سعد عزیز نے سبین محمود کو مولانا عبدالعزیز کیخلاف بولنے پر قتل کیا: جے آئی ٹی

سعد عزیز نے سبین محمود کو مولانا عبدالعزیز کیخلاف بولنے پر قتل کیا: جے آئی ٹی
سعد عزیز نے سبین محمود کو مولانا عبدالعزیز کیخلاف بولنے پر قتل کیا: جے آئی ٹی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (ویب ڈیسک) سانحہ صفورہ اور مشہور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل سمیت دیگر کیسز میں ملوث ہونے کے باعث فوجی عدالت کی جانب سے سزائے موت پانے والے سعد عزیز نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے اراکین کو بتایا کہ وہ یمن کی فرقہ وارانہ جنگ سے متاثر تھا۔ صفورہ گوٹھ میں اسماعیلی برادری کی بس میں قتل عام سے قبل اس نے ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں حوثی باغیوں کو یمن میں خواتین اور بچوں کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ سعد عزیز نے ڈرائیور کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تاہم اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے خواتین اور بچوں کو قتل نہیں کیا۔

بین الاقوامی کوپن ویب سائٹ ’پکوڈی‘پاکستان میں لانچ کردی گئی
اخبار روزنامہ نوائے وقت کے مطابق سعد نے اعتراف کیا کہ اس نے اور دیگر ملزموں نے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں سبین محمود کو قتل کیا کیونکہ وہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف سخت زبان استعمال کرتی تھیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سعد نے 2005ءتک گلشن اقابل میں واقع سکول سے او لیول کی تعلیم حاصل کی، لیکن اسی سکول کی مختلف برانچوں پر 2 مرتبہ حملہ کیا۔ سعد عرف ٹن ٹن عرف جون عسکریت پسندی کی جانب آس وقت راغب ہوا، جب اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں شمولیت اختیار کی۔ جہاں اسکی ملاقات ڈیمانڈ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کے ملازم علی رحمٰن سے ہوئی۔ جس نے سعد عزیز کی برین واشنگ کی اور اسے عسکریت پسندی کی طرف راغب کیا۔ رپورٹ کے مطابق سعد نے دیگر 10 لڑکوں کے ساتھ 25 دنوں کی افغانستان میں تربیت حاصل کی۔ ساڑھے 4 ماہ بعد سعد واپس کراچی آیا اور اپنا ریسٹورنٹ کا کاروبار سنبھال لیا، سعد کی شادی 2012ءمیں ہوئی اور اس نے انگریزی زبان میں جہاد پر مضامین لکھنے شروع کر دیئے۔ 2013ءمیں عمر عرف حیدر عباس نے سعد کی ملاقات طاہر منہاس سے کروائی، اگلے برس سعد، طاہر اور عمر کی ملاقات حیدرآباد میں ہوئی، جہاں انہوں نے عامرکے ساتھ مل کر ایک پولیس موبائل پر حملہ کیا اور 3 پولیس اہلکاروں کو قتل کردیا۔ رپورٹ کے مطابق سانحہ صفورا گوٹھ کے دوسرے مجرم 30 سالہ اسد الرحمان کی پیدائش نارتھ ناظم آباد میں ایک بینکر کے گھر ہوئی۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے بی کام کیا۔ 2009ءمیں اسکی سعد عزیز عرف ٹن ٹن سے پہلی بار ملاقات ہوئی جس کے بعد وہ اس سے رابطے میں رہے۔ اکتوبر 2014ءمیں وہ دیگر چھ لڑکوں کے ساتھ بذریعہ کوئٹہ پاکستان افغانستان سرحد پر قائم کیمپ گئے جہاں انہیں کلاشنکوف، آر پی جی، راکٹ لانچر، دستی بم اور پستول چلانے کی تربیت دی گئی۔ ان کا انسٹرکٹر سعد عزیز تھا۔ یہ تربیت 15 روز جاری رہی۔ صفورا حملے میں ان کی ذمہ داری قریبی پولیس چوکی پر نظر رکھنا تھی۔ اس کے علاوہ سبین محمود کی ریکی میں بھی وہ شامل تھے۔
سانحہ کے تیسرے اہم ملزم طاہر منہاس عرف سائیں کے والدین کا تعلق سرائے عالمگیر گجرات سے تھا۔ طاہر کی پیدائش خدا کی بستی کوٹڑی میں ہوئی اس نے کالج تک تعلیم حاصل کی اور بعد میں مرغی کی خوراک کا کام شروع کر دیا۔ کوٹڑی میں عبدالرحمان عرف سندھی سے ملاقات ہوئی، جن کے کہنے پر انہوں نے کشمیر میں تربیت حاصل کی۔ 2010ءمیں وہ کراچی آگی۔ یہاں وہ بینک ڈکیتیوں کے علاوہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث رہا، جن میں بوہری برادری اور پولیس پر حملے بھی شامل تھے۔ طاہر عرف سائیں نے بھی اسماعیلیوں پر بس میں گھس کر گولیاں برسائیں۔

خبردار!رنگ گورا کرنے والی کوئی بھی کریم استعمال کرنے سے پہلے یہ خبر ضرور پڑھ لیں
رپورٹ کے مطابق کیس کے چوتھے اہم مجرم محمد اظہر عشرت کی 1981ءمیں پیدائش ہوئی۔ ڈی ایچ اے کالج سے انٹر کرنے کے بعد 2003ءمیں الیکٹرانکس میں سرسید یونیورسٹی سے انجنیئرنگ کی۔ اس کے بعد موبائل اور انجنیئرنگ کمپنی سے منسلک رہا۔ ملزم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ صفورا واقعے والے دن حافظ عمر اور طاہر منہاس اور نوید اس کے گھر آکر ٹھہرے اور دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ صفورا واقعہ طاہر منہاس گروپ نے کیا۔ جی آئی ٹی کے تجزئیے مطابق عشرت دہشت گردی کے واقعے میں براہ راست ملوث مجرموں کے سہولت کار تھا، اسکا گھر اسلحے اور گولیوں کی ترسیل کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق کیس کے پانچویں مجرم حافظ ناصر کی پیدائش 1979ءمیں کراچی میں ہوئی اس نے اسلامک سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور بعد میں مصنوعی زیورات کے کاروبار سے منسلک ہو گیا۔ 2001ءمیں انہوں نے تنظیم اسلامی میں شملویت اختیار کر لی اور تنظیمی اختلافات کی وجہ سے 8 سال بعد علیحدگی اختیار کر لی۔ جے آئی ٹی کے مطابق اسکی ملاقات تنظیم کے آفس میں شیبا احمد سے ہوئی جو افغان طالبان کی مالی معاونت کرتا تھا۔ بعد میں 2011ءمیں شیبا نے اسے 25 روز کے لئے افغانستان بھجوایا۔2013ءمیں ان کے اپنے بھائی حافظ عمر سے اختلافات پیدا ہوگئے جس کے بعد عمر نے گھر چھوڑ دیا۔ یاد رہے کہ فوجی عدالت نے پانچوں کو سزائے موت سنائی جس کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے توثیق کر دی۔

مزید :

کراچی -