معیشت کا اونٹ

پاکستان کی موجودہ یا تازہ ترین صورت حال میں جن اونٹوں کی زیادہ دوڑیں لگ رہی ہیں ان میں اس وقت سر فہرست انتخابات اور معیشت ہیں۔ انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے وہ ہمارے آج کے جائزے کے دائرے سے باہر ہے، البتہ ہم اس وقت یہ ضرور دیکھنا چاہتے ہیں کہ معیشت کے اونٹ کا کیا معاملہ ہے یہ تو سب مانتے ہیں کہ یہ کافی بھاگ بھاگ کر اب تھک چکا ہے لیکن کس کروٹ بیٹھا ہے، بیٹھا بھی ہے کہ نہیں بیٹھا، اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
اس محاورے کا ترجمہ یہ بنتا ہے کہ کچھ لوگوں کی رائے میں پاکستان معاشی لحاظ سے ڈیفالٹ کر چکا ہے، اکثریت کی رائے میں یہ ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکا ہے، ایک اقلیتی رائے ایسی بھی موجود ہے جس کے مطابق پاکستان کے معاشی حالات پورے قابو میں ہیں جس کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کا دور دور تک امکان نہیں ہے۔
میں نہ تو معاشی ماہر ہوں اور نہ مجھے اس کی گہرائی میں جا کر سائنٹیفک بنیادوں پر اپنا کوئی فیصلہ سنانا ہے۔ مجھے انسانی انصاف میں دلچسپی ضرور ہے جس کا ایک حصہ معاشی انصاف ہے، اس لئے مجھے صرف اس زاویئے سے پاکستانی معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا جائزہ لینا ہے۔ مجھے پاکستان کی مجموعی معاشی ترقی سے زیادہ اس بات سے دلچسپی ہے کہ کیا اس ممکنہ ترقی کا بیشتر حصہ سوسائٹی کے نچلے یا کم آمدنی والے طبقے تک پہنچ رہا ہے یا نہیں، اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر اس نظام کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لائی جائے جو سرمائے اور وسائل کے فوائد کو اوپر ہی روک دیتا ہے اور نیچے جانے ہی نہیں دیتا۔
پاکستان کا موجودہ نظام نہ صرف سرمایہ دارانہ ہے بلکہ اس کی خاصی بگڑی ہوئی صورت ہے، اس میں ”فلاحی پیوند“ ضرور لگائے جاتے ہیں لیکن اس طرح تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے صاحب حیثیت مقتدر طبقے محروم لوگوں کو ان کا حق نہیں دے رہے بلکہ ان پر احسان کر رہے ہیں پاکستان میں کرپشن بھی عروج پر ہے۔ خیرات دینے میں یہ دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہے البتہ سرکار کو ٹیکس دینے والوں کی شرح انتہائی کم ہے، اس کی مجھے وجہ معلوم نہیں صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے شاید ٹیکس اس لئے کم دیا جاتا ہو کہ یہ کرپشن کی نذر ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوتا، آپ ٹیکس افسروں کی ملی بھگت یا کرپشن کے ذریعے ٹیکس میں کمی کرا سکتے ہیں لیکن ٹیکس خزانے میں داخل ہو جائے تو پھر اس میں کرپشن نہیں ہو سکتی۔ ٹیکس کا پیسہ خزانے میں جا کر محفوظ ہو جاتا ہے، محروم طبقے کو خیرات کے ذریعے بھکاری بنا کر ایک طرف آپ کی انا کی تسکین ہوتی ہے اور دوسری طرف کرپشن کے مال پر خیرات سے آپ کے ثواب کا سکور بڑھ جاتا ہے اور ان کے خیال میں اسی طرح خدا بھی خوش ہو گیا اور کرپشن کا گناہ بھی معاف ہو گیا۔
جب دنیا بھر میں سرمایہ دار طبقے کا استحصال بڑھ گیا اور محروم طبقے کے افلاس کی انتہا ہو گئی تو اس نا انصافی کے ازالے کے لئے کمیونزم اور سوشلزم کا نظام مقبول اور رائج ہوا، اس نے سرمایہ دارانہ نظام کی کمر توڑ دی، اس کا بنیادی تصور اور فلسفہ بہت خوش آئند، مثبت فلاحی اور تعمیری تھا۔ لیکن روس، چین اور مشرقی یورپ میں جب اس کا عملی اطلاق ہوا تو سرمایہ داروں کی جگہ خوف ناک آمریت سے لیس ایک نیا مقتدر حلقہ وجود میں آیا، ان کے آمرانہ مظاہر کو مثال بنا کر سرمایہ داروں نے سیاسی لیڈروں کی پشت پناہی کر کے اپنے مذموم مقاصد کے لئے اس فلاحی نظام کو تتر بتر کر دیا جہاں سارا سرمایہ اور وسائل عوام میں برابر تقسیم ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
اس طرح سوشلزم اور کمیونزم پھیلنے سے رک گیا اور چند ایک ممالک تک محدود رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حملے کا یہ فائدہ ہوا کہ ان سوشلسٹ ممالک کا بند معاشرہ کھل گیا اور مقتدر طبقے نے عوام پر عائد پابندیوں کو نرم کر دیا لیکن دوسری طرف محنت کش اور محروم طبقے کی بیداری نے سرمایہ دار ممالک کو بھی اپنے سسٹم کو کھولنے پر مجبور کر دیا، وہاں سرمایہ داروں کو ترقی کے مواقع تو ملتے رہے لیکن انہیں اجارہ داری سے روکنے کے لئے نئے ضوابط تیار کئے گئے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ باقاعدہ کمیونسٹ یا سوشلسٹ کہلانے والے روس اور چین جیسے ممالک کے سوا جہاں جہاں حکومتیں سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے تحت چل رہی تھیں وہ ”خالص“ نہ رہیں، عالمی عوامی بیداری کے نتیجے میں زیادہ تر ممالک میں ایک نیم سرمایہ دارانہ فلاحی نظام رائج ہوا اگرچہ پاکستان کا موجودہ نظام سرمایہ دارانہ زیادہ اور فلاحی کم ہے۔
