گل ودھ گئی اے مختاریا؟

 گل ودھ گئی اے مختاریا؟
 گل ودھ گئی اے مختاریا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک وقت وہ تھاجب ڈرائنگ روموں میں، نجی محفلوں میں یا پھر گلی کوچوں میں دبے الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کوڈسکس کیا جاتا تھااور بات کرنے والا ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا کہ کہیں وہ ایجنسیوں کا آدمی تو نہیں۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ پریس کلب میں جس کسی پر شک ہوتا اس کو ازراہ تفنن بھری محفل میں مخصوص القاب سے پکارا جاتا تھا اور رفیق غوری سے مرد قلندر ڈنکے کی چوٹ پر دل کی بات کہتے، ہنستے اور زخم سہتے تھے۔ مگر آج حالات نے کروٹ لی ہے اور ہمارے سیاستدان علی الاعلان ایجنسیوں کے کردار پر بات کر رہے ہیں اور لوگ سن رہے ہیں۔ یہ پیش قدمی ہے اور جمہوریت کی مضبوطی کی نشانی ہے۔ ایسا نہیں کہ لوگ اپنے اداروں سے پیار کرنا چھوڑ گئے ہیں بلکہ یوں کہئے کہ پہلے سے زیادہ محب وطن ہیں اور وطن کی حفاظت کے حوالے سے ان کے کردار کے معترف ہیں لیکن اپنے حق حکمرانی میں اب کسی کھوٹ کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔اسی لئے تو سوشل میڈیا اب ہمارے ڈرائنگ روموں، نجی محفلوں اور گلی کوچوں میں ہونے والی قیاس آرائیوں کا عکس بنا ہوا ہے، یہ الگ بات کہ وہاں یہ بات کرنے والے اکثر اکاؤنٹ جعلی ناموں سے بنے ہوئے ہیں مگر پھر وہ وقت بھی آ جائے گا جب لوگ براہ راست بات کریں گے۔ پھر دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی اور بجلی کڑ کڑ کڑکے گی اور بالآخر راج کرے گی خلق خدا جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں والی صورت حال بنے گی۔


قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ایک زمانے میں مسلم لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کہا جاتا تھا، پھر اس کی جگہ جماعت اسلامی نے لے لی اور اب یہی طعنہ بلاول کو طلال چودھری سے سننا پڑاہے کہ کیا انہوں نے نیوٹرل کا مزہ لے لیا اور لگتا ہے کہ جواب میں بلاول غصہ کرگئے اور ذاتیات پر اتر آئے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے معروف پروڈیوسر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی حکومت میں پی ٹی وی کے لئے ’ملک مہربان‘جیسا کردار لکھنے والے شاہد ندیم جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں لندن میں پناہ لئے ہوئے تھے اور بطور صحافی روزی روٹی کا سبب بنائے ہوئے تھے جب لندن میں بے نظیر بھٹو صاحبہ نے سیاسی عمل کا آغاز کیا تو ان کی ایک تقریر رکھی گئی جس کی کوریج کے لئے شاہد ندیم گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو اپنی تقریر میں اس قدر کمپرومائزڈ نظر آئیں کہ واپس آکر انہوں نے رپورٹ میں جو کچھ لکھا اس کا لب لباب یہ تھا کہ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔ اس پر بے نظیر بھٹو نے انہیں بلا بھیجا اور خاصی سیخ پا ہوئیں لیکن شاہد ندیم اپنی بات پر قائم رہے کہ کارکنوں نے جس مقصد کے لئے اتنی قربانیاں دی تھیں، تقریر میں اس کا عکس نمایاں نہیں تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ میٹنگ کے بعد جب وہ واپس چلے آئے تو بے نظیر بھٹو نے اعتراف کیا تھا کہ شاہد ندیم ٹھیک کہہ رہے تھے۔ چنانچہ گزشتہ چالیس برس میں جنرل ضیاء کی باقیات نے پیپلز پارٹی کا ڈنگ نکال پھینکا اور اب پچھلے دس برسوں سے جنرل مشرف کی باقیات نون لیگ کو گھیرنے میں لگی ہیں اور پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر وہی کارخیر سرانجام دے رہی ہے جو نون لیگ جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف کر رہی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ نواز شریف کا انجام بھٹو جیسا نہیں ہوا ہے اور مریم نواز کو ان کے کسی شاہد ندیم نے کمپرومائزڈ ہوجانے کا ابھی تک طعنہ نہیں دیا ہے جو شہباز شریف کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ 

حیرت تو اس بات پر ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب سے قبل سینٹ ہال سے پولنگ بوتھ میں لگے کیمروں کے انکشاف پر نون لیگ کے مصدق ملک جس قدر سیخ پا تھے اس قدر مصطفی نواز کھوکھر تھے اورنہ ہی پی ٹی آئی تھی۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب شاہد خاقان عباسی اپنے سینیٹر کو لے کر پریس کو بتارہے تھے کہ انہیں ٹیلی فون آرہے ہیں، عین اسی وقت یوسف رضاگیلانی پریس کو بتارہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نظر آرہی ہے۔ شام کو جب نواز شریف گویا ہوئے کہ مریم کو smashکرنے کی دھمکی دی گئی ہے تو مریم نواز نے ٹوئٹر پر بتایا کہ انہیں خالی دھمکیاں ہی نہیں بلکہ ننگی گالیاں بھی دی گئی ہیں مگر انہیں بلاول بھٹو کا فون موصول ہوا اور نہ آصف زرداری کا اور یہی نہیں بلکہ ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن ہارنے کے بعد مولانا غفور حیدری نے بتایا کہ ان کے کسی ساتھی کو کہیں سے کوئی کال نہیں آئی۔ ہائٹ آف ڈیلائٹ تو یہ تھی کہ الیکشن تو یوسف رضا گیلانی ہارے مگر پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید کہتے پائے گئے کہ مسلم لیگ نون، انا للہ واِناّ الیہ راجعون!یہ جملہ معاملات بتاتے ہیں کہ نون لیگ نشانے پر ہے اور نواز شریف کے آس پاس کھڑے ہوئے کئی دوست ہیں۔ 


بھٹو نے سفید ہاتھی کو للکارا تھا اور اس کی بھاری قیمت ادا کرکے تاریخ میں امر ہو گئے تھے۔ نواز شریف جن گندمی ہاتھیوں کو للکار رہے ہیں اور مریم نواز جس للکار کو پھنکار میں بدلتی نظرآتی ہیں کیا اس للکار پر پاکستانی معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی آسکے گی؟ کیا اقبال، قائد، حسین شہید سہروردی، لیاقت علی خان، بھٹو اور فیض و فراز کے آدرشوں کو حقیقت کا رنگ مل سکے گا یا پھرنئے زمانے میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں والی صورت حال ہوگی!

مزید :

رائے -کالم -