مولانا ظفر علی خان پر ایک ادھُوری تحقیق
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان تحریک آزادئ ہند اور تحریک قیام پاکستان کے ایک عظیم رہنما تھے۔ وہ اپنی ذات میں بیک وقت باکمال صحافی، صاحبِ طرز ادیب و شاعر، زبردست خطیب اور نڈر سیاست دان تھے۔ان کے اخبار روزنامہ ’’زمیندار‘‘ نے مسلمانوں میں سیاسی بیداری کی زبردست لہر پیدا کی۔ انہوں نے قومی زندگی کی جن جہتوں میں خدمات انجام دیں ان پر یونیورسٹیوں میں ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیقی کام ہو رہا ہے۔کئی مقالات کتابی صورت میں بھی طبع ہو کر اہلِ علم تک پہنچے ہیں، ان میں سے ایک تازہ کاوش پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ سلیمان کی ہے جو حال ہی میں پاکستان سٹڈی سنٹر پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔اس کا عنوان: ’’مولانا ظفر علی خان ۔۔۔سیاسی قیادت کا مطالعہ‘‘ ہے۔یہ316 صفحات پر مشتمل ہے اور طباعت و اشاعت کے اعلیٰ معیار پر منظر عام پر آئی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ مصنفہ محترمہ نے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی سعی فرمائی ہے کہ یہ کتاب اصل میں ان کا پی ایچ ڈی ریسرچ ورک ہے جو انہوں نے2013ء میں پاکستان سٹڈی سنٹر پنجاب یونیورسٹی میں جمع کرایا تھا اور اس میں لکھا تھا:’’مطالعہ پاکستان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لئے یہ مقالہ پاکستان سٹڈی سنٹر،پنجاب یونیورسٹی میں پیش کیا گیا‘‘۔مجھے اب تک تاریخ، سیاسیات، پنجابی اور اُردو ادب کے درجنوں ایسے ریسرچ ورک پڑھنے اور ان پر اظہارِ خیال کرنے کا موقع ملا ہے۔مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض سکالرز اپنا مقالہ کتاب کے روپ میں پیش کرتے ہوئے بڑی خوشی کے ساتھ بتاتے ہیں کہ یہ کام اصل میں ان کا ڈاکٹریٹ ورک ہے،جسے وہ نظرثانی کے بعد شائع کر رہے ہیں،لیکن کچھ لوگ یہ بات کتاب کے قاری کے علم میں لانے سے گریز کرتے ہیں۔میرے لئے ابھی تک یہ معما ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔اگر کوئی سکالر اس کی کوئی معقول وجہ بتا سکے تو مَیں ان کا شکرگزار ہوں گا۔زیر نظر کتاب کے ’’اظہارِ تشکر‘‘ کے دو صفحات میں جہاں جہاں لفظ ’’کتاب‘‘ برتا گیا ہے، اصل مقالہ میں وہاں وہاں ’’مقالہ‘‘ ہے۔
کتاب کے عنوان سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں مولانا ظفر علی خان کو بطور ایک سیاسی لیڈر کے موضوعِ بحث بنایا گیاہے۔مولانا کی شخصیت کا یہ پہلو بلاشبہ نہایت اہم ہے اور قاری توقع کرتا ہے کہ پہلا باب لیڈر شپ کے حوالے سے لکھا گیا ہو گا۔ ان خصائص پر روشنی ڈالی گئی ہو گی،جو کسی آدمی کی بطور سیاسی رہنما کے پہچان قائم کرتے ہیں،لیکن مصنفہ نے اس اعتبار سے چند سطور بھی لکھنی گوارا نہیں کیں۔خیال آیا شاید انہوں نے مقالے میں ایسا کوئی باب لکھا ہو جسے وہ کتاب میں طوالت کے خوف سے شامل نہ کر سکی ہوں،مگر مقالہ دیکھا تو وہاں شروع سے آخر تک اس حوالے سے کہیں ایک سطر نہیں ملتی۔جب مصنفہ نے مولانا ظفر علی خان ایسے عظیم انسان کو بطورِ پولیٹکل لیڈر موضوع تحقیق بنایا تو لازم تھا کہ وہ پولیٹیکل لیڈر کا کانسیپٹ تو پیش فرماتیں،اختتامی صفحات میں ضرور بتاتیں کہ مولانا کو وہ بطور سیاسی رہنما کے، کس مقام و مرتبہ کا حامل سمجھتی ہیں۔ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتیں،اگر انہیں اپنے نتائج فکر قاری کے سامنے نہیں ر کھنے تھے تو پھر یہ مقالہ لکھنے کی زحمت ہی کیوں فرمائی۔۔۔مصنفہ نے کتاب کا مواد پانچ ابوب میں تقسیم کیا ہے:
