سودی نظام اور زلزلے

سودی نظام اور زلزلے
سودی نظام اور زلزلے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے ایک ممتاز سکالرکالم نگار ہیں ۔ جنکی تحریریں اسلامی شرعی مسائل کی تفہیم کے لئے دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔وہ اکثر سود کی حرمت کے حوالے سے لکھتے رہتے ہیں ۔انہوں نے سودی نظام پر بعنوان ’’ہم پر عذاب کیوں مسلط ہیں؟‘‘ اظہار خیال کیا ۔ آپ بڑے فخر سے لکھتے ہیں کہ پاکستان مسلم اُمہ کے 57میں سے وہ واحد ملک ہے، جس کی سپریم کورٹ میں 23دسمبر 1999ء کو تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے سود کو حرام قرار دے دیا اور شریعت کورٹ کے 14نومبر 1991ء کے اس فیصلے کو بحال کیا، جس کے مطابق بینکوں کا ہر قسم کا سود حرام ہے ۔اور حکومت وقت کو مہلت دی کہ 30جون 2001ء تک ملک سے سودی نظام کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے ۔’’اس فیصلے کے خلاف اپیل یا نظر ثانی کی درخواست 13سال سے لٹکی چلی آرہی ہے ‘‘


اُن دنوں وفاقی شرعی عدالت سے سبکدوش ہونے والے ایک فاضل جج جسٹس عبدالوحید صدیقی نے سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا ۔کہ عدلیہ کی طرف سے موجودہ حکومت کے خلاف تین خطرناک سازشیں کی گئیں،جس کے باعث اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان سے پی ۔سی۔او کے تحت حلف لینا ضروری ہو گیا ان کے بقول پہلی سازش سود کے بارے میں فیصلہ تھا ۔ایک مقدمہ یا اپیل 6سال سے التواء میں پڑی چلی آرہی تھی۔موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے بمشکل دو ماہ ہو ئے تھے۔کہ فیصلہ صادر کر دیا گیا اور اس کا کوئی متبادل نہیں بتایا گیا ۔حتیٰ کہ بینکنگ کے منافع کو بھی سود قرار دے کر بینکنگ کے نظام کو درہم برہم کر کے ملک میں افراتفری پھیلانا مقصود تھا ‘‘۔۔۔(دیگر دو سازشوں کا تعلق یتیم پوتے کو وراثت سے محروم رکھنے اور عائلی قوانین میں مداخلت کے حوالے سے ہے )


جہاں تک سود کے حرام ہونے کا تعلق ہے ۔کوئی مسلما ن اس سے انکار کر ہی نہیں سکتا ۔اللہ پاک اور رسول اکرمؐ سے جنگ کا تصور توبہ ! توبہ! توبہ ! استغفار، لیکن مشکل یہ نظر آتی ہے کہ کیا موجودہ معروضی حالات میں تنہا پاکستان کے لئے ایسا کرنا ممکن ہے کہ وہ سود کو حرام قرار دے سکے ۔ پاکستان کوئی الگ تھلگ جزیرہ نہیں ہے جس کا باقی دنیا سے کوئی لین دین نہ ہو ۔فرض کریں ہم سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ہرقسم کے سود کو حرام قرار دے دیتے ہیں۔پاکستان نے ورلڈ بینک آئی ۔ایم ۔ایف ،ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر اداروں سے کھربوں ڈالر قرضے لے رکھے ہیں کیا وہ ملک اور ادار ے ہمارے قانون کے پابند ہو کر کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر کا سود معاف کر دیں گے اور آئندہ ہمیں بلا سود قرضے فراہم کیا کریں گے دیگر 56اسلامی ملک بھی اللہ تعالیٰ کے احکام اور وارننگ سے بے خبر نہیں ۔سب کی راہ میں عملی دشواریاں ہیں جن کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا۔۔۔پھر بینک میں جو رقم جمع ہوتی ہے ۔افراط زر کے باعث سال کے بعد اس میں خاصی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اگر بینک حصہ داروں اور اکاؤنٹ ہولڈرز کو منافع نہیں دیتا تو یہ زبردست گھاٹے کا سودا ہے اسی طرح بینک جن لوگوں کو قرضے جاری کرتا ہے اگر وہ اس پر منافع وصول نہ کرے تو اسکا سارا نظام فیل ہو جائے گا مُلک کی معیشت ڈوب جائے گی۔ کوئی اکیلا ملک ایسی مہم جوئی کر ہی نہیں سکتا۔ یہ قومی خود کشی کے مترادف ہے۔


