اقتدار کی غلام گردشیں اور نواز شریف

اقتدار کی غلام گردشیں اور نواز شریف
اقتدار کی غلام گردشیں اور نواز شریف

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قرآن شریف میں رب کائنات کا ارشاد ہے کہ ’’قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے‘‘۔
اہل ایمان کو اقتداراوراختیار میں مخلوق خدا کی خدمت کرنے کے وسیع مواقع ملتے ہیں۔ اہل ایمان سے خدا بھی خوش ہوتا ہے اور مخلوق بھی۔

سوائے خدا کی ذات کے ہر چیز کو فنا ہے۔

جوانی، حسن، صحت اور اقتدار کسی کو بھی دوام نہیں، اہل ایمان اور نظریاتی لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو چند ماہ میں قوم کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ غربت کی اندھیری رات ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے، خوشحالی کا سفر تیزی سے شروع ہو جاتا ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف 30/35 سال کی سیاسی زندگی اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم رہنے کے بعد نہایت غمگین اور دلگیر لہجے میں اپنا غم بیان کررہے ہیں۔ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔
’’مجھے پتہ نہیں 20دن کے بعد میں کہاں ہوں گا‘‘۔ قوم سے کہا کہ میری اپیل پر قوم لبیک کہہ کر میدان عمل میں نکل آئے۔ اقتدار کی غلام گردشیں بڑی بے وفا ہوتی ہیں، کبھی مستقل کسی کی نہیں ہوتیں۔

آج ظلِ سبحانی غلاموں اور کنیزوں کے جلومیں ہوتے ہیں۔ توکل زنجیروں میں جکڑے ہوئے، سرتن سے جدا۔ یہ تو پنڈولم ہے، کبھی اِدھر کبھی اُدھر، اقتدار کے محل سراتو ہمیشہ سے سرائے خانے ہیں۔
خوش آمدی ظل سبحانی کو ایسا نشہ چڑھاتے ہیں، یقین دلایا جاتا ہے کہ اقتدار کا ہماپوری زندگی آپ کے سرپر بیٹھا رہے گا، اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ خوش آمدی ظل سبحانی کو پھانسی لگواکر یا جیل بھجواکر، نئے ظل سبحانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں، اسی اثنا میں کافی مال بنالیتے ہیں۔


ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کہا تھا، ان کے پاس ایک چوائس تھی، خاندان بنالے یا پھر قوم۔ مہاتیر محمد نے فیصلہ قوم کے حق میں دیا تھا، لمبی مدت اقتدار میں رہنے کے باوجود مقبولیت کی انتہا کو چھوا اور عزت سے رخصت ہوئے۔ اب بانوے برس کی عمر میں قوم نے انہیں پھر منتخب کر لیا ہے۔
دنیا میں جتنے بھی نظریات وجود میں آئے، وہ نوع انسانیت کی فلاح کے لئے آئے۔ اسلام، جمہوریت یا سوشلزم سب کا مقصد استحصال کا خاتمہ اور انسان کو بہتر زندگی دینا ہے۔
نواز شریف صاحب کا نعرہ کہ ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کیا عام لوگوں کا مسئلہ ہے؟ کیا عام لوگوں میں پاپولر ہورہا ہے؟


اگر سابق وزیر اعظم میں سچائی، دیانت اور قربانی کا جذبہ ہوتا، رائے ونڈ اور لندن کے محلات نہ بنائے ہوتے، اس قوم کو بنایا ہوتا۔ قرضے اتاردیئے جاتے، ہر طرف خوشحالی ہوتی، تھانہ کلچر تبدیل ہوتا۔ عام آدمی کو خوشحالی اور تحفظ ملتا۔

نواز شریف صاحب نجات دھندہ بن کر ابھرتے۔پھر ان کی ایک پکار پر سڑکیں عوام سے بھر جاتیں، مصاحبین بھی اپنی طرح کے اکٹھے کررکھے ہیں۔ قربانی دور کی بات وہ پسینہ بہانے کو تیار نہیں، یہ چڑیوں کے چمبے برے وقت میں پُھر کرکے اڑ جاتے ہیں۔
’’مجھے کیوں نکالا‘‘ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ یہ تمہارے ذاتی دکھ ہیں۔ عوامی مسائل نہیں نظریاتی لوگ محلات میں نہیں رہتے، آف شور کمپنیاں اور کھربوں کی جائیدادیں نہیں بناتے، نظریات کی بنیاد پر قوم تیار کرتے ہیں، جدوجہد کرتے ہیں، نظام تشکیل دیتے ہیں، پھر طیب اردوان کی حمایت میں ایک کال پر لاکھوں لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے ہیں، پھر فوج کے باغی مسلح فوجیوں کو عام نہتے لوگ گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالتے ہیں، رزق حلال اور قوم سے محبت کا جادو پوری دنیا نے ترکی میں فوجی بغاوت کے دوران دیکھا۔
طاقت کے اداروں میں سازشیں اور چاپلوسی چلتی ہے، باس کے پاس ہر شخص وفادار ترین خادم ہوتا ہے اور دوسرں پر ہمیشہ الزام لگتے ہیں، ایسے ماہر کھلاڑی ترقیاں پاتے ہیں، وزیر، مشیر اور سیکرٹری بنتے ہیں۔

اس سلسلہ کی کڑی اک واقعہ یاد آیا ہے۔ ایک بہت بڑے طاقت کے ادارے کا باس بادشاہ سلامت کی سی کیفیت میں رہتے تھے، دفتر دربار کی طرح ہر وقت ہٹو، بچو کے جلو میں چلتے تھے، دفتر پہنچنے پر ایک درجن لوگ استقبال کے لئے تیار رہتے۔

بدقسمتی سے ان کی پوسٹنگ اکتوبر سے پہلے آگئی۔اکتوبر سے پہلے پوسٹنگ آجائے تو اسے سی آرنیا بوس لکھتا ہے، اگلے روز بادشاہ سلامت کی کارخاموشی سے آئی۔

خود ہی دروازہ کھولا اور دفتر چلے گئے، واپسی بھی ایسی ہی تھی، اس بازار میں نہ وفا ہے، نہ حیاہے، نہ سچائی، نہ دیانت اور صرف مکاری کے جوہر ہوتے ہیں، اس قوم کو ابھی اور بحران دیکھنے ہیں:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اتراتو میں نے دیکھا

مزید :

رائے -کالم -