ایک پاکستانی امریکن ہونے کی حیثیت سے میں پہلے امریکہ کے معاشی نظام کا تھوڑا سا خاکہ پیش کروں گا پھر پاکستان کی طرف آؤں گا، جس طرح امریکہ کا سیاسی اور حکومتی نظام دلچسپ اور پیچیدہ ہے اس کا معاشی نظام بھی ویسا ہی ہے۔ امریکہ کے حوالے سے ایک بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ وفاقی آئین کے اعتبار سے تو تمام شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں اور انہیں ہر لحاظ سے آزادی حاصل ہے، ہر ایک کو ترقی کے برابر مواقع حاصل ہیں اور اس سے بے شمار شہریوں نے اس کا فائدہ اٹھا کر اپنی املاک اور وسائل میں اضافہ کیا لیکن آئین میں شہریوں کو اپنے کمائے ہوئے اثاثے برقرار اور محفوظ رکھنے سے نہیں روکا گیا۔
اب ان اثاثوں میں توازن برقرار رکھنے یا کسی کو اپنی امارت کی حد کراس کرنے سے روکنا ہے یا نہیں آئین اس بارے میں خاموش ہے۔ اس لئے جب ہم امریکہ کے معاشی نظام کی بات کریں تو ہمیں دونوں بڑی پارٹیوں کے معاشی اصولوں کا جائزہ لینا ہوگا، اس لئے ان کے دولت کو کنٹرول کرنے یا نہ کرنے کے اپنے اپنے ضابطے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ری پبلکن حکومت میں عموماً سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کرنے والا اور ڈیمو کریٹک حکومت میں عموماً عام شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والا معاشی نظام رائج ہوتا ہے۔
تاہم دونوں پارٹیوں کے درمیان جس معاملے میں زیادہ کش مکش ہوتی ہے وہ ٹیکسوں کا نظام ہے۔ ایک تو ری پبلکن پارٹی ویسے بھی سرمایہ دار دولت مند ہے اور جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا جو خود بھی سرمایہ دار ہے تو اس نے بڑے کاروباروں اور سرمایہ داروں پر عائد ٹیکسوں میں سہولت فراہم کی تاہم اس وقت صدر جوبائیڈن کی حکومت میں جیسے جیسے شہریوں یا کاروباریوں کی آمدن بڑھتی ہے ویسے ویسے ان پر ٹیکس بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ ٹیکس لگتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ امریکی معیشت یا بجٹ کا زیادہ انحصار ٹیکسوں پر ہی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ ٹیکس انفراسٹرکچر کی تیاری اور شہریوں کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے میں استعمال ہوتا ہے، اس کے باوجود دنیا کے سب سے زیادہ امیر افراد بھی امریکہ میں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کاروباری ترقی کے مواقع کھلے ہیں اور سرمایہ کار اپنے منافع کا خاصہ حصہ ٹیکس ادا کر کے بھی اپنی دولت بڑھاتے رہتے ہیں۔
آپ حیران ہو جائیں گے کہ امریکہ میں کتنا ٹیکس لگتا ہے اور اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکہ میں رہ کر ٹیکس ادائیگی سے بچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے آپ کو تھوڑا سا اندازہ لگانے کے لئے بتاؤں کہ جن شہریوں کی سالانہ آمدن پانچ لاکھ چالیس ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ ہے تو ان کو تقریباً ایک لاکھ 63 ہزار ڈالر کے علاوہ اس حد سے جتنی زیادہ آمدن ہو اس پر مزید 37 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ کم آمدنی کی کم شرحیں ہیں لیکن معافی بالکل نہیں۔ کم سے کم شرح ٹیکس دس فیصد ہے جو صفر سے دس ہزار ڈالر آمدن پر عائد ہوگی، اس کے بعد ریاستیں اور مقامی حکومتیں بھی ٹیکس لگاتی ہیں۔ وفاقی حکومت دنیا میں اپنی ”چودھراہٹ“ قائم کرنے کے لئے بیرونی امداد کی صورت لٹاتی بھی بہت ہے لیکن اپنے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے خرچ بھی بہت کرتی ہے۔
مختصر یہ کہ امریکہ ہو یا کوئی دوسرا مغربی ملک کسی جگہ سرمایہ داروں کے بڑھتے ہوئے اثاثوں پر زیادہ ٹیکس تو لگتا ہے لیکن کہیں بھی سوشلسٹ تصور کی طرح شہریوں کی املاک یا آمدن کو برابر کی سطح پر رکھنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ پاکستان کو اگر ہم اسلامی ملک سمجھتے ہیں تو پھر اس کی فلاحی تصور کے مطابق اوپر کی سطح پر بڑے ٹیکس بریکٹس (Brackets) کی شرح بڑھائی جائے اور نچلی سطح پر برائے نام ٹیکس ہونا چاہئے، لطف کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے۔ ملک کے معاشی مسائل کے حل کے لئے بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد حاصل کیا جائے جن کی ترسیل زر اور سرمایہ کاری سے زر مبادلہ کی فراوانی ہو سکتی ہے اور غیر ملکی قرضوں کی محتاجی ختم ہو سکتی ہے۔ متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو سیاست سے فراغت ہو تو وہ اس پر غور کریں۔ اسی صورت میں معیشت کا اونٹ صحیح کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