شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 7
پگڈنڈیاں ..... گھاس ..... جھاڑ جھنکاڑ..... جس پر نظر پڑتی ہے وہ ایک خوفناک ہیولا نظر آتا ہے ..... لیکن ..... چاندنی نکلتے ہی جیسے ..... سب اپنا لباس اتار کر سنہری پوشاک زیب تن کر لیتے ہیں ..... اور وہ جو دہشت کا اثر ہوتا ہے ..... وہ یکبارگی زائل ہو کر ایک فرحت سی پیدا ہوجاتی ہے ..... ساری مناظر جواب تک ہیولے بنے ہوئے تھے وہ خوبصورت اور دلکش ہو جاتے ہیں .....
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 6 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ابھی تک جس سبزہ پوش کنارے پر تاریکی کا تسلط تھا وہاں اب سنہرا فرش بچھ گیا ..... اور پانی ایسے جھلملانے لگا جیسے کسی نے سونا پگھلا کر پھیلا دیا ہو ..... تالاب کی ساکن سطح پر بھی دور ..... پانی کی اندر ..... چاند کا عکس درخشاں تھا .....
سپاہی میاں اور دیہاتی دونوں میری ہدایت کے مطابق نزدیکی شاخ سے اپنے کو مضبوط باندھ کر غافل سو گئے تھے ..... جھنگروں کے گیت کے علاوہ نہ کوئی آہٹ نہ آواز ..... ! اس گیت کی یہ خوبی ہے کہ تھوڑی دیر تو سماعت کو اس کا احساس رہتا ہے لیکن گھنٹہ دو گھنٹے بعد یہ مسلسل جاری رہنے والا ترانہ اس طرح ماحول میں جذب ہوجاتا ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا ..... یا شاید جنگل کا سناٹا اس کو جذب کر کے شکاری کو اس شور سے بے نیاز کر دیتا ہے.....
کنارا ..... یعنی وہ سبزہ زار ..... ذرا دیر ساکت رہا ..... دور ایک سیہی ذرا دیر پانی پیتی رہی لیکن سیہی آواز نہیں کرتی ..... اس کے قدموں کی آہٹ بھی نہیں ہوتی اس لیے کہ پیروں کے نیچے نرم گدی ہوتی ہے ..... میں اس کو دیکھ ہی رہا تھا..... کہ یکبارگی جنوبی سمت کی جھاڑیوں میں سے ایک بہت قدر آور بنڈیلا ..... یعنی نرسور ..... نمودار ہوا ..... اور بے تکلفانہ سیدھا پانی پر آیا.....
اس کی چپڑ چپڑ پانی پینے کی آواز میں سن ہی رہا تھا کہ یکبارگی ہی شیر نے اس پر حملہ کیا اور ایسی زبردست دھاڑ نکالی کہ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ درخت جس پر میں بیٹھا تھا تھرانے لگا..... جنگل میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا ہوگئی .....
سپاہی گھبرا کر جا گا..... ساتھ ہی دیہاتی بھی ..... وہ دونوں جنگل کے ہی راز دار ..... اتنے خوفزدہ نہیں ہوئے ۔
شیر کی گرج کے ساتھ ہی سور نے بھی نعرہ مبارزانہ لگایا ..... اور میں نے شیر کو چشم زدن سے بھی کم عرصے میں سبزہ زار طے کرتے دیکھا ..... اور ..... حیرت انگیز طور پر سور نے بھی اسی برق رفتاری کے ساتھ حملہ کیا .....
شیر ..... اس کا اعلان جنگ ..... نعرہ مبارزانہ ..... جس کو سن کر دور دور تک جنگلی جانور دہشت زدہ ہو کر فرار ہوجاتے ہیں ..... انسان میلوں دور سے سن کر چوکنا ہوجاتا ہے ..... لیکن سور پر اس گرج کا کوئی اثر نہیں ہوا ..... دراصل ..... یہ مبارزہ دیکھنے کا میرا پہلا اتفاق تھا..... اس سے پہلے میں نے سور کو شیر سے جنگ آزما ہوتے نہیں دیکھا تھا ..... عظیم بھائی اور دوسرے بزرگوں نے اس قسم کے واقعات بیان ضرور کیے تھے اور مجھے تمنا تھی کہ اس قسم کے مقابلوں کا مشاہدہ کروں..... !
سور ..... ہنڈیلا ..... وہ سور ہوتا ہے جو اپنی جسامت ‘ طاقت اور بدمزاجی کی وجہ سے عام غولوں سے علیحدہ تنہائی کی زندگی بسر کرتا ہے ..... صرف بہار کے دنوں میں رفاقت گوارا کرتا ہے ..... دماغ کی خرابی کا یہ عالم کہ شیر کے حملے سے فرار ہونے کے بجائے نہایت ہمت اور بے جگری کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے ..... اور بالاخر مارا جاتا ہے ..... شیر اگر کسی جانور کو مارنے کا ارادہ کر لے تو شاذو نادر ہی ناکام ہوتا ہے ..... حملہ اس قدر نپاتلا ..... اتنا سریع اور اس قدر خوفناک ہوتا ہے کہ ہدف کے اوسان ہی خطا نہیں ہوتے ..... بلکہ جان ہی آدھی رہ جاتی ہے ..... نعرے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کی شدت سے شکار کے اعصاب متاثر ہوں اور ان کے معطل ہونے سے اعضا کی حرکت مفلوج ہوجائے ..... یہی سبب ہے کہ شیر کے حملہ کرتے ہی شکار کی حرکت معطل ہوجاتی ہے اور بھاگنے کے بجائے جانور اپنی جگہ پر منجمد رہ جاتا ہے .....
لیکن شیر ہر دفعہ حملے سے پہلے نعرہ نہیں لگاتا ..... بالعموم خاموشی سے نکلتا اور برق کی سی حرکت کے ساتھ جانور کو دبا لیتا ہے ..... نہ شور نہ آواز ..... نعرہ صرف اس وقت لگاتا ہے جب کسی طاقتور دشمن کو ہلاک کرنے کا ارادہ ہو.....
سور کا حملہ اکثر بہت مہلک ہوتا ہے ..... اس کے بڑے بڑے نو کیلے دانت اس کا بہت کامیاب ہتھیار ہیں ..... جن کی ایک ضرب تلوار کی طرح گہرا اور لانبا زخم پہنچاتی ہے ..... لیکن یہ سر جھکا کر ایک دفعہ سیدھا دوڑتا ہے اور اپنے زور میں بھاگا چلا جاتا ہے ..... اس کی پتلی ٹانگیں اور بھاری بھر کم جسم اس کی تیز رفتاری کے دوران فوری رکنے یا برق رفتاری کے ساتھ گھومنے میں ہارج ہوتا ہے .....
سور نے حملہ کیا ..... شیر کی برق رفتاری کا دنیا کا کوئی جانور مقابلہ نہیں کر سکتا ..... تیز رفتاری کے باوجود وہ بجلی کی طرح ایک طرف ہوگیا تحرک اور سور اپنے تھرک کے زور میں قریب سے گذرا ..... شیر نے اس کی ران پر ایک تھپڑ رسید کیا ..... اور سور لڑکھڑا کر رہ گیا ..... میں یہ نہ دیکھ سکا کہ اس تھپڑ نے اس زخم پہنچایا کہ نہیں میرے پاس دور بین نہیں تھی ..... لیکن مجھے یقین ہے کہ گہرا زخم آیا ہوگا ..... سور بالاخر چند فٹ آگے جا کر پلٹا اور پھر حملہ کیا ..... یہ جنگ تقریباً سات منٹ جاری رہی اور اس عرصے میں سور نے جس قدر زخم کھائے اور جتنا خستہ ہوا اس کا اندازہ صرف اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آخر میں شیر اس سے کھیل رہا تھا ..... ادھر سے تھپڑ مارتا تو سور چیختا ہوا ایک طرف لڑھک جاتا ..... دوسری طرف سے تھپڑ پڑتا تو ادھر لڑھک جاتا .....اب میں صاف دیکھ رہا تھا کہ وہ لہولہان ہو چکا تھا ..... سارا خون میں ترتھا ..... لیکن اس کی ہمت اور مقاومت کی داد دینا چاہیے کہ انتے زخموں اسقدر بے بسی کے باوجود اس نے شیر پر حملے کرنا بند نہیں کیے..... تاآنیکہ آخر کار ایک دفعہ شیر نے اس کی گردن نرخرے کی جانب سے پکڑ کر جو جھٹکا دیا تو سور ‘ دھڑام سے گرا اور شیر نے اس کو وہیں دونوں پنجوں سے دبا دیا ..... سورکی گردن تو پہلے ہی اس کے سنگ شکن جبڑے کی زبردست گرفت میں تھی اورشیر کے چار چار انچ لابنے نوکیلے دانت اس کی گردن میں گھسے ہوں گے .....
سور ذرا دیر ہاتھ پیر چلانے اور شیر کی گرفت س نکلنے کی کوشش کر تا رہا ..... بتدریج اس جدوجہد میں کمزوری آتی گئی پھر اس کا دم نکل گیا ہوگا ..... ساکت ہوگیا .....
شیر اس کی گردن اس طرح دبائے تقریباً دس منٹ بیٹھا رہا ..... اس کے بعد ایک قدم پیچھے ہٹ گیا ..... گرفت چھوڑ دی ..... لیکن نظریں اس طرح گردن پر جمی تھیں ..... سور میں خفیف سی جنش ہوتی ..... اور شیر نے چشم زدن میں پھر گردن دبالی ..... اس بار چھ منٹ یہ گرفت قائم رہی ..... پھر اس نے سور کو چھوڑ دیا ..... چند لمحے دوبارہ اس میں کسی حرکت کا متظر رہا ..... جب یقین ہوگیا کہ اب وہ موذی مر ہی گیا ہے تو وہ تین گزہٹ کر بیٹھ گیا ..... اور غالباً بیس منٹ بہ آرام بیٹھا رہا ..... اس کے بعد اٹھ کر لاش کے پاس آیا ..... اس کو سونگھا ..... ایک پنجہ اس پر رکھ کر شاید لاش کو ہلایا اور دو لمحے اس کو دیکھتا رہا ..... پھر تالاب کی طرف آگیا ..... (جاری ہے )
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں