کپتان کا امریکہ مخالف بیانیہ
پہلا موقع ہے کہ کسی سیاستدان کی ایک ہی تقریر بار بار بار بِک رہی ہے۔ لوگ وہی خیالات و افکار سننے کپتان کے جلسوں میں پہنچ جاتے ہیں، جنہیں وہ بیسیوں بار سن چکے ہیں، جس طرح کوئی استاد اپنی کلاس میں رٹا رٹایا لیکچر دیتا ہے اسی طرح عمران خان بھی ایک ہی لیکچر پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ امریکی غلامی کو قبول نہ کرنے کا نعرہ لگا کر انہوں نے عوام کو خوب اپنے پیچھے لگایا ہے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کی غلامی بھی امریکی غلامی ہی ہے۔ جب وہ اقتدار میں آئے تھے تو انہون نے کہا تھا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ جب ملک ملک کی خاک چھاننے کے باوجود انہیں امداد نہ ملی تو انہیں مجبوراً آئی ایم ایف کے درِ نیاز پر حاضری دینا پڑی، مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام سو شرائط منوانے کے بعد دیا اور کہا جاتا ہے پی ٹی آئی نے تاریخ کی سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے قرض لیا۔ پہلے تو خان صاحب اس بات کی وضاحت کریں وہ آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے، کیوں اس کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں پہنا، جس کے بعد آج تک ملک کے حالات نہیں سنبھلے۔
امریکہ کا نعرہ حق یا مخالفت میں لگانا پاکستان کی حد تک بہت مشکل ہے جو حمایت کرتے ہیں انہیں جواب میں امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار کے نعرے سننے پڑتے ہیں۔ امریکی پٹھو ہائے ہائے کے نعرے بھی لگتے ہیں، جو امریکہ کی مخالفت کرے وہ بیٹھے بٹھائے ہیرو بن جاتا ہے۔ ہماری مذہبی جماعتوں نے امریکہ مخالف نعرہ بہت استعمال کیا ہے اور اپنی ہر تحریک اسی بنیاد پر منظم کی ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اندر خانے سبھی جماعتیں امریکی سفارت خانے سے رابطے میں رہی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب ایک منتخب حکومت کے سبکدوش ہونے والے وزیراعظم نے امریکہ پر براہ راست الزام لگایا ہے کہ وہ ان کی حکومت ختم کرنے کی سازش میں ملوث ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ امریکہ کی طرف سے بار بار اس الزام کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا جاتا رہا ہے۔ میرا خیال ہے اتنی بار امریکہ نے پہلے کبھی وضاحت نہیں کی، جتنی بار اسے اس الزام کے حوالے سے کرنی پڑ رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان ایک بھرپور عوامی مہم چلا کر اس الزام کو دہرا رہے ہیں۔ امریکیوں کی یہ کمزوری ہے کہ وہ کسی ملک کے عوام کو ناراض یا اپنے مخالف نہیں کرنا چاہتے، وہ ایسا تو کرتے رہے ہیں کہ کسی ملک کے عوام کو اپنی حکومت کے خلاف ابھار کر اس کے خاتمے کی راہ ہموار کریں، مگر ایسا نہیں کرتے کہ عوام کی مرضی و منشا کے خلاف حکومت تبدیل کر دیں۔ شاید اسی لئے وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور ان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، مگر خان صاحب کا یہی چورن تو بک رہا ہے، وہ اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں، سو انہوں نے ایک ہی موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ انہیں امریکیوں نے سازش کرکے حکومت سے نکالا ہے۔ اس سازش میں مقامی کرداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
کپتان نے اپنی کہانی کا تانا بانا اتنی خوبصورت سے بُنا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ کس بات کو غلط اور کسے درست قرار دیا جائے۔ جب کسی کا قتل ہو جائے تو سب سے اہم بات یہی ہوتی ہے کہ قتل ہو گیا ہے۔ باقی سب کچھ اس کے گرد گھومتا ہے۔ یہ تو اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت آناً فاناً گرائی گئی ہے۔ ایک وہ وقت تک جب عمران خان کو پختہ یقین تھا ان کے خلاف کوئی عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی، انہوں نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر شکر بھی ادا کیا تھا کہ یہ سب لوگ اب ان کے ہاتھوں پشیمان ہوں گے۔ ان کی باڈی لینگوئج بتاتی تھی کہ انہیں تحریک عدم اعتماد کی کوئی پروا نہیں، وہ اسے بآسانی ناکام بنا دیں گے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ساری خوش فہمیاں دور ہوتی چلی گئیں، ان کے ہاتھ سے ریت پھسلتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ خود ان کے ارکان اسمبلی ایک ایک کرکے باغی ہوتے چلے گئے۔ ان کی دھمکیاں اور عوامی احتساب کی باتیں کام نہ آئیں۔ پھر اصل جھٹکا خان صاحب کو تب لگا جب ان کے اتحادی بھی انہیں چھوڑ کر جانے لگے۔ یعنی جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگےّ یہ وہ موقع تھا جب ایک سائفر یعنی خط عمران خان کے لئے غیبی امداد کے طورپر سامنے آیا، اس خط کو جلسے میں لہرا کر کپتان نے ایک بار تو سنسنی دوڑا دی، مگر وقت گزر چکا تھا، معاملات طے ہو گئے تھے، انہوں نے بہتیری کوششیں کی کہ اپنے سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے ذریعے کھیل کا پانسہ پلٹنے کی کوشش کریں،
مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ کھیل کا پانسہ پلٹتے دیکھ کر عمران خان نے ایک بیانیہ بنایا، عالمی سازش کا بیانیہ، وہ جانتے تھے حالات جس تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں، اس میں یہ بیانیہ خوب چلے گا۔ سو انہوں نے ایسا ہی کیا اور امریکی مداخلت یا سازش کا بیانیہ اختیار کرکے انہوں نے ایک جذباتی تقریر تیار کی، جسے اب وہ ہر جلسے میں کرتے ہیں اور قوم کی غیرت کو جگا کر اسلام آباد بلانا چاہتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کیا تادیر وہ اپنے اس بیانیے کو مقبول رکھ سکیں گے؟ کیا عوام ان کی اس بات کو تسلیم کرکے تخت یا تختہ کی صورتِ حال پیدا کر دیں گے۔ عمران خان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ فوری انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ یہ وہ کیوں چاہتے ہیں؟ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ اس وقت عوام کے اندر جو جذبہ اسے انتخابات میں ووٹ کے ذریعے عملی شکل دینا چاہتے ہیں، مگر یہ اتنا آسان نہیں۔ ان کے دباؤ کی وجہ سے انتخابات کا فیصلہ نہیں ہوگا۔ وگرنہ تو وہ اپنے مطالبے کی منظوری پر ہی پہلا مرحلہ جیت جائیں گے۔ موجودہ حکومت فوری انتخابات کے حق میں نہیں، خود الیکشن کمیشن بھی یہی کہہ چکا ہے،لیکن کپتان بضد ہیں۔ وہ اگر اسلام آباد کی طرف اپنے لانگ مارچ کو عملی شکل دے دیتے ہیں اور جیسا وہ کہہ رہے لاکھوں افراد ان کی کال پر نکل پڑتے ہیں تو صورت حال سنگین ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا لندن میں جو اجلاس ہوا ہے، اس میں لانگ مارچ کو روکنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
اس سے صورتِ حال کیا رُخ اختیار کرے گی، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم جس تدبیرکاری کے ساتھ حکومت سے نکلنے کے بعد عمران خان نے اپنی اننگز کھیلی ہے، وہ خاصی دھواں دار ہے۔ نوازشریف نے بھی حکومت چھننے کے بعد ایک مہم چلائی تھی، مگر وہ جلد ہی دم توڑ گئی تھی۔ عمران خان نے ابھی تک اپنا ٹمپو برقرار رکھا ہوا ہے۔ انہیں مقبولیت اس لئے بھی مل رہی ہے کہ اتحادی حکومت کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، وہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی اور معاشی صورتِ حال بد سے بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورت میں عمران خان کی وہ تقریر تو بکے گی جو وہ امریکہ کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں صرف امریکہ کی بات نہ ماننے اور روس جانے کی پاداش میں حکومت سے نکالا گیا۔ کیا فی الوقت کپتان کے اس بیانیے کا توڑ کسی کے پاس موجود ہے؟