مچھلی کا پیغام

مچھلی کا پیغام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

    کسی بستی میں ایک ایمان دار مچھیرا علی رضا رہتا تھا۔ اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہاتھا۔ دونوں میاں بیوی کی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائیں۔
    مچھیرا ایک دن اپنی بیوی سے کہنے لگا: آج کل نہ جانے کیوں کم مچھلیاں جال میں پھنستی ہیں اور بعض مچھیروں کے پاس توایک بھی نہیں آپاتی، جس کی وجہ سے ہم لوگ کافی پریشان ہیں۔
    بیوی بہت غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی، کہنے لگی: کوئی بات نہیں آپ پریشان نہ ہوں اس میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی۔
    ویسے بھی جس کے نصیب میں جتنا رزق لکھا ہوتا ہے، وہ اسے مل کر ہی رہتا ہے۔ مچھیرا سوچنے لگا کہ میری بیوی کتنی صابر وشاکر ہے۔
    دوسرے دن علی رضا گھر لوٹا تو بیوی سے کہنے لگا: ہم سب دوستوں نے دریا کے دوسرے کنارے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔سنا ہے وہاں پر کافی تعداد میں مچھلیاں ہوتی ہیں۔ سب مچھیرے کل صبح پانچ بجے شکار کے لیے نکلیں گے۔ تم دعا کرنا کہ ہم کامیاب لوٹیں۔
    سب مچھیرے صبح ہی صبح روانہ ہوگئے۔ آہستہ آہستہ روشنی پھیلنے لگی اور دن نکل آیا۔ دن بڑا پر لطف تھا اور بادل کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔فضا بالکل صاف ستھری اور انتہائی خوش گوار تھی۔ دریا بالکل پرسکون تھا۔ کئی مچھیرے جھوم جھوم کر گانے گارہے تھے۔ کشتی بڑے سکون سے بہت دور تک جاپہنچی تھی۔ کشتی میں سوار اکثر لوگوں کو ہلکی ہلکی نیند آنے لگی، لیکن علی رضا دریا کے دونوں جانب حسین وجمیل ساحل کے مناظر سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ اچانک اس کی نظر پانی میں ایک بڑی مچھلی پرپڑی جواْچھل کر کشتی کے اندرآگری تھی۔
    اس نے جلدی سے مچھلی کو پکڑ لیا کہ کہیں وہ اْچھل کر دوبارہ دریا میں نہ جاگرے۔ مچھلی کو پکڑنے کے لیے علی رضا دوڑا تو کشتی ہچکولے کھانے لگی، جس کی وجہ سے باقی سب کی نیند اڑگئی اور وہ غور سے مچھلی کودیکھنے لگے۔
    ان میں سے ایک آدمی بولا: یہ مچھلی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بھیجی ہے تو کیوں نہ ہم آگے کنارے پر اْتریں اور اسے بھون کر کھائیں۔یہ اتنی بڑی ہے کہ ہم سب کا پیٹ بھر جائے گا۔ سب کو اس کی بات پسند آئی۔ کشتی کا رخ کنارے کی طرف موڑ دیا۔ سب لوگ کنارے پر اْتر کر گھنے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوئے،تاکہ لکڑیاں اکھٹی کرکے مچھلی بھونیں۔
    وہ لوگ گھنے درختوں کے جھنڈ میں پہنچے تو ایک خوفناک منظر نے ان سب کے رونگٹے کھڑے کردیے۔ایک آدمی زمین پر بے جان پڑاتھا۔ اس کے قریب ایک تیز دھار چاقو بھی پڑا ہو اتھا۔ پاس ہی ایک دوسرا جوان آدمی بھی تھا، جس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور منہ میں کپڑا ٹھونسا ہو اتھا، جس کی وجہ سے وہ بولنے اور چیخنے چلانے سے قاصر تھا۔