اللہ تعالیٰ کے فرمان کا پس منظر ظلم کا وہ درد ناک منظر ہے کہ غریب ،مجبور ،لاچار لوگ سودی کاروبار کرنے والے ظالموں کے قرضوں اور بھاری سود کے نیچے دبے ہوئے ہیں،جن کے لئے اصل زر لوٹانا بھی مشکل ہو رہا ہے،مگر تقاضا بھاری سود سمیت کا ہو رہا ہے ۔رحمت خداوندی ان مظلوموں کو ریلیف دے رہی ہے اور اہلِ ایمان کو حکم یا ہدایت فرما رہی ہے ۔کہ انکا باقی ماندہ سود چھوڑ دو،بلکہ اس حکم میں مزید زور دے کر وارننگ دے رہی ہے کہ ۔’’ورنہ یہ اللہ تعالیٰ اور رسول پاک ؐ سے جنگ ہے‘‘۔آج بھی ہمارے ملک میں بالخصوص دیہات میں سودی کاروبار والے ظالموں کے ہاتھوں لوگ بڑے پریشان ہیں ۔مقروض بے چارے کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ سود اتنا بھاری اور شرائط اتنی کڑی رکھتے ہیں کہ وہ ان کے چنگل سے آزاد ہو ہی نہیں سکتا ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مقروض مسکین کو بھاری سود ادا کرنے کے لئے اپنا گردہ فروخت کرنا پڑا تھا۔ظاہر ہے کسی اور برائی کے خلاف اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ؐ کو جنگ کا اعلان نہیں کرنا پڑا ۔


۔۔۔لیکن بینکوں کے منافع یا اسلامی مشاورتی کونسل کی طرف سے سیونگ سرٹیفکیٹ پرائز بانڈز اور پوسٹل لائف انشورنس کو بھی سود قرار دے کر ممنوع قرار دینا سمجھ سے بالا تر ہے ۔اس میں کس مظلوم کو ریلیف دینا مقصود ہے غریب پنشنروں نے ان سکیموں میں چھوٹی موٹی رقمیں لگا رکھی ہیں اور گزارا کر رہے ہیں کسی کو اس نظام کے خلاف کوئی شکایت نہیں ہے۔اسے سود قرار دے کر خواہ مخواہ غریبوں میں احساس گناہ پیدا کیا جا رہا ہے۔بھلا ایسے معصوم منافع کے لئے اللہ تعالیٰ جنگ کی زحمت کیوں فرمائیں گے۔ پھر کوئی معقول متبادل نظام نہیں۔ البتہ اسلامی نظام معیشت کے حوالے سے فراڈ اور دھوکے ضرور ہیں۔انصار عباسی کی اسلام آباد سے 19جولائی 2013ء کی ایک رپورٹ کے مطابق نام نہاد مضاربہ سکینڈل میں مفتیوں کے ایک گروپ نے سود سے پاک مضاربہ مشارکہ کے نام پر 8فیصد ماہانہ منافع کا لالچ دیا اور سادہ لوح مسلمانوں سے اربوں روپے جمع کر لئے ہیں۔ شبہ ہے کہ رقم بیرون ملک پہنچا دی گئی ہے ۔ دین کے نام پر اتنا بڑا فراڈ ۔


