دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاکستان اورافغانستان(5)

دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاکستان اورافغانستان(5)
دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاکستان اورافغانستان(5)

  

اصول اور سیاسی حکمت عملی، دونوں ہی اعتبار سے اس سے بڑا خسارے کا کوئی اور سودا نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخارمحمد چودھری نے اس ہفتے ’قیامِ امن بذریعہ قانون‘ کے موضوع پر ایک نہایت پرمغز خطبہ دیا ہے جس میں ’ دہشت گردی کے نام پر جنگ‘ کی حکمت عملی کے مقابلے میں انصاف، آئین اور قانون کی بالادستی پر مبنی حکمت عملی کا نقشہ پیش کیا ہے۔ پارلیمنٹ نے جو خطوطِ کار طے کیے تھے اور چیف جسٹس نے جن کو اپنے انداز میں بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ اس آگ سے نکلنے اور ملک و قوم کو امن اور خوش حالی کے راستے پر گامزن کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔

ہم جناب چیف جسٹس کے خطاب سے چند اقتباس دینا ضروری سمجھتے ہیں:

اگر پاکستان آج ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہے جن میں امن ایک سہانا خواب لگتاہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ماضی میں کیے گئے گناہوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔ یہ ایک ناگوار حقیقت ہے کہ عرصہ دراز سے ہم نے اپنے آئین کے ساتھ وہ برتاو¿ نہیں کیا جس کا وہ حق دار تھا۔ قانون کی ناتواں حکمرانی نے عسکری نظریات کو جنم دیا۔ جو قومیں آئین کااحترام کرتی اور اسے حقیقی طور پر نافذ کرتی ہیں، وہ چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ آئین شکنی اور قانون کی حکمرانی سے انحراف نے ہمیں بھٹکا دیا اور قانون کی حکمرانی کو پاکستان میں نابود کیا۔ یہی وہ اسباب ہیں جنھوں نے تشدد اور لاقانونیت کی فضا قائم کی۔

ان حقائق کی روشنی میں جناب چیف جسٹس نے پارلیمنٹ سے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے حتمی طور پر عسکری تنظیموں کے بارے میں قانون سازی کرے اور حکومت ضروری اقدام کرے۔ ساتھ ہی انھوں نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر پائی جانے والی بدامنی کا اصل سبب بھی ظلم اوربے انصافی ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ:

پیچیدہ اور جڑوں تک پہنچے ہوئے جھگڑوں نے دہشت گردی، ماورائے عدالت قتل، انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور دیگر برائیوں کو جنم دیا ہے، جو انتہا پسندی اور بنیادپرستی کی افزایش کرتے ہوئے عالمی امن کو مسخ کرنے کی وجہ بن رہی ہیں۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قانون، امن اور تہذیب کی اصولی تعلیمات کو بنیاد بناتے ہوئے افراد اور ریاستوں کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کیا جائے اور ان مواقع کو تلاش کیا جائے جو عالمی امن کے قیام میں مددگار ہوں۔ قانون کی حکمرانی کے ذریعے امن کا قیام چاہے مقامی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر،تنازعات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمیشہ انتہائی مفید ثابت ہوا ہے۔ میری راے میں تنازعات میں ا±لجھے ہوئے لوگوں کے مابین حقیقی امن منصفانہ تصفیے کی بدولت ہی قائم ہوسکتا ہے۔ اور یہ تصفیہ متحارب جماعتوں کے لیے تب ہی قابلِ قبول ہوگا جب انھیں یقین ہو کہ اسے جائز اور قانونی طریقے سے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتاہے کہ کوئی بھی تصفیہ جس کی پشت پر قانون کی ضمانت نہ ہو، وہ دیرپا نہیں ہوگا اور ایسے منصفانہ تصفیے کے بغیر قیامِ امن ناممکن ہے۔