    یہ خوفناک منظر دیکھ کر سب کے اوپر دہشت طاری ہوگئی۔ علی رضا جلدی سے آگے بڑھا اور اس آدمی کی رسی کھولی اور اس کے منہ سے کپڑا نکالا۔ وہ بہت ڈرا ہوا لگ رہا تھا اور نااْمیدی کی کیفیت میں تھا۔ اس پھندے سے آزادی کے بعد وہ بولا؛ مہربانی کرکے مجھے تھوڑا پانی پلادو۔
    علی رضا نے اسے جلدی سے پانی پلایا۔ جب وہ پانی پی چکا تو مرے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کرکے خود ہی کہنے لگا: میں اور یہ آدمی دونوں ایک قافلے میں تھے جو کہ تجارت کے لیے ایک دور درازعلاقے کی طرف جارہے تھے۔ یہ آدمی میرے ہی شہر کا تھا، وہ سمجھ گیا کہ میرے پاس کافی مال ہے۔اس نے مجھ سے دوستی کرلی اور پیار محبت سے میرے آس پاس رہنے لگا۔ بہت ہی کم میرا ساتھ چھوڑتا۔ میرا بھی اس پر کافی اعتماد قائم ہوگیا تھا۔ قافلے نے سستانے کی غرض سے ساحل پر پڑاؤڈالا، رات کے آخری پہر قافلہ روانہ ہوگیا، لیکن میں اور یہ آدمی یہیں رہ گئے، کیوں کہ اس نے قافلے سے دور لے جا کر کوئی شربت پلا دیا تھا جس سے مجھے نیند آگئی۔
    قافلے کی روانگی کے بعد اس نے میری نیند کا فائدہ اْٹھاتے ہوئے مجھے رسی سے باندھ دیااور اس نے میرے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا کہ میں چیخ وپکار نہ کرسکوں۔ اس نے میرے پاس جوکچھ مال تھا وہ چھین لیا اور مجھے زمین پر ٹپخ دیا۔ پھرمجھے قتل کرنے کے لیے میرے سینے پر بیٹھ کر کہنے لگا: اگر میں تجھے زندہ چھوڑدوں اور کسی طرح توآزاد ہوجائے تو مجھے بدنام کرسکتا ہے، اس لیے تجھے قتل کرنا ضروری ہے۔یہ کہہ کر اس نے اپنی کمر بند سے بندھی ہوئی یہ تیز دھار چھری کھینچنی چاہی، لیکن چھری کسی وجہ سے اٹک گئی تھی۔ اس نے بڑی کوشش کی جب ناکام ہوگیا تو اس نے پوری طاقت لگا کر چھری کمر بند سے کھینچی، اس کی دھاراوپر کی طرف تھی، چھری اچانک زور سے نکلی اور کھال کے ساتھ شہ رگ کو کاٹتی ہوئی گردن میں پیوست ہوگئی۔
    شہ رگ کے کٹتے ہی خون کافوارہ جاری ہوگیا اور جب طاقت نے جواب دیا تو یہ مردہ حالت میں زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ یہ بدبخت میری آنکھوں کے سامنے اپنے انجام تک پہنچ گیا، لیکن اس کے باوجود مجھے اپنی موت کایقین ہوچلا تھا، کیوں کہ ہم جس جگہ ہیں، بہت ہی کم لوگ یہاں سے گزرتے ہیں۔میں سوچ رہاتھا کہ کون میرے ہاتھ پاؤں کھولے گا؟ کون مجھے اس آفت سے نجات دلائے گا؟ پھر میں نے اللہ کوپکارنا شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو میری طرف بھیج دیا اور میری جان بچ گئی۔ تم لوگوں کا اس طرف کیسے آنا ہوا؟
    علی رضا نے اسے بتانا شروع کیا: ایک مچھلی ہماری کشتی میں سمندر سے اْچھل کر آگری تھی۔ہم لوگ اس مچھلی کو بھوننے کی غرض سے اس جگہ پہنچے تھے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
    تم لوگوں کا بہت شکریہ، لیکن میں اپنی خوشی سے آپ لوگوں کو کچھ دینا چاہتا ہوں۔ براہ مہربانی انکار نہ کیجیے گا۔ پھر وہ شخص اْٹھا اور اپنے سامان سے اشرفیوں کی تھیلیاں نکالنے لگا۔اس نے ان سب دوستوں کو ایک ایک تھیلی بطور انعام دی۔ اس شخص نے خاص طور پر علی رضا کا شکریہ ادا کیا۔
    وہ لوگ جب اس شخص کو ساتھ لے کر کشتی کے پاس واپس آئے تو دیکھا کہ مچھلی کشتی سے کود کر سمندر میں جاچکی تھی۔

مزید :

ایڈیشن 1 -