واہگہ سانحہ کا ذمہ دارکون؟

واہگہ سانحہ کا ذمہ دارکون؟
واہگہ سانحہ کا ذمہ دارکون؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

2نومبر کو واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب کے بعد ہونے والے دھماکے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 70کے قریب افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سو سے زیادہ افراد زخمی ہیں، جن میں سے چند کی حالت تشویشناک ہے۔ تقریباً 10دن گزرنے کے بعد بھی سانحہ کی تفتیش کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکی۔ اطلاعات کے مطابق خود کش بمبار نے اپنا سر بھی دھماکے میں اُڑا دیا جس کی وجہ سے اس کی شناخت میں مشکلات حائل ہیں۔ جائے وقوعہ سے ملنے والے ایک دستی رومال کو ایک اہم نشان قرار دیا جا رہا ہے۔ اس رومال پر لکھی تحریر کے ذریعے خود کش بمبار کو شہادت کی مبارکباد پیش کی گئی ہے۔ یہ تحریر چونکہ پشتو میں ہے، اس لئے یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ خود کش بمبار شاید پشتو بولنے والا فرد ہو۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو ہلاک کر چکا ہو اس کو مبارکباد دینے کی کیا ضرورت ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس سانحے کے ذمہ دار افراد یا تنظیم کی طرف سے یہ ایک ایسی چال ہو جس کا مقصد تفتیش کا رُخ کسی اور طرف موڑنا ہو۔
یہ واقعہ اپنے وقت کے تعین اور محلِ وقوع کے لحاظ سے نہ صرف اہم نتائج کا حامل ہے بلکہ بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔ یہ بات بھی بڑی معنی خیز ہے کہ ماضی کے برعکس اس سانحہ کی ذمہ داری تین مختلف تنظیموں نے قبول کی ہے۔ سب سے پہلے تو ایک کالعدم تنظیم ’ جُند اللہ ‘نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس کے بعد دیگر دو کالعدم تنظیموں یعنی تحریک طالبان پاکستان اور اس سے الگ ہونے والے دھڑے احرار الاسلام نے اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کی۔ احرار الاسلام کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ذرائع ابلاغ کو مہیا کردہ اپنے بیان میںیہ بھی کہا کہ اس سانحہ سے بھارت کو بھی پیغام دینا مقصود ہے کہ اگر وہ بھارت کی سرحد کے قریب یہ دھماکہ کر سکتے ہیں تو پھر بھارت کی سر زمین پر وہ ایسا کر دکھائیں گے۔ یہ کڑیاں اگر ملائی جائیں تو یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اس واقعے کے پیچھے کن عناصر کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جبکہ گزشتہ ایک ماہ سے بھارت کی طرف سے وقفے وقفے سے گولہ باری کا سلسلہ جاری ہو، جوکہ اب تھم چکا ہے۔

