حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی کے خلاف کیس لے کر گئے تو قاضی نے کیا فیصلہ سنایا؟

Mar 14, 2025 | 05:29 PM

حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی کے خلاف کیس لے کر گئے  تو قاضی نے کیا فیصلہ سنایا؟

ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کی ایک قیمتی زرہ (جنگی لباس) ایک یہودی کے پاس ہے۔ حضرت علیؓ نے اس سے کہا:
"یہ زرہ میری ہے، میں نے اسے نہ بیچا، نہ کسی کو ہدیہ دیا۔ یہ میرے پاس تھی، تمہارے پاس کیسے آئی؟"

یہودی نے جواب دیا:
"یہ میرے قبضے میں ہے، اور میرے پاس ہونے کا مطلب ہے کہ یہ میری ملکیت ہے!"

حضرت علیؓ نے خلیفۃ المسلمین ہونے کے باوجود اپنی طاقت کا استعمال نہیں کیا، بلکہ ایک عام شہری کی طرح قاضی (جج) کے پاس مقدمہ دائر کر دیا۔

قاضی شریحؒ، جو اسلامی عدالت کے جج تھے، انہوں نے دونوں فریقین کی بات سنی اور حضرت علیؓ سے کہا:
"آپ کے پاس کوئی گواہ ہے جو یہ ثابت کر سکے کہ زرہ آپ کی ہے؟"

حضرت علیؓ نے جواب دیا:
"ہاں، میرے پاس گواہ ہیں۔ میرا غلام قنبر اور میرا بیٹا حسن اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ زرہ میری ہے۔"

قاضی نے جواب دیا:
"بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قابل قبول نہیں، کیونکہ اسلامی قانون میں قریبی رشتہ دار کی گواہی اپنے حق میں نہیں مانی جاتی۔"

چونکہ حضرت علیؓ کے پاس مزید گواہ نہیں تھے، قاضی نے فیصلہ یہودی کے حق میں سنا دیا اور کہا:
"قانونی طور پر یہ زرہ اس یہودی کی ملکیت ہے، کیونکہ حضرت علیؓ اپنے حق میں گواہی ثابت نہیں کر سکے۔"

یہودی یہ سارا واقعہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ایک مسلمان خلیفہ، جو ریاست کا سربراہ ہے، انصاف کے سامنے بالکل عام شہری کی طرح پیش ہو رہا ہے۔ اس نے کہا:
"یہ وہ عدل و انصاف ہے جو نبیوں کی تعلیمات کا حصہ ہوتا ہے!"

پھر اس نے اعتراف کیا:
"حقیقت میں یہ زرہ علیؓ کی ہی ہے، میں نے اسے کسی جنگ میں میدان میں گرا ہوا پایا تھا اور اٹھا لیا تھا۔"

اس کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا اور زرہ واپس حضرت علیؓ کو دے دی۔ حضرت علیؓ نے زرہ اس کے اسلام قبول کرنے پر بطور تحفہ دے دی۔

 السنن الکبریٰ للبیہقی: حدیث نمبر 21115

مزیدخبریں