(1) مولانا ظفر علی خان کے ذاتی حالات اور سیاسی سرگرمیوں میں ان کی شمولیت کا آغاز۔
(2) مولانا اور ہندو مسلم تعلقات (1919ء سے 1932ء تک)
(3) مولانا کی سیاسی جدوجہد (1922ء سے 1929ء تک)
(4) مجلس احرار اور مولانا ظفر علی خان
(5) منزل کی طرف پیش رفت(1937ء سے قیام پاکستان اور بعد از آزادی تک)۔
ڈاکٹر زاہدہ سلیمان نے برصغیر کے مسلمانوں کی تمام تحریکوں میں مولانا ظفر علی خان کی شمولیت اور ان کے رہنمایانہ کردار کی تفصیلات بڑے سلیقے کے ساتھ پیش کی ہیں۔مثلاً خلافت تحریک،رولٹ ایکٹ کے خلاف اہلِ ہند کی صدائے احتجاج اور مظاہرے، تحریک ترک موالات و عدم تعاون، تحریک ہجرت، موپلہ بغاوت، سائمن کمیشن کے خلاف احتجاجی جلوس،شدھی، سنگھٹن کی تحریکیں،ہندو مسلم فسادات، تحریک مسلم بازار، راجپال کا قتل اور غازی علم الدین کی شہادت، مسئلہ حجاز، انقلاب افغانستان، قضیہ مغل پورہ(انجینئرنگ یونیورسٹی)،تحریک حریت کشمیر اور تحریک مسجد شہید گنج، صوبائی انتخابات 1937ء اور مسلم لیگ کی حمایت اور اس کی تنظیم نو اور رد قادیانیت تحریک1953ء۔ بلاشبہ مصنفہ مذکورہ بالا تحریکوں میں مولانا کی متحرک شخصیت کو نمایاں انداز میں پیش کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔تاریخی واقعات کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ سامنے لاتی ہیں۔زبان صاف ستھری اور تحقیقی انداز ہی کی برتی ہے۔تحریکوں کے خدوخال ابھارتے ہوئے مولانا کی نظموں کا حوالہ بھی لے آتی ہیں،جس سے تحریکوں کے مزاج اور رُخ کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
مصنفہ نے البتہ ایک تحریک کے ضمن میں گہرائی میں اترنے سے پہلو تہی کی ہے، اور وہ مسجد شہید گنج کی تحریک ہے۔
مولانا ظفر علی خان کی سیاسی زندگی کا یہ ایک ہنگامہ خیز واقعہ ہے۔مولانا نے اپنی تشکیل کردہ جماعت مجلس اتحاد ملت کے پلیٹ فارم سے اس تحریک کے برگ و بار پیدا کیے تھے۔یہ محض کوئی سادہ سا واقعہ نہیں تھا کہ پچھلی صدی سے یہ مسجد سکھوں کے قبضہ میں تھی اور اب انگریزی دور میں انہوں نے اسے اچانک گرانا شروع کر دیا اور اس پر پنجاب کے مسلمانوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا،وہ احتجاج کے لیے باہر نکلے تو انگریز سرکار نے ان پر گولی چلا دی، بے شمار مسلمان نوجوانوں نے گولیوں کے سامنے سینے تان دیئے اور لاہور کی سرزمین ان کے خون سے لالہ زار ہو گئی،اس کے بعد مقدمہ بازی شروع ہو گئی۔ مصنفہ نے یہ ذکر نہیں کیا کہ مولانا نے اِس مسئلے کو حل کرانے کے وعدے پر الیکشن لڑا،لیکن کامیاب ہونے کے بعد اِس مسئلے کو طاقِ نسیان کی زینت بنا دیا۔حیرت ہوتی ہے کہ مصنفہ نے مولانا کی سیاسی جدوجہد کے اِس باب میں دِقت نظری سے کام نہیں لیا۔