زمینی حقائق، عالمی حالات اور تاریخی تجربات سب کا حتمی تقاضا ہے کہ پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جلد از جلد امریکا کی اس جنگ سے نکلے اور خود امریکا کو دوٹوک انداز میں مشورہ دے کہ جتنی جلد افغانستان سے اپنی اور ناٹوافواج کی واپسی کا اہتمام کرے، یہ جتنا پاکستان اور امریکا کے مفاد میں ہے اتنا ہی افغانستان اور اس پورے علاقے کے لیے بہتر ہے۔ اس کے لیے تمام متعلقہ قوتوں سے مذاکرات کا جلد از جلد آغاز ہونا چاہیے۔ افغانستان میں بیرونی مداخلت کے تمام راستوں کو بند کیا جائے اور افغانستان کی تمام دینی اور سیاسی قوتوں کی باہم مشاورت سے ایک ایسا سیاسی انتظام کیا جائے جسے افغان تسلیم کریں، اور جس کی باگ ڈور بھی انھی کے ہاتھ میں ہو۔ پھر اس کو عملاً نافذ کرنے کا اہتمام بھی کیا جائے۔ پاکستان اس میں ایک شفاف انداز میں شریک ہو اور افغان عوام کی نگاہ میں، امریکا کے مفادات کے نگہبان کی حیثیت سے نہیں، بلکہ پاکستان اور افغانستان دو برادر مسلم ممالک کے مشترک مفادات کا نقیب بنے۔ امن کا راستہ انصاف اور حقوق کے احترام ہی سے مسخر کیا جاسکتا ہے۔

نئے انتخابات : وقت کا تقاضا

آخری بات ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے جس طرح جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور امریکی مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ بڑھ کر آگے بڑھایا، اس سے اسے نہ ملک میں ساکھ (credibility) حاصل ہے اور نہ افغان عوام اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں جلداز جلد نئے انتخابات نہایت شفاف انداز میں منعقد کیے جائیں تاکہ عوام ایک نئی قابلِ اعتماد اور بالغ نظر قیادت کو برسرِاقتدار لاسکیں جو امریکا سے بھی باعزت دوستی کا راستہ اختیار کرے، ملک کی معیشت کو عوام دوستی اور خدمت خلق کی بنیادوں پر استوار کرے، اور افغانستان کے مسئلے کا بھی افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب سیاسی حل نکالنے کی کوشش کرے۔ ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرے جسے پوری قوم کی تائید حاصل ہو۔ اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے ایک اجلاس میں ڈیفنس سیکرٹری جناب لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یٰسین ملک نے پہلی بار کھل کر اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف کی اجازت سے 20اگست2001ءسے شمسی ایئربیس امریکا کے زیراستعمال تھا اور وہ وہاں سے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کرتا رہا۔ اس ایئربیس سے یہ سلسلہ11دسمبر2011ءکو ختم ہوا۔ واضح رہے کہ اس دور میں موجودہ حکومت کے پورے چار سال بھی شامل ہیں۔ جنرل صاحب نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ:the attacks were carried out with the governments approval (ڈان،22 اکتوبر2012ئ)

فوجی اور سیاسی قیادت دونوں اس پورے عرصے میں امریکی ڈرون حملوں میں پاکستانی حکومت کی شراکت اور اجازت کا انکار کرتے رہے اور قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے متعدد اجلاسوں میں، جن میں راقم الحروف شریک تھا، ہرسطح کے ذمہ داروں نے پاکستان کی شراکت داری سے برملا انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ حکومت کی اجازت اور تائید ان حملوں میں شامل نہیں،لیکن اب اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے، جو قوم اور پارلیمنٹ سے دھوکا اور ایک قومی جرم ہے جس کا پارلیمنٹ اور عدالت کو قرارواقعی نوٹس لینا چاہیے، لیکن ان سب حالات کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں جلد از جلد نئے منصفانہ انتخابات کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام ان لوگوں سے نجات پاسکیں جنھوں نے قوم کو امریکا کی غلامی میں دے دیا اور امریکا کی جنگ میں نہ صرف شرکت کی ،بلکہ خود اپنی قوم کے خلاف فوج کشی کی اور امریکا کو خود ہماری اپنی سرزمین سے ہم پر ہی گولہ باری کا موقع دیا اور اس کی سرپرستی کی۔

قوم اور دستور سے غداری اور کس چیز کا نام ہے!

(ختم شد)   ٭

مزید :

کالم -