گوروں کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ ”کالے فطری رقاص ہوتے ہیں“ 

گوروں کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ ”کالے فطری رقاص ہوتے ہیں“ 
گوروں کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ ”کالے فطری رقاص ہوتے ہیں“ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)
ترجمہ :عمران الحق چوہان 
قسط :22
لارا
شارٹی مجھے نئی نئی جگہوں پر لے جاتا جہاں بے حد خوبصورت لڑکیاں اور طرح دار لڑکے کثرت سے دکھائی دیتے۔ ان جگہوں پر جوانی، جوش اور مستی اپنے عروج پر ہوتی۔ ان جگہوں کی زبان روز مرہ کے اعتبار سے قطعی مختلف تھی اور نئے آدمی کے پلے بالکل نہیں پڑتی تھی۔ لیکن بہت جلد میں نہ صرف اس کا عادی ہوگیا بلکہ روانی سے بولنے بھی لگا۔ دیہات سے شہر آنے والے لاکھوں کالوں کی طرح میں نے بھی ان تمام فیشنوں کو اپنا لیا جو شہری زندگی کا لازمہ تھے مثلاً زوٹ سوٹ، کانک، شراب، سگریٹ اور منشیات، صرف ایک کام ایسا تھا جو میں چاہنے کے باوجود نہیں کر پاتا تھا۔ یعنی رقص۔
 مجھے وہ خاص وقت یا رات تو یاد نہیں جب میں نے پہلی بار کسی ”پیڈ پارٹی“ میں رقص (Lindy-hopping) کیا اور مجھے یہ بھی صحیح یاد نہیں ہے کہ وہ شراب تھی یا ”میری جوآنا“ جس کی تپش نے میری سوئی ہوئی افریقی جبلت کو جگا دیا۔ کوئی تقریب تھی جہاں میرے علاوہ سب رقص کر رہے تھے کہ ایک لڑکی نے مجھے دبوچا اور میں بھیڑ میں رقص کر رہا تھا۔ لانسنگ میں گوروں کے ساتھ رہ کر اور ان کا رقص دیکھ کر میں سمجھتا تھا کہ رقص ایک ترتیب اور تنظیم کا نام ہے۔جہاں آپ کو ہر قدم طے شدہ انداز میں اٹھانا ہوتا ہے۔ مگر یہاں اپنے ہم رنگ لوگوں کے درمیان میں نے دریافت کیا کہ رقص دراصل موسیقی کی دھن پر ہاتھ پاﺅں اور جسم کی آزادانہ اور فطری حرکات کا نام ہے اس کے بعد کوئی رقص کی تقریب میری شرکت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔
 میں فطرةً نئے کام جلد سیکھ لیتا ہوں چنانچہ بہت جلد یہ نوبت آئی کہ لڑکیاں خود آ کر مجھ سے ساتھی بننے کی درخواست کرنے لگیں۔ روزلینڈ میں کام کے دوران بھی میرے ہاتھ پاﺅں موسیقی کی دھن کے ساتھ حرکت کرتے رہتے گوروں کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ ”کالے فطری رقاص ہوتے ہیں“ حتیٰ کہ چھوٹے بچے بھی، اگر وہ گوروں میں رہ کر اپنی فطرة نہ بھول چکے ہوں، بہترین رقص کر تے ہیں میری حالت چابی کے کھلونے جیسی تھی اور موسیقی سنتے ہی مجھ میں چابی بھر جاتی۔
 میں نے روز لینڈ کے مینجر کو نوکری چھوڑنے کا نوٹس دے دیا کیونکہ میں رقص اور جوتے چمکانے کا کام بیک وقت نہیں کر سکتا تھا، ایلاءیہ اطلاع پا کر بہت خوش ہوئی کہ میں نے یہ گھٹیا کام چھوڑ دیا ہے۔ شارٹی نے سن کر کہا کہ اسے پہلے ہی پتہ تھا کہ میں جلد ہی یہ نوکری چھوڑ دوں گا۔ شارٹی کو رقص کی نسبت موسیقی سے زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ زیادہ تر سیکسو فون بجاتا یا دوسرے موسیقاروں کے ریکارڈ سنتا۔ وہ ڈیوک ایلنگٹن کے بینڈ کے فنکار”جونی ہاجز“ سے بہت متاثر تھا۔