تحریک کے عقب میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔انہوں نے مولانا مظہر علی اظہر کی کتاب ’’تحریک مسجد شہید گنج، ایک خوفناک سازش‘‘ اور آغا شورش کاشمیری کی خود نوشت ’’بوئے گُل نال�ۂ دِل دودِ چراغ محفل‘‘ اور ایام اسیری کی سرگزشت ’’پس دیوارِ زنداں‘‘ کا کوئی حوالہ نہیں دیا، حالانکہ اس مسئلے پر کوئی محقق بھی قلم اٹھاتے ہوئے ان کتابوں کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ جانباز مرزا نے بھی مذکورہ بالا تحریک پر ایک اہم کتاب لکھی ہے اسی باب سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ محترمہ ڈاکٹر زاہد سلیمان نے محنت سے جی چرایا ہے اور انہوں نے خاص طور پر اس تحریک کو پورے پس منظر کے ساتھ پڑھنے اور اس سے ٹھیک ٹھیک نتائج اخذ کرنے میں تساہل برتا ہے۔
مصنفہ نے اشاریہ بھی تیار نہیں کیا، جو ایسے تحقیقی کاموں میں لازمی خیال کیا جاتا ہے۔ کتاب کے ٹائٹل پر مصنفہ کے اسم گرامی کے بالکل ساتھ ان کی نگران استاد پروفیسر ڈاکٹر مسرت عابد کا نام بھی بطور تدوین کار درج ہوا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ڈاکٹر مسرت صاحبہ نے آخر کیا تدوینی خدمت انجام دی ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی پر پی ایچ ڈی مقالہ کو شائع کرتے ہوئے بھی ٹائٹل پر اپنی تدوینی کاوش کا ذکر کیا تھا، حالانکہ دو اصحاب علم باری باری اس مسودے کی تدوین پہلے ہی کر چکے تھے۔ڈاکٹر صاحبہ نے صرف یہ کیا کہ مصنف کا دیباچہ نکال کر وہاں چار صفحات پر مشتمل اپنی ایک سطحی سی تحریر شامل کر دی تھی، حالانکہ ان کا یہ اقدام اصولی طور پر سرا سر غلط تھا۔معلوم نہیں انہیں شہرت کا اتنا شوق کیوں ہے۔اگر انہوں نے واقعی تدوین کی زحمت اٹھائی ہے تو وہ چند سامنے کی غلطیوں کو درست کیوں نہ کر سکیں۔ مثلاً دو تین جگہ سیٹھ یعقوب حسن کا نام سیٹھ یعقوب حسین اور عبدالمجید سندھی کا نام عبدالماجد سندھی لکھا گیا ہے۔’ظفر علی خان ٹرسٹ ‘ کی جگہ ’ظفر علی خان فاؤنڈیشن‘ درج کردیا ہے۔ صفحہ77 پر ایک جملہ کھٹکتا ہے:’’امیر معاویہ وہ پہلا حکمران تھا،جس نے یزید کو اپنا جانشین مقرر کر کے خلافت کو بادشاہت میں تبدیل کر دیا۔ اس کا اپنا قول تھا: ’’انا اول الملوک’’یعنی مَیں پہلا بادشاہ ہوں‘‘۔ یوں لگتا ہے مقالہ نگار نے محض سپروائزر کی خوشنودی کے لئے حضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں احترام کا صیغہ بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ فرقہ واریت کا رونا ہم کہاں کہاں روئیں! مولانا ظفر علی خاں ہی کا شعر ہے:
مَیں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے
محترمہ ڈاکٹر زاہدہ سلیمان کے اس تحقیقی کام کے بارے میں راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ یہ اوسط درجے کا کام ہے اور اس میں ’’سیاسی قیادت‘‘ کے زاویے سے ابھی بہت کچھ مزید تحقیق کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ جناب پروفیسر امجد ثاقب ڈائریکٹر پریس پنجاب یونیورسٹی اور ان کا عملہ لائق تحسین ہے کہ انہوں نے کتاب کی پیشکش جاذبِ نظر بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی!