افغانستان کے بارے میں پاکستان کے کردار پر تبصرہ متعصبانہ ہے ، جلیل عباس جیلانی
واشنگٹن (اظہر زمان، بیوروچیف) ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی امداد دینے اور اس کے ساتھ بار بار تعمیری انداز میں تعلقات کو درست کرنے کی کوششوں کے باوجود وہ بدستور امریکہ اور افغانستان کا ایک دوغلا اور خطرناک ساتھی ہے۔ 12 مئی کی اشاعت میں اس نے ’’پاکستان کا عرق نکالنے کا وقت آگیا‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے ادارے میں اس نے افغانستان میں نائن الیون کے 15 سال بعد بھی جنگ ختم نہ ہونے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جب تک وہ حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی نہیں کرتا، اسے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کیلئے فوجی امداد نہ دی جائے۔امریکہ میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے اس الزام تراشی کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اخبار کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں انہوں نے افغانستان کے بارے میں پاکستان کے کردار پر تبصرے کو متعصبانہ اور اس طویل تنازع کی پیچیدہ تاریخ کی نفی قرار دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں حالات گڈمڈ کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ یہ بین الاقوامی برداری کی اجتماعی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی سفیر نے لکھا ہے کہ پاکستان پر دوغلے پن اور ڈبل گیم کے الزامات انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ خصوصی طور پر جب افغان جنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ مشکلات اس نے برداشت کی ہیں۔پاکستان پر سخت نکتہ چینی پر مبنی ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے اس ادارے کے جواب پاکستانی سفیر نے اپنے موقف کی وضاحت میں مزید لکھا ہے کہ ’’ہمارے پڑوس میں غیر ملکی مداخلت برقرار رہنے کی سب سے بھاری قیمت پاکستان نے ادا کی ہے۔ پاکستان نے امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ انٹیلی جنس شیئر کرنے اور اپنی سرزمین پر کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں کی نشاندہی کرنے میں ہمیشہ تعاون کیا ہے۔ پاکستان افواج 2009ء سے اپنی سرزمین کو مقامی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس سے پاک کرنے میں مصروف ہے جو بڑی طاقتوں کی بامی رقابت اور متصادم مفادات کے نتیجے میں وہاں جمع ہوگئے تھے۔ یہ پاکستان کی فوج ہی تھی جس نے انسداد دہشت گردی کے بلاامتیاز آپریشنز کے ذریعے طالبان کی کمر توڑ دید ہے۔ تمام الزام پاکستان کو دینے کی بجائے بہتر ہوتا کہ اس ادارے میں افغان مہاجروں کے بڑھے ہوئے مسئلے اور سرحدی انتظام میں کمی کو بھی علاقائی عدم استحکام کی بنیادی وجوہات میں شمار کیا جاتا۔ افغان مسئلے کے دیر پا حل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے ایسے بنیادی سوالوں کو نظر انداز کرنے سے ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کی جانبداری ظاہر ہوتی ہے۔