یوکرین میں میزائل حملے کا نشانہ بن کر تباہ ہونیوالا ملائیشین طیارہ ایم ایچ 17 تو آپ کو یاد ہو گا، اب اس بدقسمت طیار ے کے پائلٹ کی اہلیہ عاصمہ بھی منظرعام پر آ گئیں، ایسی داستان سنادی کہ جان کر آپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جائیں گے

یوکرین میں میزائل حملے کا نشانہ بن کر تباہ ہونیوالا ملائیشین طیارہ ایم ایچ 17 ...
یوکرین میں میزائل حملے کا نشانہ بن کر تباہ ہونیوالا ملائیشین طیارہ ایم ایچ 17 تو آپ کو یاد ہو گا، اب اس بدقسمت طیار ے کے پائلٹ کی اہلیہ عاصمہ بھی منظرعام پر آ گئیں، ایسی داستان سنادی کہ جان کر آپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کوالالمپور (ڈیلی پاکستان آن لائن) یوکرین میں میزائل حملے کا نشانہ بن کر تباہ ہونے والے ملائیشین طیارے ایم ایچ 17 کے کو پائلٹ احمد کی بیوہ عاصمہ منظرعام پر آ گئی ہے اور ایسی داستان سنائی ہے کہ جان کر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی ہے۔

”اسے تایا کامران کو مت پکڑانا ورنہ۔۔۔“ عمر اکمل نے مداحوں کو بیٹے کی پیدائش کی خبر دی تو سوشل میڈیا صارفین نے اتوار کی چھٹی ”یادگار“بنانے کا فیصلہ کر لیا، ایسی ایسی ٹویٹس کر دیں کہ ہنسی کا سیلاب آ گیا
عاصمہ 16 جولائی 2014ءکی شام جلد سونے کی تیاری کر رہی تھی کیونکہ اس کے شوہر احمد نے صبح 6 بج کر 30 منٹ پر کوالالمپور میں لینڈ کرنا تھا۔ ٹھیک اسی وقت عاصمہ کا فون بجا، اس نے فون اٹھایا تو دوسری جانب احمد تھا جو کہہ رہا تھا کہ ”میں ساری رات سو نہیں سکا، عاصمہ، میں اپنے بیٹے کو بہت زیادہ یاد کر رہا ہوں(اس وقت 8 مہینے کی عمر تھی) “
اپنے شوہر کو تسلی دینے کی غرض سے عاصمہ نے کہا کہ ”پرسکون ہو جاﺅ، صرف چند گھنٹوں کی بات ہے اور پھر صبح لینڈ کرنے کے بعد تم سب سے پہلے اپنے بیٹے کو ہی دیکھو گے۔احمد مزید بات کرنا چاہتا تھا، اور فلائٹ پر جانے سے پہلے فیس ٹائم کے ذریعے اپنے بیٹے کو دیکھنا چاہتا تھا، لیکن وائی فائی سگنل کمزور ہونے کے باعث ایسا نہ ہو سکا، تو اس نے فون کیا اور عاصمہ کیساتھ کافی دیر تک گفتگو کی۔“
یہ عاصمہ اور اس کے شوہر احمد کے درمیان ہونے والی آخری گفتگو تھی اور جب 17 جولائی 2014ءکو جب ایم ایچ 17 کریش ہوا تو اس وقت احمد کی عمر صرف 29 سال تھی۔ ایم ایچ 17 ایمسٹرڈیم سے 283 مسافر اور 15 عملے کے افراد کو لے کر کوالالمپور روانہ ہوئی تھی اور جب مغربی یوکرین کے اوپر سے گزر رہی تھی تو اسے ایک میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔
عاصمہ اس وقت ’گو کرائسس مینجمنٹ‘ ٹریننگ ورکشاپ کیلئے دبئی میں ہیں، یہ کمپنی مختلف اداروں کو ایسے بحران سے نکلنے میں مدد کرتی ہے جس سے لوگ متاثر ہوئے ہوں۔ عاصمہ نے تکلیف دہ دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ”میں اگلی صبح دروازے کے شور سے اٹھی، کوئی بہت زور سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا، کوئی زور سے چلایا کہ ’ایم ایچ 17 فلائٹ کریش ہو گئی ہے۔ میں نے کہا، یہ تو احمد کی فلائٹ تھی۔
گھر میں چیخ و پکار شروع ہو گئی اور تمام گھر والوں نے رونا شروع کر دیا۔ میں نے خالی آنکھوں سے اپنے اردگرد دیکھا اور پھر 8 ماہ کے اپنے بچے پر نگاہ ڈالی، جو آرام سے سو رہا تھا۔ میں اسے زندگی میں ایسے لمحات سے گزرنے نہیں دینا چاہتی، میں نہیں چاہتی کہ وہ اس سانحہ کے بارے میں سوچتے ہوئے، غم اور افسوس کے سائے تلے بڑا ہو۔“
طیارے کی تباہی میں سیاست کے ملوث ہونے کی خبروں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ نے کہا کہ ”افسوس کی بات یہ تھی کہ کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس بات کی تصدیق کر سکے کہ واقعی ایسا ہوا ہے۔ ہمیں سب کچھ ٹی وی سے پتہ چلا۔ میں اس کا نام دیکھ سکتی تھی، اس کی تصاویر ٹی وی اور انٹرنیٹ پر چل رہی تھیں۔ میرا فون مسلسل بج رہا تھا مگر کوئی بھی اس کی موت کی خبر کی تصدیق کرنے کو تیار نہیں تھا۔ سارا معاملہ انتہائی سیاسی ہو گیا، خاص طور پر ایم ایچ 370 کے حادثے کے بعد۔“
عاصمہ نے حالات کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا اور اپنی تمام ہمت اور مثبت سوچ کو جمع کیا تاکہ زندگی کو دوبارہ جینا سکھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ میرے لئے بہت مشکل رہا ہے، لیکن میں لوگوں کی رحم دلانہ آنکھیں نہیں دیکھنا چاہتی، میں اپنی زندگی بنانا چاہتی ہوں، لوگ سوچتے ہیں کہ ہمارا کیا ہو گا، کیونکہ ایک پائلٹ کے مالی حالات تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں۔ اور ایک میں ہوں، ایک گھریلو خاتون، کسی نوکری کے بغیر مشکل میں پھنسی ہوئی اور ایک بچے کیساتھ جس کی پرورش کرنی ہے۔“
عاصمہ نے تمام مشکلات کے باوجود بھی ہمت نہ ہارنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ”اپنے شوہر کی وفات کے بعد 6 ماہ تک میں صحیح طرح سو بھی نہیں سکی۔ حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی اور ایک بار پھر زندگی جینے کی کوشش شروع کی۔ میں روئی نہیں کیونکہ میں اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ ایک زندگی گزارنا تھی۔ مجھے اپنی زندگی دوبارہ بنانا تھی اور پھر بعد میں رونا تھا۔ جذباتی طور پر میں نے بہت ساری چیزیں چھوڑ دیں اور اب میں کاروبار پر توجہ دے رہی ہوں اور اس کیساتھ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساتھ فل ٹائم جاب کر رہی ہوں اور تعلیم بھی حاصل کر رہی ہوں۔ میں اپنے بیٹے کیلئے ایک مثال بننا چاہتی ہوں۔“
موت، کئی مرتبہ بہت سے انمول سبق سکھاتی ہے اور عاصمہ نے اپنا سبق پرامیدی کے تناظر میں سیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ ”میں اب مثبت پہلو کو دیکھتی ہوں۔ احمد کی موت کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں اسے کتنا پیار کرتی تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ موت صرف غم کا نام نہیں، بلکہ پیار کا نام بھی ہے۔ یہ ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم اس شخص سے کتنی محبت کرتے تھے جو ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ آپ جس درد سے گزرتے ہیں وہ پیار کے برابر ہوتا ہے۔ چونکہ میں اسے واپس نہیں لا سکتی، اس لئے میں نے وہ تمام مثبت باتیں اکٹھی کیں، جو میں کر سکتی تھی، کم از کم میں اپنے بچے کیلئے راہ ہموار کر سکتی ہوں۔“
مختلف جذبات اور ذمہ داریوں کی شعبدہ بازیوں کا سامنا کرنے کے بعد عاصمہ نے نتیجہ نکالا کہ”ہم اپنے بہترین معالج ہیں، لوگ ایک حد تک آپ کی مدد کر سکتے ہیں، لیکن کوئی بھی آپ کی مدد نہیں کر سکتا اگر آپ خود اپنی مدد نہ کرنا چاہیں۔ اپنے نقصان کو قبول کریں، مدد لینے سے نہ ڈریں اور اپنی انا پر قابو پائیں۔ خود کو تھوڑا وقت دیں۔ آپ مکمل پیدا نہیں ہوئے اور ہمیشہ خود میں بہتری کی گجائش رہتی ہے، شرمائیں مت، اگر آپ کو مدد کی ضرورت ہے، تو اسے حاصل کریں۔ بات چیت کرنا اور مدد ڈھونڈنا ضروری ہے کیونکہ انسان ایسے ہی بنا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔“
بیواﺅں اور اکیلی ماﺅں کو پیش آنے والے مسائل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ نے کہا کہ”خواتین کی ہر جگہ حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ میں خواتین کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ جو بھی چاہیں وہ بن سکتی ہیں۔ اگر آپ میں جذبہ اور پیار ہے، تو آگے بڑھیں اور وہ کام کریں جو آپ سب سے بہتر کر سکتی ہیں۔“

اگر مردوں کے جسم پر یہ ایک چیز ہوتوخواتین ان کی طرف اس طرح بھاگی آتی ہیں جیسے شہد کی مکھی پھولوں کی طرف، سائنسدانوں نے ایساانکشاف کردیا کہ ہرمرد یہ کام ضرور کرے گا
آج، عاصمہ خود پر بیتنے والے حالات کے تجربات کو استعمال کرتے ہوئے اپنی جیسی دیگر خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ وہ گو کرائسس مینجمنٹ ادارے کی مدد کر رہی ہیں جو ایک وقف شدہ ٹیم کو کسی بحران اور آفت کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ٹریننگ دیتا ہے۔ وہ بنیادی مہارت فراہم کرنے میں مدد کرتی ہیں، جیسا کہ ایسے افراد کو پہچاننا جنہیں مدد کی ضرورت ہو، ان کیساتھ رابطہ کرنا، ان کی ضروریات کی نشاندہی کرنا اور انہیں وہ سب فراہم کرنا جس کی انہیں ضرورت ہے۔
احمد اور عاصمہ 2011ءمیں ہنی مون کیلئے دبئی آئے تھے اور اس کے بعد سے وہ مستقل طور پر دبئی منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ دوسری مرتبہ وہ 2014ءمیں دبئی آئے، کیونکہ احمد امارات ائیرلائنز میں نوکری حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس دوران انہوں نے چند گھر بھی دیکھے اور سکولوں سے متعلق معلومات بھی حاصل کیں۔
اگر طیارے کو حادثہ پیش نہ آیا ہوتا تو احمد اور عاصمہ جلد ہی دبئی میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرتے۔ عاصمہ نے بتایا کہ ” احمد کی موت سے صرف 2 مہینے پہلے ہم دبئی آئے تھے۔ جیسا کہ احمد نے ہمارے لئے نئی زندگی کے خواب دیکھے تھے اور 2015ءمیں امارات ائیرلائنز میں نوکری کیلئے بھی بالکل تیار تھا، لیکن میرے خلاف سے اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔“
عاصمہ کا یہ دبئی کا تیسرا دورہ ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ”فرق صرف یہی ہے کہ اس مرتبہ میں اکیلی ہوں، احمد کے بغیر، خواب ٹوٹتے ہیں لیکن ہم انہیں دوبارہ جوڑ سکتے ہیں۔ یہ تلخ و شیریں کا امتزاج ہے، لیکن میں نے اسے مثبت نگاہ سے دیکھنا سیکھ لیا ہے۔ میں ماضی سے کچھ مثبت لا رہی ہوں اور اسے وہیں نہیں چھوڑ رہی۔ دبئی دوبارہ واپس آنا اور زندگی کو ہر مرتبہ ایک الگ نظرئیے سے دیکھنا اچھا ہو گا، پہلی مرتبہ ایک نئے نویلے شادی شدہ جوڑے کی حیثیت سے، پھر ایک فیملی کی صورت میں اور اب اکیلے۔۔۔“

مزید :

ڈیلی بائیٹس -