توشہ خانہ اور ہمارے حکمران
وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کا 2002ء سے 2023ء تک کا 21 سالہ ریکارڈ جو 446 صفحات پر مشتمل ہے ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا ہے، اس کے مطابق گزشتہ سال 2022 ء میں توشہ خانہ میں 224 تحائف موصول ہوئے، 2021 ء میں 116، 2018 ء میں 175 اور 2015 ء میں 177 جبکہ 2014 ء میں 91 تحائف حکومتی ذمہ داران نے وصول کیے۔ آصف علی زرداری کو 181، پرویز مشرف کو 126، عمران خان کو 112، نوازشریف کو 55 اور شاہد خاقان عباسی کو27 تحائف ملے۔ توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں سابق صدور، سابق وزرائے اعظم، سابق وفاقی وزرا، فوجی عہدیداران اورسرکاری افسروں کے نام شامل ہیں۔ پرویز مشرف، آصف زرداری، ممنون حسین، ظفراللہ جمالی، محمد میاں سومرو، شوکت عزیز، جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی، یوسف گیلانی، شاہد خاقان عباسی، نواز شریف، پرویز اشرف، عمران خان، نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، مریم اورنگزیب، بلاول بھٹو، نوید قمر، خواجہ آصف، فواد چوہدری، شیخ رشید، اسدعمر، جہانگیرترین اور حفیظ شیخ کا توشہ خانہ ریکارڈ بھی ویب سائٹ پرموجودہے۔ وصول کنندگان میں سابق وزیر خارجہ عبد الستار، ڈاکٹر عطاء الرحمن، الطاف ایم سلیم، انور محمود، بریگیڈئر ندیم تاج، سنیٹر طارق عظیم، سکندر حیات بوسن بھی شامل ہیں۔ توشہ کانہ سے لیے گئے تحائف میں گھڑیاں، پین، کتابیں، پرفیوم، کارپٹ، ٹی پاٹ، کیبل کلاک، موبائل سیٹ، خنجر، زیورات، نیکلس، ڈیکوریشن پیس، شال اور قرآن پاک کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی ہے۔
واضح رہے کہ 23 فروری کو وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں 1947 ء سے اب تک توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے کی تفصیلات کی فراہمی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران کابینہ کا ریکارڈ ”ڈی کلاسیفائی“کرنے کا فیصلہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2002 ء سے توشہ خانہ تحائف خریدنے والوں کا ریکارڈ ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ حکومت کا موقف ہے کہ اِس سے پہلے کا ریکارڈ چونکہ ڈیجیٹل نہیں اِس لیے فوری طور پر اِسے عام کرنا ممکن نہیں، اْسے مرتب کرنے کے لیے خاصا وقت درکار ہو گا۔
توشہ خانہ 1974ء میں تشکیل دیا گیا تھا اور یہ کابینہ ڈویژن کے زیر کنٹرول ایک سرکاری شعبہ ہے۔ اِس کا بنیادی مقصد اْن تحائف کو رکھنا ہے جو حکام اعلیٰ وصول کرتے ہیں۔ کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر اْن کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انہیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔ قواعد کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اِسے کسی ادائیگی کے بغیر اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، 2020 سے قبل کل قیمت کا 20 فیصد ادا کر کے انہیں رکھا جا سکتا تھا تاہم تحریک انصاف کے دور میں اِسے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ توشہ خانہ میں اندراج کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ مارکیٹ قیمت کا تعین کرایا جاتا ہے۔ اگر متعلقہ حکام تحائف نہیں رکھنا چاہتے تو پھر اْن کی فہرست تیار کر کے توشہ خانہ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے۔ توشہ خانہ قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اْس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اِسے نہ لے تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے، جو بھی فوجی یا سرکاری ملازم اِن قیمتی اشیاء کو خریدتے ہیں اْنہیں ذرائع آمدن ڈکلیئر کرنے کے ساتھ ساتھ لاگو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ اِس نیلامی سے جو اشیاء بچ جائیں اْنہیں عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں ایسے تحائف کی نیلامی سے حاصل ہونے والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔ کابینہ ڈویژن کے حکام کے مطابق یہ نیلامی ہر سال ہونا ہوتی ہے تاہم سالانہ بنیادوں پر ایسا ممکن نہیں ہو پاتا کیونکہ ایک برس کے دوران سربراہان مملکت اور وزرا کے دوروں میں اتنے تحائف نہیں ملتے کہ ہر برس نیلامی کے انعقاد کی ضرورت ہو۔
توشہ خانہ قانون کی موجودگی کے باوجود یہ معاملہ گزشتہ کئی سالوں سے میڈیا میں زیرِ بحث رہتا ہے کیونکہ چار سابق حکمرانوں کو قواعد و ضوابط کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں مقدمات کا سامنا رہا ہے۔ اِن میں سابق وزرائے اعظم، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان کے ساتھ ساتھ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بھی شامل ہیں۔حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو الزامات ثابت ہونے پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ عمران خان ”کرپٹ پریکٹسز“کے مرتکب ہوئے ہیں اِس لیے اْنہیں آئین کے آرٹیکل 63 پی کے تحت نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ فیصلے میں قانونی کارروائی کا آغاز کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا، یہی کیس اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں زیر سماعت ہے اور پیر کو عدالت نے ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود پیش نہ ہونے پر سابق وزیراعظم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بحال کر دیئے گئے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ توشہ خانہ کا قانون موجود ہے تاہم اِس قانون کے غلط استعمال کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومتی شخصیات صرف 80 ہزار روپے مالیت کا تحفہ اپنے پاس رکھ سکیں گی جبکہ تحائف کی مالیت کا اندازہ تھرڈ پارٹی کرے گی۔ اْنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ توشہ خانہ میں صرف سیاستدانوں کو ملنے والے تحائف ہوتے ہیں، ججوں اور عسکری قیادت کے ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں نہیں آتے، اِس لیے وہ صرف سیاست دانوں کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھ سکیں گے۔ توشہ خانہ سے تحائف لینے والوں کا یہی موقف رہا ہے کہ اْنہوں نے رائج قانون کے مطابق تحائف حاصل کئے۔بہتر یہی ہے کہ ایسی پالیسی مرتب کی جائے جس سے آئندہ اِس مسئلے پر پاکستان کی جگ ہنسائی نہ ہو، امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایک خاص قیمت تک کہ تحائف لیے اور دیے جاتے ہیں، ہمیں بھی مستقبل میں اِس مسئلے سے ہمیشہ کے لیے بچ نکلنے کی راہ نکال لینی چاہئے۔وزیراعظم شہبازشریف نے یہ اعلان تو کر دیا ہے کہ آئندہ ایک خاص مالیت کا تحفہ ہی وصول کنندگان حاصل کر سکیں گے لیکن مناسب ہوگا کہ تحفے کی وصولی کے لئے بھی مالیت کی حد مقرر کرکے تمام دوست ممالک کو اس سے آگاہ بھی کر دیا جائے۔ بہت زیادہ قیمتی تحائف نہ لئے جائیں نہ دیئے جائیں۔