہ ہی اب ایسا کوئی سبق نظر آتا ہے۔ قانون تو سب کیلئے یکساں ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی محکمہ ہو۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں‘ لیکن ستم یہ ہے کہ پاکستان میں خصوصاً قانون کی نظر میں سب ہرگز برابر نہیں ہے۔ یہاں بھی طاقتور کا سکہ چلتا ہے۔ پولیس خود کو ہی قانون کہتی ہے اور سمجھتی ہے انکی نظر میں انکے بنائے ہوئے اصول ہی عوام پر لاگو ہوتے ہیں اور وہ خود بھی ان سے بالاتر ہیں کیا ایک شخص اپنی حدود کو کراس کرتے ہوئے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے جلاد اور قصاب بن کر انسانوں کو بے رحمی سے مارے گا اور تشدد کرے گاتو کیا اس پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوگا؟ اس شعبہ کی نگرانی آخر کس کے سپرد ہے۔ ان کو ان کے مظالم سے ہاتھ روکنے والا کیا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ان کو ان کے اصل فرائض سے آشنا کرنے والی کوئی ٹیم، کوئی سربراہ ہیں ہے جو انکے اصل فرائض سے ان کو آگاہ کرتا رہے۔ اگر کوئی ہے تو پوشیدہ کیوں ہے ہم، آپ سب کو نظر کیوں نہیں آتا،