کورونابحران سے نمٹنے کیلئے قومی اتھارٹی تشکیل دی جائے: میاں زاہد حسین

  کورونابحران سے نمٹنے کیلئے قومی اتھارٹی تشکیل دی جائے: میاں زاہد حسین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (اکنامک رپورٹر) ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین،پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ وبا ء سے قبل تیزی سے پھیلنے والا خدمات کا شعبہ اب سکڑتا جا رہا ہے۔یہ سب سے زیادہ متاثرہ شعبوں میں شامل ہے جس کا زوال تیز اور ملازمین کو فارغ کرنے کے واقعات سب سے زیادہ ہیں۔اس سیکٹر پر کروڑوں افراد کا انحصار ہے اس لئے اسکی بحالی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ریٹیل سیکٹر کئی بحران برداشت کر چکا ہے مگر اس بحران نے اس کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔ اگر لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کی گئی تو بھی اقتصادی سرگرمیاں اتنی جلدی بحال نہیں ہونگی جتنی کہ بعض افراد توقع کر رہے ہیں جبکہ کئی شعبوں کی بحالی میں دو سے تین سال بھی لگ سکتے ہیں۔ٹرانسپورٹ سیکٹر تو جلد بحال ہو سکتا ہے مگر سیاحت، ہوٹل اور بعض دیگر شعبوں کی جلدبحالی مشکل ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بحران جاری رہا تو خدمات کے کئی شعبے تباہ ہو جائیں گے۔ ادھر عالمی بینک نے سرمایہ کاری میں کمی اور ترسیلات میں کمی کا اندیشہ ظاہر کر دیا ہے۔ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا ء میں اس سال معاشی شرح نمو چار عشروں کے بعد پہلی بار کم ترین سطح پر رہے گی اور حالیہ برسوں میں لاکھوں لوگوں کو، جنھیں غربت کی لکیر سے اوپر لایا گیا تھا وہ ساری کوششیں اکارت جائیں گی جبکہ بعض ملکوں میں کساد بازاری بھی ہو سکتی ہے۔عالمی بینک نے خطے کے ان تمام ملکوں سے کہا ہے کہ وہ بے روزگاروں کی مدد کریں اور کاروباری لوگوں کی بھی ممکنہ حد تک مدد کے لئے اقدامات کریں۔اس خطے میں جہاں دنیا کی کوئی ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے جون تک بڑی معاشی سرگرمیاں موجودہ تناظر میں ممکن نظر نہیں آتیں۔موجودہ صورتحال میں انٹرنیٹ سروسز اور ای کامرس کا کاروبار ترقی کر رہا ہے مگردیگر شعبوں کا حال برا ہے۔ملکی اور عالمی صورتحال اس لئے بھی پریشان کن ہے کہ کرونا سے متاثرہ ممالک اپنے طور پر اس وباء سے نمٹ رہے ہیں اور مل کر کام کرنے کو نظر انداز کر رہے ہیں جو بہت ہی تشویشناک بات ہے۔ہماری حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کی کا فی کوشش کی جا رہی ہے مگر دیار غیر میں مقیم پاکستانی جو سالہا سال تک ترسیلات بھیجتے رہے ہیں کو بے روزگاری کی صورت میں مدد دینے کاپلان بنانے کی ضرورت ہے۔ہر چند کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد دنیا کے دوسرے خطوں کی نسبت کم ہے۔ لیکن خطے کے زیادہ تر ملکوں نے احتیاط کے طور پر لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے مگر اس میں غیر ضروری سختی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔جن ممالک کا انحصار زراعت اور سروسز سیکٹر پر زیادہ ہے وہ اس وباء کے اختتام پر صنعتوں پر انحصار کرنے والے ملکوں کی نسبت زیادہ تیزی سے بحالی کی طرف جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں کرونا کی وباء سے نمٹنے اور کرونا کے بعد کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک قومی اتھارٹی بنانے کی ضرورت ہے جس میں طبی ما ہرین، صنعتکار، تاجر، یونیو رسٹیز،میڈیااور حکومت مل کر قومی پالیسی بنا ئیں اور ملکی صنعت تجارت اور اکانومی کو فروغ دینے کیلئے متفقہ لا ئحہ عمل تیار کیا جائے۔