 علی الصبح استعفیٰ دیتے ہی میں کپڑوں کی دکان پر پہنچ گیا۔ سیلز مین نے کھاتہ چیک کیا تو میرے ذمہ ایک ہفتہ کی ادائی کے علاوہ کوئی رقم نہ تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نوکری چھوڑ آیا ہوں۔ جس پر اس نے مجھے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں”تم چاہو تو مزید 2 ہفتے بغیر قسط ادا کئے چل سکتے ہو۔“
 میں نے غور سے ملبوسات کا جائزہ لیا اور اپنے لیے دوسرا جوڑا(Zoot)چنا۔ یہ سرمئی شارک سکن کا سوٹ تھا۔ پتلون کے پائنچے اتنے تنگ تھے کہ پتلون پہنتے اتارتے ہوئے جوتے اتارنا پڑتے تھے۔ سیلز مین کے کہنے پر میں نے نئی شرٹ، ہیٹ اور جوتے بھی لے لیے۔ جس سے میرے ذمہ رقم میں ستر اسی ڈالر کا اضافہ ہوگیا۔ میں نے پہلی بار حجام سے کانک کروایا۔ اس بار مجھے زیادہ تکلیف نہیں ہوئی۔ یہ سارا اہتمام اس لیے تھا کہ آج روز لینڈ میں ”لائنل ہیمٹپن“ آ رہا تھا۔ میں نئے کپڑوں میں روزلینڈ پہنچا تو بڑے”ہپسٹرز“‘ میرے کپڑوں کو کن اکھیوں سے دیکھنے لگے۔ لڑکیاں بھی میری جانب مڑ مڑ کر دیکھنے لگیں۔ پہلے میں نے ایک جام لیا پھر بال روم کی طرف چلا۔ موسیقی شروع ہو چکی تھی اور کالے لڑکے لڑکیاں دیوانہ وار ناچ رہے تھے۔ اس سے قبل میں صرف تنگ کمروں میں ناچا تھا اب میرے سامنے ایک ہال تھا۔ شراب اور موسیقی کے گرمی دماغ کو چڑھی تو میں بے خود ہو کر ناچنے لگا۔ اردگرد کھڑی سینکڑوں لڑکیوں میں سے جسے چاہتا دبوچ لیتا۔ وہ سب بھی بہترین ڈانسرز تھیں۔ سیاہ، زرد حتیٰ کہ چند سفید فام لڑکیاں بھی میری شریک ہوئیں۔ میں انہیں دیوانہ وار اپنے کولہے، کندھے اور ہوا میں اچھا لتا اور میری رقص میں مہارت پر سب دل کھول کر داد دے رہے تھے۔ گو ابھی میری عمر16 سال بھی پوری نہیں تھی مگر میں اپنے قد اور کاٹھی کے اعتبار سے اکیس سال کا لگتا تھا۔ میں ہر طرح کے رقص میں پیش پیش رہتا ”سرکلنگ، ٹیپ ڈانسنگ، فلیپنگ ایگل، داکینگرو اور دا سپلٹ“ غرض کوئی رقص ایسا نہ تھا جہاں میری دھوم نہ ہو۔ ان جوشیلے رقصوں میں میری سب سے بہترین ساتھی ”لورا“ نامی لڑکی تھی۔ میری اس سے ملاقات ”ٹاﺅنز اینڈ ڈرگ اسٹور“ پر ہوئی جہاں میں ”جوتے چمکانے“ کی نوکری چھوڑ کر”سوڈا فاﺅنٹین کلرک“ کی نوکری کر رہا تھا۔ یہ نوکری مجھے ایلاءنے دلوائی تھی۔ ہر روز رات8 بجے جب میں کام سے لوٹتا تو ایلاءمیرا دل بڑھانے کے لیے کہتی”دیکھنا ایک روز یہاں تمہیں کوئی اچھا ساتھی ضرور ملے گا۔“ مگر مجھے اس کی امید نہیں تھی یہاں آنے والے تمام چھوٹے بڑے سیاہ فام تنگ دست ہونے کے باوجود خود کو کروڑ پتی ظاہر کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ مجھے ان چھچھورے لوگوں سے سخت وحشت ہوتی۔ یہ سب لوگ تصنع سے بھرپور تھے، انہوں نے اپنے لہجے کو اس حد تک بگاڑ لیا تھا کہ اگر مخاطب سامنے نہ ہو تو سننے والا کبھی نہ جان پائے کہ یہ لہجہ کسی گورے کا نہیں سیاہ فام کا ہے۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -