پنجابی کلچر ڈے کی بہار

پنجابی کلچر ڈے کی بہار
پنجابی کلچر ڈے کی بہار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اہل ِ پنجاب بالآخر اپنی ثقافت،بولی اور پہچان کی جانب سفر آغاز کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔وہ پنجاب جسے انگریز سرکار سے لے کر عہدِ حاضر تک کی مخصوص اشرافیہ نے اپنی ثقافت سے دور رکھ کر مصلحتوں کی صلیب چڑھائے رکھا آج وہ 14مارچ،یکم چیت کو اپنادن منارہاہے۔اس منزل کو حاصل کرنے میں صدیوں کی ریاضت ہے جس میں اہلِ پنجاب نے ہر طرح کی قربانی دی ہے۔تاج وتخت گنوائے اور حملہ آوروں کے سامنے مورچہ زن ہوکر قتل گاہوں کو لہو کا خراج دے کے نکلے۔خوشا،کہ اب یہ قوم عدم پہچان کی اندھیر نگری سے نکل آئی ہے۔ان سب قربانیوں کے بعد اب دُلّے بھٹی اور احمد کھرل کی دھرتی کے وارثوں نے ایک منزل تو پاہی لی جہاں سے اک نئے سفر کو شروع ہونا ہے،ایسے سفر کو جہاں گمشدہ نقش پا ہیں،جن پہ چلتے ہوئے آنے والی نسلیں اپنے آبا کی پگڑی کے اونچے شملے پر مان کرتے ہوئے سازشوں کواپنے کُھسے تلے مسلیں گی۔پنجاب تصوف اور محبت کی سرزمین ہے۔یہ خوش نصیب خطہ ہزاروں سال پرانی تہذیب کا وارث ہے۔یہ خطہ محض تفریحی سرگرمیوں کے باعث ہی پہچان نہیں رکھتا بلکہ تاریخی حقائق گواہ ہیں کہ پنجاب کی سرزمین ہمیشہ سے ہندوستان کاتہذیبی مرکز رہی ہے۔ 


پنجاب کی تاریخ پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو اس کا ذکر قدیم کتب میں بھی ملتا ہے۔ہندوستان کی قدیم ترین داستانوں میں سے ایک، مہا بھارت میں اس دھرتی کو”پنج ندا“ لکھا گیا ہے جس کے معنی پانچ ندیوں کے ہیں،یہ تذکرہ ثانوی یا زیب حکایت نہیں بلکہ تفصیل سے موجود ہے۔اسی طرح ابن ِ بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں اس خطے کاذکر تفصیل سے کیا ہے۔ابن ِ بطوطہ نے یہاں تک لکھا کہ یہ دنیا کی قدیم  تہذیبوں میں سے ایک ہے،جہاں کبھی بھوک اور آفات نے مستقل ڈیرے نہیں ڈالے۔ابوالفضل کی آئین ِ اکبری میں بھی پنجاب کا ناصرف ذکر موجود ہے بلکہ اس کی عسکری اہمیت کے بارے میں بھی سیر حاصل تذکرہ ہے۔اس طرح کی بے شمار تاریخی اسناد ہیں جو پنجاب کو ہزاروں سال پہلے کی تہذیب کا وارث ثابت کرتی ہیں۔تاریخی حقائق کے آئینے میں دیکھیں تو پنجاب کی اہمیت کو کسی بھی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔لیکن بد نصیبی سے ایک سازش کے تحت پنجاب کے ہیروز کو وِلن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی جس میں پنجاب دشمن بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔یہ سلسلہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب یہاں بیرونی حملہ آوروں کی آمد ہوئی۔سکندر آیا تو اس کے سامنے پورس ڈٹ کے کھڑا ہوا اور دنیا کی مضبوط ترین فوج کا مقابلہ جوانمردی سے کیا۔منگولوں سمیت جب کبھی کوئی یہاں حملہ آور ہوا تو پنجاب کے لوگوں نے مقابلہ کیا، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ثابت کیا کہ اپنی دھرتی کے لیے لڑتے ہوئے گردن کٹوا لینا شکست نہیں، جیت ہے۔مغل دور میں دُلّا بھٹی جیسے اَن گنت پنجابی مجاہد وں سے بہت آگے نکل کر دیکھیں تو ہمیں انگریز کے خلاف بھی پنجابی ہی میدان ِ عمل میں دکھائی دیتا ہے۔وہ رائے احمد کھرل ہو یا پھر آزادی کا عظیم ہیرو بھگت سنگھ،پنجابی ہر دور میں آزادی کی دلہن کے ماتھے کا جھومر دکھائی دیتے ہیں۔اِس خطے کے جوانوں نے کبھی شکست تسلیم نہیں کی،یہ ہر طرح کے حالات میں مقابلہ کرتے ہیں۔انہیں زیر کرنا کبھی آسان نہیں رہا۔اگر وقتی طور پر یہ زیر عتاب آبھی گئے تو بپھرے ہوئے دریا کی طرح بڑھے اور چٹانوں سے سر ٹکرا کر اپنے ہونے کا پتا دیتے رہے۔


