مولانا محترم! ایسا نہ کرو!

یہ امر تصدیق شدہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ایک منظم اور مضبوط جماعت ہے اس کو ایک بڑے نام کے حوالے سے تقسیم کرنے کی کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی حالانکہ مولانا شیرانی کی اپنی ایک حیثیت ہے اور وہ مولانا فضل الرحمن کی امارت مستحکم کرانے والوں میں پیش پیش تھے پھر نہ معلوم کیا ہوا کہ مولانا شیرانی ناراض ہو گئے اور انہوں نے مولانا سے بغاوت کر دی لیکن یہ زیادہ موثر نہ ہو سکی کہ مولانا شیرانی کے زیادہ اثرات بلوچستان کی ایک پٹی تک ہیں اور باقی ان کے تمام تر آداب و حمایت جمعیت علمائے اسلام کے باعث تھی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) والے حضرات اس میں پشاور چوک والے دھرنے کو شامل کرتے اور اکثر تو نادیدہ ہاتھ پر الزام بھی لگاتے ہیں بہر حال جو بھی ہے یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن اب صاحبزادہ فضل الرحمن نہیں امیر جماعت اور مولانا فضل الرحمن ہیں اس لئے مولانا شیرانی صاحب اور ان کے دوسرے ساتھیوں کو اس پر غور کرنا چاہئے تھا اور جو کچھ کرنا تھا جماعت کے اندر کرتے۔ لیکن وہ تو اس حد تک دور ہوئے کہ تحریک انصاف کے عمران خان سے ہاتھ ملا لیا اس سے وہ حضرات بہت مایوس ہوئے جو اس علیحدگی کو دور کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور یہ کاوش دھری کی دھری رہ گئی اور اب مولانا فضل الرحمن بلا شرکت غیر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ ہیں اور صحت مند رہے تو ہر بار بلا مقابلہ منتخب ہو جائیں گے جیسے اس بار بھی ہوئے تھے۔ اب تو سیاست میں ان کا اپنا ایک مقام اور بڑا نام ہے ان کو 2018ء کے انتخابی عمل کے دوران قومی اسمبلی میں نہ آنے دیا گیا وہ دھاندلی کا الزام تو لگاتے ہیں لیکن اس شخصیت کا ذکر نہیں کرتے جس نے ایسا کیا اگرچہ اب خود تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے شخصی حوالے سے متعدد راز کھولنے اور الزام لگانے کے بعد کئی حقائق آشکار ہو چکے اور یہ امر ثابت ہو گیا کہ ہمارے سیاست دان بھی مقتدر قوتوں کے بغیر سیاست پسند نہیں کرتے اور یہی سہارے ڈھونڈھتے ہیں مولانا فضل الرحمن نے حال ہی میں پشاور دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے یہ ذکر کر دیا کہ ان سے انتخابات کا وعدہ کیا گیا جو وفا نہ ہوا۔ فضل الرحمن اس سب کے باوجود موثررہے اور اب جو ان کا مقام اتحاد کے سربراہ اور پیپلزپارٹی کے اتحادی کا ہے اور ان کی آصف علی زرداری کے ساتھ خوب بنتی ہے وہ میاں محمد نوازشریف اور وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے بھی با اعتماد اور مخلص ساتھی ہیں۔
یہ سب عرض کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت، حمایت اور ان کی ذہانت کو مانتا ہوں اگرچہ اس ذہانت کے ہاتھوں وہ ڈبل کراس بھی ہوئے تاہم ان کی جماعت اور جماعت کی حمایت کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکا اس لئے اگر وہ کوئی بڑا قدم اٹھاتے ہیں تو ان کی جماعت کے اراکین بھی ’فدائین‘ کی حیثیت رکھتے ہیں انہی مولانا فضل الرحمن نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے ایک بڑا فیصلہ کر لیا اور پیر کو سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کا اعلان کر دیا ہے مجھے کوئی شک نہیں مولانا یقیناً ایک بڑا اور موثر اجتماع کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو اس سے کیا ملے گا کیا جو فیصلے ہو چکے وہ تبدیل ہو جائیں گے۔ یا آئندہ فیصلے نہیں ہوں گے؟ ابھی تو پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کے حکم کی خلاف ورزی کا تنازعہ باقی ہے اگرچہ فی الحال اس کی سماعت کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی، لیکن 16مئی کو الیکشن کمیشن کی درخواست برائے التوا الیکشن (14 مئی) کی سماعت ہو گی کہ چیف جسٹس محترم نے سماعت مقرر کر دی اور بنچ وہی مخصوص سہ رکنی ہے جس کی سربراہی وہ خود کریں گے اس درخواست کی سماعت کے دوران یقیناً 14 مئی کے لئے حکم کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا اور اس لئے یہ سماعت بہت اہمیت رکھتی ہے۔
میں نے حقیقت حال پیش کر دی پہلی حیرت میرے لئے یہ ہے کہ مولانا کے اعلان کو پی ڈی ایم سے منسوب کر دیا گیا ہے دوستوں نے غور نہیں کیا کہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مولانا دھرنے کے لئے ضلعی انتظامیہ سے اجازت لیں گے اور خود مولانا نے بھی یہ احتجاج پی ڈی ایم نہیں جمعیت علماء اسلام کا قرار دیا اس لئے اس کی تمام تر ذمہ داری خود انہوں نے قبول کی ہے اور جو بھی اس کے اثرات ہوں گے وہ انہی کے حصے آئیں گے میں تو یہ سب اس توقع کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں کہ مولانا آج یہ فیصلہ واپس لے لیں گے کہ برسر اقتدار طبقات میں سے کسی جماعت کی طرف سے ایسا احتجاج مناسب نہیں لگتا مولانا ذی فہم ہیں ان کو غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ مناسب قدم ہے؟میں نے ابھی حالیہ کالم میں ذوالفقار علی بھٹو کے رویے کا ذکر کیا جب 14 اپریل 1977ء کو انہوں نے جیالوں کو جوابی کارروائی کی اجازت نہ دی اور انکار کر دیا تھا حالانکہ تب بھی بعض حضرات کا خیال تھا کہ کارکنوں کو اجازت دینا چاہئے تھی لیکن بھٹو صاحب نے ایسا نہ کیا اب مولانا یہ قدم اٹھا رہے ہیں وہ نوجوان تھے جب 1977ء میں قومی اتحاد کی تحریک چلی اور ان کے والد مفتی محمود اس اتحاد کے سربراہ تھے، اس لئے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ مولانا فضل الرحمن حقائق سے آگاہ نہیں ہیں اس لئے میری تو خواہش اور گزارش یہی ہے کہ مولانا ایسا نہ کریں اس اقدام سے حالات میں بہتری کا امکان نہیں بلکہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے مولانا خود اپنے اور اتحادیوں کے قول کے مطابق آئین و قانون کی بالا دستی کے لئے لڑ رہے ہیں اور وہ پارلیمینٹ کی بالا دستی بھی چاہتے ہیں کیا ایسے دھرنے سے یہ سب ممکن ہے یا پھر آئین، قانون کے مطابق جدوجہد فائدہ مند ہو گی؟ مولانا کو غور کرنا چاہئے اور کسی بھی حادثے سے بچنا چاہئے میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کا جو رویہ ہے اور جس پر احتجاج کا راستہ اپنایا جا رہا ہے یہ خود حکومت اور اتحادی جماعتوں کی کمزور تر حکمت عملی کی وجہ سے ہے ان کی طرف سے قانونی اور آئینی جنگ کا موثر انتظام نہ کیا گیا۔ ان کی لیگل ٹیم کمزور ہی نہیں کمزور تر ثابت ہوئی ایک طرف بائیکاٹ کیا گیا تو ساتھ ہی اسی عدالت کی رعایت سے مذاکرات بھی کئے جو متوقع طور پر ناکام ثابت ہوئے اس کے علاوہ اتحاد والوں نے دفاع کا حق بھی استعمال نہیں کیا حالانکہ بائیکاٹ بائیکاٹ کھیلنے کے لئے بھی دفاع کے لئے جارحانہ پالیسی اپنائی جا سکتی تھی۔ فاضل جج حضرات کے رویے پر درخواستیں پیش کی جا سکتی تھیں اور بائیکاٹ کرنا ہی تھا تو ایسی درخواستوں پر پر زور موقف اور دلائل کے بعد عدالت میں کرتے میدان خالی چھوڑ دینا تو کوئی حکمت عملی نہیں۔ میں تو اب بھی یہ تجویز کرتا ہوں کہ عدالت عظمٰے یا اسلام آباد ہائی کورٹ اور دوسری عدالتوں نے جو بھی فیصلے دیئے ان کو آئینی اور قانونی طور پر چیلنج کرنے کی ضرورت ہے اور یہ حکمت عملی غور کے بعد بنانا ہو گی میرے خیال میں پی ڈی ایم کی لیگل ٹیم کمزور ہے اسے بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت حکومت نے فوج کا تعاون حاصل کیا امن و امان تو یوں بھی دو روزہ ہنگامہ آرائی کے بعد بتدریج بحال ہو گیا تاہم توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے حوالے سے گرفتاریوں اور مقدمات کا سلسلہ جاری ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ماضی میں بھی یہ سب کچھ ہو چکا اور بالآخر رہائی عمل میں آتی رہی اب بھی یہ امکان موجود ہے اس لئے وفاقی اور صوبائی محکمہ داخلہ اور قانون کو غور کرنا ہوگا کہ ان کی طرف سے جذباتی فیصلے ہوئے ہیں جو ایف آئی آر درج ہوئیں وہ روٹین والی اور گشت کناں جیسے الفاظ ہی سے مزین ہیں حالانکہ توڑ پھوڑ اور شدت جس طرح ہوئی اور جیسے جیسے بیانات منظر پر آئے ان کی رو سے جرائم شدید ہیں قانونی راستہ درست اور موثر ہو تو عدالتوں کے لئے مشکل ہو سکتی ہے اور اب تو عمران خان کو بڑی ریلیف نے یہ ذہن بنا دیا کہ ان کا کچھ نہیں بگڑ سکتا کمزور عقائد اور دین سے بے بہرہ اشرافیہ اسے روحانی کمال بھی قرار دے رہی ہے عمران کو بہت فائدہ ہوا اس لئے یہ سب تسلیم کر کے پھر سے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ہم بار بار ملک کے معاشی اور خارجی حالات کی طرف توجہ دلا چکے اب تو یوں احساس ہوتا ہے کہ شاید ہم ہی کچھ غلط کر رہے ہیں۔