احرار الاسلام کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ دیگر دو تنظیموں کی طرف سے کیا گیا دعویٰ بے بنیاد ہے اور یہ کہ وہ بہت جلد اس کی وڈیو بھی جاری کر دیں گے۔ اگرچہ دس دن گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی وڈیو جاری نہیں کی جا سکی۔ تین مختلف تنظیموں کی طرف سے اس سانحے کی ذمہ داری قبول کرنے کی وجہ سے جہاں ایک الجھن پیدا ہوئی ہے، وہیں پر سکیورٹی کے اداروں کی طرف سے اس واقعے کی تفتیش میں مشکلات کا پیدا ہونا بھی ایک لازمی امر ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کام لوگوں تک صحیح معلومات بہم پہنچانا ہوتا ہے تاکہ وہ حالات و واقعات کا تجزیہ کر کے کسی نتیجے تک پہنچ سکیں ۔ اس سانحے کے حوالے سے مختلف تنظیموں کے دعوے تو نشر کر دئیے گئے ہیں، لیکن اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوئی کاوش نہیں کی گئی۔ تحریکِ طالبان پاکستان تو ملک کے مختلف شہروں میں کارروائیاں کرتی رہی ہے اور اس کے اہداف بھی واضح ہیں لیکن جُند اللہ کا معاملہ مختلف ہے اور وہ تفصیلی تجزئے کا متقاضی ہے۔
جُند اللہ کا ذکر ذرائع ابلاغ میں آج سے سات آٹھ سال قبل آنا شروع ہوا۔ اس کی سرگرمیاں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ملحق ایران کے صوبے سیستان تک محدود تھیں۔ اس کا قیام 2003ء میں آیا اور اس کا بانی ایک نوجوان عبد المالک رگی تھا۔ یہ شخص ایرانی بلوچ تھا۔ جُند اللہ کو ایران کے شہر زاہدان میں بہت ساری کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جن میں عوام کے علاوہ ایرانی فوجیوں کی اموات بھی شامل ہیں ایرانی حکومت کے مطابق جُند اللہ کے قیام کے پیچھے امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کا ہاتھ ہے، اس کے بانی عبد المالک رگی نے اپنی گرفتاری سے قبل ایک نجی امریکی ٹیلی ویژن چینل کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس کی تنظیم کا مقصد ایران سے علیحدگی حاصل کرنا نہیں بلکہ ایران کے اندر رہتے ہوئے بلوچوں اور سنی العقیدہ مسلمانوں کیلئے حقوق حاصل کرنا ہے۔ بہت سے ذرائع ابلاغ کے نمائندے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جُند اللہ کے قیام کے پیچھے امریکی سی آئی اے کا ہاتھ تھا۔ جُند اللہ کے بانی عبد المالک رگی کے بھائی، عبد الرؤف رگی نے بھی اپنی موت سے قبل ایرانی حکام کو دئیے گئے اپنے بیان میں اس کی تصدیق کی۔ عبد المالک رگی کی گرفتاری اور پھانسی کے حوالے سے بھی کم از کم دو مختلف آراء موجود تھیں۔ اس کی گرفتاری ایک ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ خلیج کے ایک ملک میں واقع امریکی فوجی اڈے پر رہائش پذیر تھا۔ دبئی سے کرغِزستان جاتے ہوئے اسے ایک جہاز سے گرفتار کیا گیا۔ اس جہاز کو ایرانی فضائیہ کے طیاروں نے زبردستی ایران کی سر زمین پر اتارا اور اس کو گرفتار کر لیا ۔ بعض ذرائع کے مطابق اس پر واز پر اس کی موجودگی کی اطلاع ایرانی حکام کو خود سی آئی اے نے فراہم کی تھی جبکہ دوسرے ذرائع کے مطابق اسے پاکستان حکام نے ایک ہسپتال سے گرفتار کر کے امریکی حکومت کے ایماء سے ایرانی حکام کے حوالے کیا۔ بالآخر ایک عدالت کے فیصلے کی روشنی میں اسے 20جون 2010ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ اس سے قبل اس کے بھائی عبد الحامد رگی کو بھی مئی 2010میں پھانسی پر لٹکا یا جا چکا تھا۔ اسی طرح ان کا تیسرا بھائی عبد الغفور رگی اپنے آپ کو 2008ء میں ایک کار کے ذریعے خود کش دھماکے میں ہلاک کر چکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے چوتھے بھائی عبد الرؤف رگی نے جُند اللہ کی قیادت سنبھالی۔ لیکن اندرونی اختلافات کی وجہ سے پہلے جیش العدل قائم کی پھر جیش النصر۔ عبد الرؤف رگی کے بارے میں پہلے یہ کہا گیا کہ اسے پاکستانی حکام نے 2010ء میں گرفتار کر لیا تھا، لیکن پھر یہ کہا گیا کہ وہ مئی 2014ء میں کوئٹہ میں پاکستانی ایجنسیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا۔
حقائق کچھ بھی ہوں ، لیکن یہ بات طے ہے کہ جُند اللہ ایک ایسی تنظیم تھی جس کی سرگرمیاں ایران تک محدود تھیں۔ بعد میں نہ صرف اسے طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والی تنظیم کے طور پر متعارف کرایا گیا بلکہ اس کے ذمے ایسی کارروائیاں بھی ڈالی گئیں جو پاکستان کے اندر وقوع پذیر ہوئیں اور جن کا نشانہ اہلِ تشیع تھے۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ اس نے ایسی کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے، یااس کے کھاتے میں ایسی کارروائی ڈالی جا رہی ہے جس کے اثرات پاک بھارت تعلقات پر پڑنے کے امکانات واضح تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس تنظیم کو قائم کرنے والے اداروں نے موجودہ پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں یہ کارروائی کرنے کی ذمہ داری سونپی ہو۔

مزید :

کالم -