پنجاب اور پنجابی چونکہ مزاحمت کا استعارہ تھے اس لیے کوئی بھی قابض یہاں آیا تواِس خطے کی ثقافت مٹانے کی کوشش کی۔آپ مغل دور سے شروع کیجیے،اس سلطنت کا مرکز چونکہ پنجاب ہی تھا سو دِلّی یا لاہور میں تخت اتنا اہم نہیں تھا جتنا پنجاب پر کنٹرول رکھنا ضروری تھا۔مغل دور میں یہاں کی زبان اور ثقافت کو پہلا بڑا نقصان پہنچایا گیا۔یہاں کی مقامی زبان کی بجائے سرکار دربار کی زبان فارسی کو اولین حیثیت دے دی گئی۔چھاپہ خانے کی ہندوستان آمد نے زبانوں کی ترقی میں انقلاب کا دروازہ ضرور کھولا لیکن پنجابی کے لئے یہ انقلاب بھی آکسیجن کی وہ کھڑکی ثابت نہ ہوا جس سے اس زبان کی سانیں بحال ہو سکتیں۔انگریز چالاک تھا،جانتا تھا کہ جب زبان کمزور ہوجائے تو قوم خودبخود ٹوٹ جاتی ہے۔ثقافت سلامت رہتی ہے نہ ادب سمیت کسی بھی روایت کی جڑیں مضبوط رہتی ہیں جو اس خطے کا سرمایہ مانی جاتی ہیں۔پنجابی کے ساتھ بھی یہی کھیل ہوا،لیکن یہ زبان اتنی طاقتور تھی کہ آ ج سازش کی کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود اپنی جگہ پرقائم ہے۔یہ کل کی طرح آج بھی اپنی بقا کی جنگ تو لڑ رہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پنجابی زبان مٹ جائے گی یا پنجاب کی ثقافت کا نشان باقی نہیں رہے گا۔اسے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں،یہ پنجاب واسیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے۔انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے پنجاب اور پنجابی نے آزادی کے بعد ایک اور بڑی آزمائش کا سامنا کیا۔تقسیم ہند ہوئی تو پنجاب کو غیر فطری طور پر دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔

یہ بڑی سازش تھی جس نے پنجابیوں کو عملی طور پر بہت کمزور بنایا،پنجاب کی تقسیم نے زبان اور ثقافت پر ایسا کاری وار کیا کہ آج بھی پنجاب اِس طرف کا ہو یا اُس طرف کا،دونوں جانب محرومیا ں ہیں۔بالخصوص پاکستان کے حصے میں آئے پنجاب کی بیوروکریسی نے انگریز کی پنجابی دشمن سوچ سے بغاوت نہیں کی۔انگریز سرکار کی اس معنوی اولاد نے پہلے پنجابی کو نصاب سے دور کیا اور پھر ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے پنجابی تصوف اور شعری رعنائی کی زبان نہیں،بدتمیزی اور گالم گلوچ کی زبان ہے۔ہمارے انگریز پرور حکمرانوں نے ہمیشہ پنجاب کے ساتھ دشمنی کی روایت نبھائی،مارشل لاؤں اور نام نہاد جمہوریت پسندوں کی مغربی سوچ نے اس زبان کو ہمیشہ نقصان پہنچایا۔اول تو پنجاب کے پاس کبھی حکمرانی رہی ہی نہیں،اور اگر نواز لیگ کی شکل میں پنجابی حکمران نصیب بھی ہوا تو اسے یہ تاثر مٹانے کے لیے پنجاب کا حق مارناپڑا کہ سب سے بڑا صوبہ دوسروں کے حقوق غصب کر رہاہے۔سچ پوچھئے تو نواز لیگ نے بھی پنجاب کے ساتھ اپنوں والا سلوک نہیں کیاجس طرح پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سندھ کے حقوق کو اولین ترجیح دی،حالانکہ پنجاب نے ہمیشہ انہیں نوازا اور ایوان ِ اقتدار تک بھی پہنچایا۔پنجاب کے سیاست دانوں اور اشرافیہ کی مجرمانہ خاموشی اور نام نہاد مصلحت کا نتیجہ یہ نکلااس صوبے کا مقدمہ کسی بھی فورم پر لڑا ہی نہیں گیا،یوں ایساماحول پیدا ہواکہ ملک کے دیگر حصوں کے لیے قربانیوں کے باجود وہاں سے کبھی کلمہ خیر نہیں آیا۔پنجاب نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے،یہاں کبھی تعصب آیا ہی نہیں۔پختون بھائی ہوں یا سندھ سے آئے ہم وطن یاپھر بلوچ قوم پرست،پنجاب نے کھلے بازووں سے خوش آمدید کہا۔اس محبت کے باوجودپنجاب کو گالی دینا اور پنجابی کے ساتھ دشمنی جیسے کارِ خیر سمجھ کر کی گئی۔اب بھی سیاسی مفادات کے لیے پنجاب کی تقسیم کا ایسا ایجنڈا زیر بحث ہے جس سے ناصرف ریاست کمزور پڑے گی بلکہ پنجاب کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔بہرحال پنجاب اور اس میں ہزاروں سال کی جدوجہد کرکے اپنی روایات کو زندہ رکھنے والے اتنے بھی کمزور نہیں کہ ایسی سازشوں کے خلاف اُٹھ کھڑے نہ ہوں۔تمام سازشوں کے باوجو


د آج بھی پنجاب میں وہی تازگی دکھائی دے رہی ہے جو کسی زندہ ثقافت کے سلامت اور توانا ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔پنجاب کے عوام اپنی ہزاروں سال پرانی روایات اور ثقافت سے محبت کے اظہار کے لیے ”پنجابی کلچرڈے“منارہے ہیں۔آج چیت کی یکم تاریخ ہے،یہ بہار کی آمد کا اعلان ہے۔دنیا میں بیشتر اقوام بہار کے آغاز پر ہی اپنے ثقافتی تہوارمنانے کی روایت رکھتی ہیں۔پنجاب نے صدیوں سازشوں کا سامنا کرتے گزار یں لیکن اپنی پہچان کو فراموش نہیں ہونے دیا۔آج پنجابی سیوک اسی پہچان کو عَلم بنا کر عملی میدان میں نکل آئے ہیں کہ ہمیں اپنی ثقافت کا ڈھول پوری دنیا میں بجاکر اعلان کرنا ہے کہ استحصال کی روش،گولی کا زخم اور سرکار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشیں بھنگڑا ڈالتے پنجابی کے کھُسے کی نوک پر۔


آج پنجابی چاہتے ہیں کہ ان کی ثقافت کا دن منانے کی روایت زندہ ہو،وہ ثقافت جسے قتل کرنے کے لیے ہر دور کی بڑی عالمی قوت کوشش کر چکی لیکن ناکام رہی۔کلچر ڈے منانے کا فیصلہ پنجاب اور پنجابی کے لیے کام کرنے والی تمام تنظیموں نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔اب پنجاب حکومت بھی پنجابی کلچر ڈے کے پروگرامز کر رہی ہے، پچھلے سال کی طرح اس سال بھی پولیس سمیت دیگر اداروں کے افسران کو پنجابی کلچر ڈے کی مناسبت سے پہناوے پہنے پنجابی ثقافت کے رنگ بکھیررہے ہیں۔آج یکم چیت ہے،چیت کا مہینہ بھی کیلنڈر سے زیادہ پنجابیوں کے دلوں میں ہے۔یہ پہلی چیت اس طلوع کی پہلی کرن ہے جو آنے والی نسلوں کو ایسی روشنی دے گا جس میں اپنی ثقافت کا ہر نقش روشن اور نمایاں ہوکر دکھائی دے گا۔آج کا دن پنجاب کا دن ہے،اس پنجاب کادن جس کی پہچان مٹانے کی کوشش کئی صدیوں سے ہوتی رہی لیکن اس کا اُچاشملہ جھکا نہ آنکھوں سے”روایتی اَنکھ“ کی سرخی گئی۔پنجاب آج بھی قائم ہے اور اللہ کے فضل سے ہمیشہ اسی طرح ہنستا بستا اور لہلہاتا رہے گا۔

مزید :

رائے -کالم -