فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے،فوجی ترجمان کا سنجیدہ پیغام

  فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے،فوجی ترجمان کا سنجیدہ پیغام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل افتخار بابر نے فوج کے بارے میں سیاست دانوں کے بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں نامناسب قرار دیا ہے، خاص طور پر کور کمانڈر پشاور سے متعلق بعض سینئر سیاست دانوں کے حالیہ بیانات کے حوالے سے سیاسی قیادت سے کہا گیا ہے کہ وہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ پشاور کور پاکستان آرمی کی ایک ممتاز فارمیشن ہے جو دو دہائیوں سے دہشت گردی کی جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ فوج کے بہترین پروفیشنل ہاتھوں میں دی جاتی ہے، پشاور کے موجودہ کور کمانڈر کے متعلق بعض سینئر سیاست دانوں نے پچھلے دِنوں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ انتہائی نامناسب ہیں،ہم بار بار سیاست دانوں سے درخواست کر رہے ہیں وہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں،ہمارا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے باقاعدہ مثالیں دیں کہ ضمنی الیکشن ہو یا بلدیاتی و کنٹونمنٹس انتخابات، فوج نے سیاست سے دور رہنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے،اس کے باوجود جلسوں اور سیاسی تقریروں میں فوج کی سیاسی صورت حال میں مداخلت کی باتیں کسی کے لیے بھی درست نہیں۔ ہم اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، فوج کی قیادت پوری طرح پاکستان کی سلامتی اور سیکیورٹی کے لیے متحد ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیان اور ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے فوج کے ترجمان نے واشگاف الفاظ میں فوج کے غیر سیاسی کردار کی بھرپور وکالت کی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر کا طریقہ بالکل واضح ہے۔اس موضوع پر بلاوجہ بات کرنا مناسب نہیں،اس معاملے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق فوج کو سیاست سے دور رہنے کا حکم ہے اور فوج اس پر پوری طرح کار بند ہے۔الیکشن کب ہوتے ہیں اس کا فیصلہ کرنا سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں البتہ الیکشن کے دوران امن و امان کو برقرار رکھنے کی ضرورت پڑی تو فوج کی خدمات حاضر ہیں۔
 میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ بطور ادارہ ایک عرصے سے تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ فوجی قیادت کو علم ہے کہ اِس وقت ملک کے سیکیورٹی چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔افواجِ پاکستان مشرقی و مغربی سرحدوں نیز شمالی علاقوں میں اندرونی سیکیورٹی کی اہم ترین ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے۔ فوجی قیادت کی تمام تر توجہ اِن چیلنجوں پر مرکوز ہے اس لیے ہم بطور ادارہ یہ درخواست کر رہے ہیں کہ ہمیں سیاست سے دور رکھا جائے۔ہم نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کیا ہے فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں،اس بات کو تمام سیاسی قیادت بھی تسلیم کرتی ہے۔اس کے باوجود سیاسی جلسوں میں سینئر سیاسی لوگ سیاست میں مداخلت کا تاثر دیتے ہیں۔ فوجی قیادت کی پوری توجہ ملک کے داخلی استحکام پر مرکوز ہے۔ پاکستان کے عوام کی حفاظت پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔لگ بھگ ایک ماہ میں تیسری بار فوج کے ترجمان نے اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ فوج کو بلاوجہ سیاست میں دھکیلا جا رہا ہے حالانکہ گزشتہ ایک برس کے دوران پاک فوج نے یہ ثابت کیا ہے اُس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سیاست دانوں کا کام ہے۔گزشتہ چند روز کے دوران عمران خان، مریم نواز اور آصف علی زرداری نے جس طرح موجودہ کور کمانڈر پشاور کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا،اُس پر فوج میں اضطراب پیدا ہوا، ماضی کے مفروضوں کی بنیاد پر کسی پروفیشنل افسر پر اس قسم کے الزامات لگانا کسی بھی طرح قومی مفاد اور فوج کی ساکھ سے لگا نہیں کھاتا۔ماضی میں تو بہت کچھ ہوتا رہا ہے۔ملک میں مارشل لاء بھی لگے اور فوجی ادوار بھی آئے۔سیاسی قیادت نے فوجی آمروں کو بیساکھیاں بھی فراہم کیں اور خود سیاست میں انہیں مداخلت کے مواقع فراہم کئے۔ سوال یہ ہے فوجی قیادت کا موجودہ رویہ کیا ہے،کیا یہ حقیقت نہیں کہ سیاسی طور پر حد درجہ بے یقینی پیدا ہونے کے باوجود فوج نے ماضی کی طرح مداخلت نہیں کی۔
جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انہیں ایک وزیر نے فون پر دھمکی دی تھی کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور فوری انتخابات نہ کرائے گئے تو مارشل لاء آ جائے گا تو اُس کی بات کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا موقف سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ فوج نے اپنے لیے خود یہ راستہ منتخب کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اِس وقت پاکستان کو سیکیورٹی کے حوالے سے بہت زیادہ چیلنجوں کا سامنا ہے جس کا ڈی جی آئی ایس پی آر نے ذکر بھی کیا ہے۔ان چیلنجوں کی موجودگی میں پاک فوج کی قیادت اگر سیاسی امور میں الجھے گی تو اپنے فرائض سے عہدہ برأ نہیں ہو سکے گی۔یہی وجہ ہے کہ فوج کے ترجمان نے سیاسی قیادت سے یہ درخواست کی ہے کہ انہیں اُن کا کام کرنے دیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے فوج ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے، افواج کے سپاہی اور افسران وطن کی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت جان ہتھیلی پر رکھ کے کر رہے ہیں۔سیاست دانوں کے متنازعہ بیانات سپاہ اور قیادت کے مورال اور وقار پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں جن سے اجتناب کی ضرورت ہے۔فوجی ترجمان نے اپنی قیادت کی طرف سے بغیر لگی لپٹی رکھے واشگاف الفاظ میں جو بیان جاری کیا ہے امید کی جانی چاہیے ہماری سیاسی قیادت اُسے سنجیدہ پیغام سمجھے گی اور سیاسی مقاصد کے لیے فوج کے کردار پر انگلیاں اٹھانے سے گریز کرے گی۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ کوئی طاقت پاک فوج میں تقسیم پیدا نہیں کر سکتی، اس بات کی طرف فوجی ترجمان نے بھی اشارہ کیا ہے اس لیے اگر فوج نے سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے پاک فوج کا متفقہ فیصلہ سمجھ کے قبول کیا جانا چاہیے اور بعض شخصیات کا نام لے کر فوج کو متنازعہ بنانے کی کوشش کا ہر سطح پر محاسبہ ہونا چاہیے۔

مزید :

رائے -اداریہ -