سچل آن لائن عالمی کانفرنس
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام
اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے زیر اہتمام سچل آن لائن عالمی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔جس کی صدارت امریکہ سے مہتاب اکبر راشدی نے کی جبکہ مہمان خصوصی شفت محمود وفاقی وزیر تعلیم تھے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر سعدیہ طاہر اور ڈاکٹر حاکم علی ابڑو نے انجام دیے۔اس کانفرنس کا آغاز سچل سرمست کے مزار سے براہ راست ان کے دعائیہ کلام سے کیا گیا۔افتتاحی کلمات میں چیرمین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ سچل سرمست کی شاعری میں وحدانیت کے جو آثار ملتے ہیں انھیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔مہمان خصوصی شفقت محمود وفاقی وزیر برائے تعلیم نے کہا کہ صوفی شعرا کی طرح سچل سرمست کی فکر ہر قسم کی منافقت سے، مذہبی شدت پسندی اور عدم برداشت کے خلاف ہے۔نصر ملک نے ڈنمارک سے کلیدی مقالہ’پیش کیا۔اس کانفرنس میں حیدرآباد سے تاج جویو،لاہور سے ڈاکٹر نبیلہ،پشاور سے ڈاکٹر اباسین یوسف زئی، منڈی بہاء الدین سے سید خضر نوشاہی، خیر پور سے ڈاکٹر مہر خادم اور امرا قبال، ڈاکٹر شیر رحمانی،کوہ سلیمان بلوچستان سے ڈاکٹر واحد بخش بزدار، سکھر سے ممتاز بخاری، بھکر سے ڈاکٹر محمد اشرف کمال،رانی پور سے پروفیسر الطاف اثیم،کراچی سے فاطمہ حسن،بہاول پور سے ڈاکٹر جاوید احسان چانڈیو،سکھر سے ڈاکٹر ادل سومرو، لاڑکانہ سے ڈاکٹر در محمد پٹھان، اسلام آباد سے ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، جبار مرزا، ڈاکٹر فاخرہ نورین،نے مقالات پیش کیے۔ افتتاحی کلمات میں چیئرمین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک نے اس کانفرنس کی غرض وغایت کے بارے میں بتایا اور کہا کہ سچل سرمست کی شاعری میں وحدانیت کے جو آثار ملتے ہیں انھیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔
نصر ملک نے ڈنمارک سے کلیدی مقالہ ”فکر سچل سرمست اور ڈنمارک“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ سچل سرمست کا کلام سفر کرتا ہوا 1881ء کے قریب ڈنمارک میں پہنچا۔1911ء کے ایک جریدے میں بھی شائع ہوا۔ سچل کا کلام فرانس سے ہوتا ہوا ترجمے کی صورت میں پہنچا۔یہ ترجمہ ڈچ زبان میں ہوا اور پھر ڈچ سے ڈینش میں سچل کے کلام کا ترجمہ کیا گیا۔سچل سرمست تحلیل نفسی کے قائل تھے۔اور روحانیت کے مقامات کو اہمیت دیتے تھے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اپنے تاثرات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کل جس وبا کا ہمیں سامنا ہے اس سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے اور علم وادب کی محفلوں پر بھی اس کے برے اثرات پڑے ہیں۔میں یوسف خشک کو مبارک باد دیتا ہوں اور سراہتا ہوں کہ انھوں نے اس کے باوجود یہ تیسری یا چوتھی کانفرنس ہے جو کہ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے منعقد کر رہے ہیں۔وہ جب سے آئے ہیں اکادمی ادبیات ایک فعال ادارہ بن گیا ہے۔یہ کانفرنس ہر سال ہوتی تھی اس سال خطرہ تھا کہ نہ ہو پھر بھی انھوں نے انتظامات کیے تو ہم سب یہاں موجود ہیں۔ دانش وروں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس سے شئیرنگ ہورہی ہے۔آئسو لیشن کی وجہ سے تخلیقی کام کا بڑا موقع ہے۔سچل سرمست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ صوفی شعرا کی طرح ان کی فکر ہر قسم کی منافقت سے، مذہبی شدت پسندی اور عدم برداشت کے خلاف ہے۔تمام صوفی شاعر چاہے جس علاقے،خطے میں بھی ہوں ان کے کلام میں مشترک چیز ملتی ہے۔ اقبال اور سچل کے کلام میں بھی بڑی مماثلت ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے سچل سرمست اور علامہ ا قبال کے شعر بھی پڑھے۔سچل سرمست کا تعلق درازی سلسلے سے ہے۔ ان کی فکری نسبت منصور حلاج سے ہے۔ ان کا اسلوب منفرد ہے۔
منڈی بہاء الدین سے سید خضر نوشاہی نے ”سچل کی شاعری پر عطار نیشا پوری کے فکری اثرات“ کے عنوان سے بات کی۔انھوں نے عطار اور آشکار کے مختلف اشعار سنائے اور پھر ان میں مماثلت کے بارے میں بات کی۔عطار سے زیادہ سچل کا رنگ آشکار پہ نظر آتا ہے۔ڈاکٹر شیر مہرانی نے کہا کہ سچل سرمست خود بھی ایک مذہبی اسکالر تھے۔حافظ قرآن تھے اور وہ ملا ازم کے بھی خلاف تھے۔ انھوں نے انگریزی زبان میں مقالہ پیش کیا مقالہ پڑھتے ہوئے مرزا علی قلی بیگ کا حوالہ بھی دیا۔ سچل کے بارے میں بتایا کہ وہ اپنے دور کے سوشل سائنٹسٹ تھے۔
کوہ سلیمان بلوچستان سے ڈاکٹر واحد بخش بزدار نے ”سچل سرمست وحدت الوجود شاعر“کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سچل سرمست نے بلھے شاہ کو پڑھا تھا۔وہ ھافظ قرآن بھی تھے اور قرآن کی تفسیر بھی جانتے تھے۔بہادر آدمی تھے اور سچ بولنے کی وجہ سے انھیں سچو کہا جاتا تھا۔عطار کے مقابلے میں جامی سے زیادہ متاثر تھے۔ان کے خیال مین یا تو کوئی صوفی ہے یا کوفی۔سکھر سے ممتاز بخاری نے سچل سرمست کی شاعری شاہ عبداللطیف کے حوالے ملتے ہیں اگر ان کے متن کو دیکھیں تو اس میں شاہ عبداللطیف سے مماثلت ملتی ہے۔ ان کی شاعری روایت سے ہٹ کر ہے۔بھکر سے ڈاکٹر اشرف کمال نے ”سچل سرمست کی شاعری میں موضوعات کی رنگا رنگی“ سچل کی شاعری میں جہاں عشقِ حقیقی، معرفت،وحدانیت،روحانیت، تصوف، انسان دوستی اور احترام آدمیت کے موضوعات بکثرت ملتے ہیں وہاں ان کی شاعری میں کئی ایسے استعارے استعمال ہوئے ہیں جو سماجی حوالے سے انسان کو آگے بڑھنے، حق بات پر ڈٹ جانے، سچ کے لیے سولی چڑھ جانے،راہِ عشق میں سر کو کٹوانے، اعلیٰ مقاصد کے لیے گھوڑے دوڑانے کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ان کی شاعری میں حافظ کا حفظ کرانا،مفتی کا فتوے دینا،روزے رکھنا، نمازیں پڑھنا،رسم ادا کرنے کے لیے پھیرے لگانا، کونتل پھیر کودنا، تلک لگانا، جوگی بن کر جوگ کمانا، گنگا پہ نہانے جانا، نوعا نوع پوشاکیں پہننا ایسے موضوعات کو سامنے لایا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں الفت کا شہبازایک اہم استعارہ ہے۔رانی پور سے پروفیسر الطاف اثیم نے ”سچل کی شاعری اپنے دور کی عکاس“ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرمایا:سچل سرمست کا دور برا پر آشوب تھا سندھ پر بیرونی حملہ آوروں کی یلغار، مقامی قبائل کی کشمکش، عدم رواداری، ومذہبی منافرت نے انسانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا۔
کراچی سے فاطمہ حسن نے ’حلاج کا تصور عشق اور سچل“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سچل کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنی مادری زبان سندھی کے علاوہ اس خطے میں بولی جانیو الی تمام زبانوں سے واقف تھے۔فارسی میں ان کا تخلص آشکار اورخدائی تھا جب کہ باقی زبانوں میں سچل اور سچو۔بہاول پور سے ڈاکٹر جاوید احسان چانڈیو نے ”سرائیکی وسیب وچ سچل سرمست دی پذیرائی“ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا سچل ہفت زبان شاعر نہیں ہے وہ چار زبانوں کا شاعر ہے مگر وہ سات زبانیں جانتے تھے۔سکھر سے ڈاکٹر ادل سومرو نے ”سچل سرمست جی فکرین عالمی ہم آہنگی“ سندھی میں مقالہ پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ سچل نے تعصب اور تنگ نظری کے خلاف علم بلند کیا اور وہ بھرپور عمل کے حامی تھے۔صوفی ساری دنیا کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور سارے انسانوں کی خیر چاہتے ہیں۔لاڑکانہ سے ڈاکٹر در محمد پٹھان نے ”سٹڈی آف دی پوئٹری آف سچل سرمست ان کنٹیکسٹ آف ھز ٹائم“ کے عنوان سے انگریزی میں مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے ”سچل سرمست کی شاعری میں وحدت الوجودی عناصر کی جلوہ آرائی“ کے حوالے سے بات کی۔ انھوں نے صوفیانہ مسالک پر بڑی مدلل گفتگو کی۔ اسلام آباد سے جبار مرزا نے ”سچل سرمست ولی اللہ“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سچل سرمست حکمرانوں کے ساتھ تعلقات پسند نہیں کرتے تھے۔ اسلام آباد سے ڈاکٹر فاخرہ نورین نے ”سچل سرمست کی شاعری میں رومانی پروٹائپس کا ارتقاء ایک مطالعہ“ کے عنوان سے بات کی۔انھوں نے کہا کہ سچل سرمست کی شاعری میں خطے کی تمام رومانی داستانوں کا بیان کسی رسم یا روایت کی پاسداری نہیں بلکہ اپنے افکار ونظریات کے اظہار کے لیے مناسب پیرایہ اظہار کی تلاش کا عمل ہے۔آخر میں ڈاکٹر یوسف خشک نے تمام حاضرین، مقالات پڑھنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور ان تمام منتظمین کا بھی جو کہ اس کانفرنس کے انعقاد میں ان کے ساتھ ہمہ وقت مصروف کار رہے۔
٭٭٭