پاک ایران تعلقات :ایرانی سپریم لیڈر کا صائب مشورہ

پاک ایران تعلقات :ایرانی سپریم لیڈر کا صائب مشورہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر اعظم نوازشریف نے کہا ہے پاکستان اور ایران امن کے لئے مل کر کام کریں گے۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں دونوں مسلم ممالک کی روایات ایک جیسی ہیں، جس کی وجہ سے یہ رشتہ انتہائی خاص ہے، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے امریکہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات خراب کرنے اور ان میں اختلافات پیدا کرنے کی سازش کر رہا ہے، سرحدوں پر کشیدگی بھی جان بوجھ کر دشمنوں کی جانب سے پیدا کی گئی ہے اُنہوں نے کہا پاکستانی عوام ایرانیوں کی طرح عزیز ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مزید بہتری کے لئے دعا گو ہوں نواز شریف کے دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے اُنہوں نے ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم نوازشریف کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا۔
ایران اور پاکستان ہمسایہ ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی اخوت، بھائی چارے اور ثقافتی ہم آہنگی کے بندھنوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں ایک زمانے میں دونوں ملک آر سی ڈی کے علاقائی اتحاد میں شامل تھے، اب اس اتحاد کا نام تبدیل ہو کر ”ایکو“ ہو گیا ہے اور اس کا دائرہ رکنیت بھی وسیع ہو گیا ہے، ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے عوام اور حکومتوں میں قریبی تعلقات رہے ہیں، اور اب بھی ہیں لیکن پچھلے دنوں پاک ایران سرحد سے چند ایرانی اہل کاروں کے اغوا کے بعد ایرانی قیادت کی طرف سے کچھ ایسے خیالات کا اظہار ہوا جو دونوں ملکوں کے تعلقات کے پس منظر سے لگا نہیں کھاتے تھے اور اس طرزِ عمل کو دوستانہ قرار نہیں دیا جا سکتا تھا، ایرانی قیادت غالباً یہ سمجھنے میں ناکام رہی کہ جن لوگوں نے ایرانی اہل کاروں کو اغوا کیا وہ ”نان سٹیٹ ایکٹرز“ ہیں اور پاکستان کے اندر بھی ناپسندیدہ کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت ان کی حرکتوں پر نظر تو رکھتی ہے لیکن ان کا نیٹ ورک ایسا پھیلا ہوا ہے کہ وہ قانون کی آنکھ سے بچ بچا کر کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے بھائی بند پاکستان کے قابل احترام فوجیوں کی جانیں بھی لے لیتے ہیں اور بے گناہ پاکستانیوں کو بھی خون میں نہلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس لئے ان لوگوں نے اگر سرحد پر ایرانیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کر ڈالیں تو یہ یقیناً افسوسناک تھیں، لیکن ان کا ملبہ کسی بھی طرح پاکستان کی حکومت یا اس کے اداروں پر نہیں ڈالا جا سکتا، لیکن ہمارے ایرانی بھائیوں نے اس نکتے کو سمجھنے میں غلطی کی، تاہم اب یہ بات قابل اطمینان ہے کہ اب نہ صرف غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں بلکہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ان کی طرف اشارہ بھی کر دیا ہے کہ یہ وہ سازشی عناصر ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
ملکوں اور قوموں کے تعلقات کبھی یکساں اور ہموار نہیں رہتے وقت کا دھارا اُنہیں مختلف سمتوں میں لئے لئے پھرتا ہے، ایک زمانہ تھا جب ایران اور امریکہ کے تعلقات اتنے قریبی تھے کہ امریکی شاہ کے ایران میں دندناتے پھرتے تھے۔ انہیں خصوصی سہولتیں حاصل تھیں، قانون ان کے لئے موم کی ناک تھا، امریکی شہریوں کو ایران میں ایرانیوں سے زیادہ عزت و تکریم حاصل تھی، امریکی سرمایہ کار کمپنیوں کو بھی خصوصی مراعات حاصل تھیں، یہ کمپنیاں ایرانی تیل کی دولت کا بڑا حصہ خود رکھ لیتی تھیں اور اس کا بہت معمولی حصہ ایران کو ملتا تھا، اس صورتِ حال کا ایک قوم پرست ایرانی وزیر اعظم ڈاکٹر محمد مصدق نے صحیح ادراک کیا تو امریکیوں نے دوسری مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر اُن کی حکومت کا شاہ کے ہاتھوں خاتمہ کرا دیا اور اُنہیں زنداں کے حوالے کر دیا گیا، ڈاکٹر مصدق کے بعد کسی کو مغربی تیل کمپنیوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ ہوئی تاآنکہ امام خمینی نے شاہ کا تختہ ہی اُلٹ دیا اور وہ تخت و تاج سے محروم ہو کر جلا وطنی کی حالت میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اس کے بعد امریکہ نے انقلابِ ایران کے ابتدائی برسوں میں انقلاب کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی لیکن بیدار مغز ایرانی قیادت نے سابق تجربات کی روشنی میں امریکہ کی ایک نہ چلنے دی اور اُسے اپنے معاملات سے دور رکھا اب تک حالت یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات بھی دوبارہ قائم نہیں ہو سکے۔ موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے عہد میں کوششیں ہو رہی ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آ جائیں اور دنیا ایرانی ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنا دل اور ذہن صاف کر لے تاہم ابھی شروعات ہیں اور تعلقات معمول پر آتے ہوئے وقت لگے گا۔
ان حالات میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بروقت خبردار کیا ہے کہ امریکہ پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دراصل خطے میں امریکہ کے اپنے مفادات ہیں۔ وہ افغانستان میں نیٹو کے ساتھ موجود ہے اور افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ بڑھانے کے لئے کوشاں ہے۔ افغانستان میں اگر بھارتی اثر و رسوخ بڑھتا ہے تو یہ کسی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں، لیکن بھارتی امریکہ کی شہہ پر یہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں یہ درست ہے کہ امریکہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات ایک حد سے زیادہ بڑھیں، اس لئے وہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے اور پاکستان کو ”مخلصانہ“ مشورہ دے رہا ہے کہ اسے اگر گیس چاہئے تو ترکمانستان سے درآمد کر لے حالانکہ یہ طویل المیعاداور کثیر الاخراجات منصوبہ ہے اور ایران سے گیس پائپ لائن نسبتاً کم خرچ سے تیار ہو سکتی ہے اور کم وقت میں گیس پاکستان پہنچ سکتی ہے اسی طرح امریکہ ایران کے ساتھ تجارت بڑھانے کے بھی حق میں نہیں۔ لیکن کیا معلوم کل کو امریکہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لے آئے اور دونوں ملک ماضی کی طرح قریب آ جائیں۔
دنیا میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ دشمن دوست بن گئے۔ اور لڑنے بھڑنے کی تاریخ رکھنے والے ملکوں نے تلواریں نیام میں ڈالنے میں دیر نہ لگائی، اس لئے ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بیرونی تعلقات میں اپنے مفادات کو پیش نظر رکھے، تاہم ایرانی بزرگ رہنما کا یہ مشورہ ہمیں پلے باندھ لینا چاہئے اور جو حلقے دونوں ملکوں کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں ان پر نظر رکھنی چاہئے۔ پاکستان اور ایران کی بالغ نظر قیادتیں اپنے مفادات کو خوب سمجھتی ہیں، انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمسایوں نے ہمیشہ ہمسائے ہی رہنا ہے۔ اس لئے کوئی تیسرا ملک چاہے وہ سپر پاور ہی کیوں نہ ہو اگر ان کے تعلقات کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا یہ اقدام کسی طرح بھی لائق تحسین نہیں، امریکہ ایک سپر طاقت ہے اور اس حیثیت سے اس کا کردار بھی دُنیا بھر میں مثالی ہونا چاہئے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ امریکہ چھوٹے ملکوں کے مفادات کو نظر انداز کر کے ہمیشہ اپنے مفادات ہی کو سامنے رکھتا ہے پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات نہ کسی تیسرے ملک کے خلاف ہیں اور نہ ہونے چاہئیں۔ ایران خطے میں اپنا اگر کوئی کردار ادا کرتا ہے تو اس پر امریکہ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے لیکن وہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے مفادات کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے اور اسی کی نظر سے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو دیکھتا ہے، اسرائیل کی نظر میں طاقتور ایران ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے اور وہ امریکہ کو ایران پر حملے کے لئے بھی اکساتا رہتا ہے لیکن عالمی طاقت ہونے کے باوجود افغانستان میں امریکہ نے طاقت سے کچھ حاصل نہیں کیا اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ دنیا میں اپنے دوستوں میں اضافہ کرے اور دشمنوں کی تعداد کم کرے، خطے کے ملک اپنے مفادات کے پیش نظر ایسی پالیسیاں بنائیں جو سراسر ان کے مفاد میں ہوں اور کسی دوسرے ملک کے خلاف بھی نہ ہوں۔

مزید :

اداریہ -