20اپریل 2015ء کو راولپنڈی سے ایک خیر کے مطابق مضاربہ کے نام پر بھاری منافع کا جھانسہ دیکر نمازیوں سے مجموعی طور پر پر ایک ارب 10کروڑ روپے لوٹنے والا محکمہ ڈاک کا کلرک ارشاد بیرون ملک فرار ہو گیاہے ۔ سود کے حوالے سے ایک الزام یہ ہے کہ بڑے بڑے فیوڈل لارڈذ اور دیگر شعبوں کے مقتدر افراد نے بینکوں سے کروڑوں اربوں کے بھاری قرضے لے رکھے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ سود حرام ہونے کا فیصلہ ہو۔ تا کہ انکو قرضوں پر کروڑوں کا سود نہ دینا پڑے ۔بے شک اس ایکسر سائز میں بینک ڈوب جائیں۔اور ملکی معیشت تباہ ہو جائے۔انہوں نے گٹھ جوڑ کر کے مولویوں کو شہ دے رکھی ہے کہ وہ سود کے خلاف خوب واویلا کرتے رہیں بالخصوص بینکوں کے منافع کو بطور سود اس میں شامل رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنگ کے حوالے سے خوف پیدا کریں ۔
کالم نگار فرماتے ہیں کہ 13سال سے اپیل یا نظر ثانی کی درخواست لٹکی چلی آرہی ہے ۔محترم ! یقین کریں۔ اگلے 13 سال میں بھی اس پر فیصلہ کرنے کی کوئی جرأت نہیں کر سکے گا ۔اگر کوئی فیصلہ ہو اتو فوراً پھر اپیل یا نظر ثانی کی درخواست آجائے گی اور معاملہ یونہی لٹکا رہے گا ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ اگر عقل پر مبنی منافع کے جواز میں فیصلہ آئے۔تو زور آور مذہبی طبقہ کی ایجی ٹیشن سے خوف آتا ہے اور اگر بینکوں کے منافع سمیت سود کو حرام قرار دے دیا جاتا ہے تو یہ فیصلہ معروضی حالات میں نا قابل عمل ہے اور ایک دن نہیں چل سکتا ۔محترم کالم نگار کو یقین ہے کہ سودی نظام کے باعث ہم پر عذاب مسلط ہیں ۔مزید ڈراتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کے لئے کیا دیر ہے کہ زمین کو ہلکی سی جنبش دے یا سمندروں سے پانی اچھال دے‘‘۔


ایک حکایت یاد آتی ہے ۔دو بھائی تھے بڑا بھائی دیوی کی مورتی کا پجاری تھا۔ چھوٹا بت پرستی کے خلاف اور مورتی کی توہین کرتا تھا۔ دیوی نے خواب میں بڑے بھائی کو وارننگ دی کہ بھائی کو سمجھائے ۔ ورنہ تم کو سخت سزا دوں گی ۔ بڑے بھائی نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ سزا براہ راست میرے بھائی کو کیوں نہیں دیتیں ۔ دیوی نے کہا پگلے! ہم اپنے ماننے والوں کو ہی جزا سزا دے سکتے ہیں۔گویا دیوی کا احاطہ اختیار تو اپنے ماننے والوں تک محدود تھا۔ وسیع کائنات کے مالک علیٰ کلِ شی قدیر رب کی راہ میں تو ایسی رکاوٹ نہیں ۔ اگر دیگر 56اسلامی ملکوں سمیت باقی ساری دنیا سود کے نظام پر معیشت چلا رہی ہے ۔ تو اکیلے پاکستان کو سزا دینے کا کیا جواز ہے ؟ 1999ء میں ترکی میں تباہ کن زلزلہ آیا 20ہزار لوگ مارے گئے املا ک کا زبردست نقصان ہوا کچھ دن بعد اچانک نصف درجن اخبار نویس گرفتار کر لئے گئے ۔ فوجداری عدالت میں مقدمہ چلا 20-20ماہ قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزائیں ہوئیں الزام یہ تھا کہ ان اہل ِ قلم نے اپنے تجزیوں میں لکھا ہے کہ زلزلہ حکمرانوں کے گناہوں کی پاداش میں آیا ہے۔ فاضل جج نے دیگر دلائل کے علاوہ لکھا بھلا سمندروں میں جو زلزلے آتے رہتے ہیں۔کیا وہ مچھلیوں اور مگر مچھوں کے گناہوں کی پاداش میں آتے ہیں ۔پڑھے لکھے لوگوں کو توہم پرستی پھیلانے اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی بجائے روشن خیالی کا ثبوت دینا چاہئے۔

مزید :

کالم -