بلوچستان کی بدقسمتی 

            بلوچستان کی بدقسمتی 
            بلوچستان کی بدقسمتی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ گوادر پورٹ جیسی عالمی بندرگاہ کی تعمیر کے باوجود وہاں کے لوگوں کی حالت نہیں بدلی، غربت نے بلوچوں کا پیچھا نہیں چھوڑا، بلکہ سچ پوچھئے تو گوادر پورٹ اور ایئرپورٹ کی تعمیر نے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی آڑ میں جاری دہشت گردی کو ایک الگ رنگ دے دیا ہے۔ اس دہشت گردی کا مقصد بلوچستان کی ترقی کو روکنا ہے، وہاں عالمی سرمایہ کاری کے راستے کی دیوار بننا ہے۔ کوئی بلوچ ایسا نہیں ہو سکتا جو اپنے بلوچوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جائے، یہ الگ بات کہ وہاں کے نوابوں کے حوالے سے اسلام آباد سے فنڈز لینے اور غریب بلوچوں پر نہ خرچ کرنے کے حوالے سے طرح طرح کی داستانیں موجود ہیں۔ 

پورے پاکستان کی طرح غربت بلوچستان کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے مگر اس مسئلے کے حل کے لئے غریب بلوچ پنجاب یا سندھ کی طرح اپنی دھرتی پر محنت کرنے کی بجائے بارڈر پار سے اشیاء کی سمگلنگ پر اپنی جوانیاں تیاگ دیتے ہیں۔ ایک ایسا صوبہ جس کی سرحدیں بیک وقت دو ممالک سے لگتی ہوں، وہاں پر سمگلنگ کے جس قدر مواقع موجود ہیں اس کا اندازہ پنجاب میں بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پنجاب میں کئی جگہ بارڈر بھارت کے ساتھ لگتا ہے اور یہاں بھی سمگلنگ کا رواج ہے مگر اس کے باوجود یہاں پر سمگلروں کو وہ کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملتا جو بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے غریب بلوچوں کو میسر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کی کاروباری برادری کا سب سے بڑامسئلہ بارڈروں پر ان کے ٹرکوں کو کسٹم حکام کی جانب سے بلاوجہ روکے رکھنا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اگر ایران اور افغانستان کے راستے ڈیوٹی فری اشیاء کی نقل و حمل ہورہی ہے۔ ان کے نزدیک اصل قباحت یہ ہے کہ کسٹم حکام من مرضی کے پیسے لے کر بھی ان کے ٹرک نہیں چھوڑتے ہیں۔ 

جس طرح پنجاب میں زرعی شعبہ غربت کا حل نہیں نکال سکا  اسی طرح بلوچستان میں معدنیات کی فراوانی غربت کے آگے بندھ نہیں باندھ سکی ہے جیسے سیاحتی مقامات کی بہتات شمالی علاقوں کی غربت پر قابونہیں پا سکی، اسے پاکستان کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ چین کی جانب سے موٹر وے کا تحفہ مل جانے کے باوجود اس کے ارد گرد کے علاقوں میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ نہیں مل سکا اور موٹر وے کا واحد فائدہ داتا کے عرس کے موقع پر ایک ہی دن میں دور دراز کے علاقوں سے لاہور آنے اور واپس چلے جانے کے سوا کچھ اور نہیں مل سکا، بلوچستان میں دہشت گردی کی گرم ہوا ایک ایسے وقت میں چل رہی ہے جب باقی کے پاکستان میں معاشی استحکام کے گیت گائے جا رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کے گلی بازار خون میں نہائے ہوئے ہیں، ٹرین اغوا ہوئی لیکن پاکستان کی سٹاک مارکیٹ  کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ، وہاں سے کریش کرجانے کی کوئی خبر نہیں آتی ، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیا بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو وہاں کی بدامنی کا ہماری کاروباری سرگرمیوں پر فرق کیوں نہیں پڑتا؟ کسی چیمبر آف کامرس کو اس حوالے سے بیان دینے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوتی ؟ یہ کیا تماشہ ہے کہ بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے اور باقی کے پاکستان میں رمضان کی برکتیں سمیٹی جا رہی ہیں؟ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بلوچستان کے علیحدگی پسند کیسے ہیں کہ ماہ رمضان میں بھی لوگوں کی جان لینے سے دریغ نہیں کرتے؟ کیا وہ واقعی علیحدگی پسند بلوچ ہیں یا ان کی آڑ میں غیر مسلم منہ پر مڑاسے باندھے ہاتھوں میں بندوقیں لئے بلوچستان کا امن و سکون تباہ کئے ہوئے ہیں؟

نیشنل ایکشن پلان بھی بلوچستان کی بدامنی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا، باقی کے ملک میں نیشنل ایکشن پلان کی کامیابیوں کے قصیدے بیان ہو رہے ہیں اور بلوچستان میں اس حوالے سے کسی ایک کامیابی کا کوئی تذکرہ کہیں پڑھنے سننے کو نہیں ملتا،  باقی کے ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے ثمرات ملے ہوں تو ملے ہوں، بلوچستان میں اس کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوتا، وہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے، وہاں کی دنیا ہی الگ ہے اور وہاں کے لوگ ہی اور طرح کے ہیں۔ وہاں ہر دوسرا بااثر بلوچ ایران کی پراکسی ہے یا افغانستان کی پراکسی ہے، بلکہ سچ پوچھئے تو ان دو ہمسایہ ممالک کے علاوہ بھی وہاں بہت سے دیگر علاقائی اور عالمی ممالک کی پراکسیاں کثرت سے مل جاتی ہیں۔ بھارت کی پراکسیوں نے تو وہاں کھلے عام ڈیرے لگائے ہوئے ہیں جس کے سبب پورا بلوچستان ایک چھاؤنی کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ 

جب سے سوشل میڈیا کی یلغار ہوئی ہے، بلوچستان کی شورش میں ایک نیا رنگ در آیا ہے اور وہ رنگ وہاں کی باغی خواتین رہنماؤں کا ہے جو ماہ رنگ بلوچ کی صورت میں پورے بلوچستان پر چھا چکا ہے۔ گمشدہ بلوچ مردوں کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں سراپااحتجاج نظر آتی ہیں۔ ان کی تحریک کا محورملکی سیاست کم اور بلوچستان کی داخلی سیاست زیادہ ہے اس لئے ماہ رنگ بلوچ بے نظیر بھٹو بن سکیں گی نہ مریم نواز! بلوچوں کو اپنی دھرتی سے اٹھ کر سرزمین پاکستان کی سیاست کو فروغ دینا ہوگا وگرنہ ان کی ذاتی انا اور ہٹ دھرمیاں اسی طرح بلوچستان کی ترقی کی دیوار بنیں رہیں گی۔ انہیں سمجھ ہونی چاہئے کہ ان کی انا کی دیوار نے پاکستان کی ترقی کو بھی روکا ہوا ہے۔ انہیں اس دیوار کو پھلانگ کر پاکستان میں داخل ہوجانا چاہئے کیونکہ ایران، افغانستان یا ہندوستان انہیں استعمال تو کریں گے، اپنے ہاں داخل نہیں ہونے دیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -