کیا 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟

کیا 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
 کیا 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
 کیا 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
 کیا 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
 کیا 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کورونا کے وار جاری ہیں اور اس دوران اٹھارہویں آئینی ترمیم بھی تبدیلی کا ہنگامہ برپا ہے، وفاقی وزرا کی طرف سے بیانات کے بعد اپوزیشن نے بھی اس کے خلاف بیانات دینا شروع کردیئے لیکن دراصل یہ مسئلہ کیا ہے، کیا واقعی اصل مسئلہ صوبوں اور وفاق کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کا ہے؟ اس سلسلے میں ممتاز سیاسی راہنما منیر احمد خان اور ہاورڈ سے تعلیم یافتہ آئینی ماہر منصور اعوان کے درمیان یوٹیوب چینل پر مکالمہ ہوا-


منیر احمد خان اور منصور اعوان کا کہناتھاکہ اٹھارہویں ترمیم بھی پاکستان کی آئینی ترمیم کیساتھ جڑی ہے، اٹھارہویں آئینی ترمیم میں بہت سے ایسے موضوعات ہیں جو اس کے بعد صوبوں کے پاس چلے گئے، کچھ امور ایسے تھے   جن پر دونوں وفاق اور صوبے قانون بنا سکتے تھے، اگر جہاں وفاق کا قانون بن چکا تو صوبائی قانون نہیں بن سکتا تھا، اگر صوبوں نے بنا رکھا ہے اور وفاق نے بنا دیا اور اس پر وفاقی قانون بالا تصور ہوگا، مگر جس کا قانون سازی کا ختیار ہے تو انتطامی اختیار بھی اسی کا ہوگا، چونکہ بہت سے ایسے بھی معاملات تھے جہاں قانون سازی، انتظامی اور مالیاتی معاملات بھی تھے، ان کے حوالے سے اقدامات کے لیے فنڈز چاہیں تھے، مالیاتی حصہ بھی اسی لحاظ سے چاہیے تھا،ان کاکہناتھاکہ این ایف سی ایوارڈ میں لکھا ہے کہ ہر پانچ سال بعد صوبے اور وفاق مالی وسائل کی تقسیم پر نظرثانی کریں گے لیکن این ایف سی کے بارے میں اس میں ایک شق ڈال دی گئی کہ سابق این ایف سی سے کم رقم صوبے نہیں لیں گے یعنی ہمیشہ صوبوں کا حصہ ہی بڑھے گا، اسی ترمیم میں صوبوں اور وفاق کو الیکشن کمیشن میں ریفارمز، عدلیہ معاملات پر کوئی اعتراض نہیں، اس خطے کاپہلا قانون گورنمنٹ آف انڈین ایکٹ 1935 دو سال بعد نافذ العمل ہوا اور پھر حکومت اور گورنر جنرل بنے، تمام امور بتا دیئے گئے، ہمارا پہلا آئین 1956 میں بنا اور انڈین قانون کا ہی سہارا لیا گیا۔


اٹھارہویں ترمیم سے پہلے ٹیکسز کا ساٹھ فیصد تقریباً وفاق لیتا تھا اور چالیس فیصد ٹیکس کے  صوبے پیسے لیتے ہیں، اب وفاق کے پاس تینتالیس اور ستاون فیصد صوبوں کے پاس چلا گیا، وفاق کے پاس دو بڑے خرچے دفاعی اور مقامی بینکوں سے قرض اور ان پر لگنے والے سود کی واپسی ہے، وفاق پر پریشر ہے، دفاعی معاملات صوبوں سمیت پورے ملک کے ہیں، فوج کو پیسہ دینا وفاق کے ذمے ہے، بڑے منصوبوں کیلئے قرضے جیسے موٹروے، ڈیم، سی پیک وغیرہ کے خرچے بھی شامل ہیں، یہ دیکھنا پڑے گا کہ صوبے کیا کرسکتے ہیں، اس پر ابھی صوبے تیار نہیں اور بات بھی نہیں کررہے، ہماری سیاسی جماعتیں بھی وفاقی کی بجائے صوبائی جماعتیں بن کر رہ گئیں اور ان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ وفاق کی بجائے صوبے مالی لحاظ سے زیادہ طاقتور ہیں، یہ نقطہ وفاق کیلئے ٹھیک نہیں، سیاسی جماعتیں صوبوں کا اکٹھا کرکے ملکی لیول پر لاتی ہیں، اگر جماعتیں سکڑ کر صوبائی ہوتی جارہی ہیں تو انہیں عوامی مسائل کا اندازہ ہی نہیں ہوگا، اس وقت ترمیم کرتے ہوئے شاید یہ سوچا ہی نہیں گیا۔

مزید :

رائے -کالم -