دنیا مفادات کی ، لندن میں شدید مظاہرے، پھر بھی معاہدے

دنیا مفادات کی ، لندن میں شدید مظاہرے، پھر بھی معاہدے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ چودھری خادم حسین

بھارت میں بی جے پی کی حکومت کوڈیڑھ سال سے زیادہ ہو چکا۔ وزیراعظم مودی اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حق خودارادیت کی تحریک بڑھی ہے تو بھارتی فوج کے مظالم بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے اندر اقلیتوں پر مظالم شروع ہیں لیکن دنیا کو یہ نظر نہیں آ رہا، دنیا کے ممالک مفاد کی سیاست کرتے ہیں ان کے نزدیک بھارت ایک بڑا اور اسی حساب سے بڑی مارکیٹ کا حامل ملک ہے اس لئے امریکہ ہو، برطانیہ یا پھر فرانس ان سب کا جھکاؤ بھارت ہی کی طرف ہوتا ہے کہ بڑے ملک کی بڑی معیشت کے حوالے سے اقتصادی مفادات بھی وابستہ ہیں ۔ بھارت کے ساتھ امریکہ ایٹمی معاہدہ کر چکا اور اب برطانیہ نے بھی اعلان کر دیا ہے۔ فرانس بھی اس پر آمادہ ہے۔ صرف چین ایسا ملک ہے جو پاکستان کی دوستی کے علاوہ اپنے قومی منصوبے کی وجہ سے بھی بھارت کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے باوجود نہ تو نیوکلیئر معاہدے کا حامی ہے اور نہ اسے بھارت کی دنیا میں برابری قبول ہے۔
دنیا کے اپنے اپنے مفادات ہیں، پاکستان کو اس خطے میں جو اہمیت حاصل ہے اس سے بھی کسی کو انکار نہیں لیکن یہ اتحادی تسلیم کر لینے کے بعد بھی مفادات کے حوالے سے بھارت ہی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، اب برطانیہ ہی کا مسئلہ ہے۔ مودی جب دورے پر وہاں پہنچے تو کشمیریوں ، سکھوں، دلتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی مودی مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ برطانیہ اور امریکہ میں ایسے مظاہروں کی کم ہی مثال ملتی ہے یہ مشترکہ مظاہرہ اتنا بھرپور تھا کہ مودی 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں سیدھے راستے سے نہیں آ سکے اور ان کو پچھلے دروازے کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔
اتنی شدت اور بھارت کے کھلم کھلا انسانی حقوق کے مخالف رویے کے باوجود برطانوی حکومت متاثر نہیں ہوئی حالانکہ 46سے زیادہ ایم پیز نے لکھ کر بھی مطالبہ کیا کہ مودی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر باز پرس کی جائے۔ لیکن ہوا کیا، ڈیوڈ کیمرون نے بھارت کے ساتھ نیوکلیئر اور سرمایہ کاری سمیت متعدد معاہدوں پر دستخط کر دیئے جبکہ انسانی حقوق کے حوالے سے باز پرس تو دور کی بات پوچھ گچھ بھی نہیں کی۔ مودی کو بہرحال اس آزاد معاشرے میں میڈیا کے سخت سوالوں کا سامنا بھی کرنا پڑا اور ان کے خلاف مظاہرے بھی بڑے ہوئے۔
ان حالات میں کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ ہماری پوزیشن کیا ہے اور ہمارا دفتر خارجہ اس حوالے سے کیا کام کررہا ہے۔ ہماری حکومت امریکہ سے نیوکلیئر معاہدے کا مطالبہ کرنے کے باوجود یہ بات نہیں منوا سکی۔ الٹا ہم اپنے اندر آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے حوالے سے خطابات میں الجھ کر بنے ہوئے تاثر کو خراب کررہے ہیں۔ ایک ٹیلی ویژن کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ جنرل راحیل شریف نے قومی ایکشن پلان کے اجلاس میں بھی یہ شکوے کئے تھے اگر یہ درست ہے (اس کی تردید نہیں ہوئی) تو پھر آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں یہ ذکر نہیں ہونا چاہیے تھا اور اگر یہ شکوہ بھری محفل میں بھی سن لیا گیا تو پھر پریس ریلیز کے جواب میں شدید ردعمل کی ضرورت نہیں، اب بھی وقت کا تقاضا ’’ایک پیج‘‘ کا ہی ہے کہ دنیا اپنے مفادات دیکھتی ہے تو ہمیں بھی دیکھنا ہوں گے اس بحث کو ختم ہونا چاہیے۔
صرف یہی نہیں، ہم ایک قومی لائحہ عمل اور پالیسی نہیں بنا سکے کہ اس کی اشد ضرورت ہے اور خورشید شاہ کی اس بات کی تائید ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان سطور پر کم از کم قومی مفادات اور نکات پر ایک متفقہ قومی پالیسی تشکیل دینے کی تجویز دی جاتی رہی ہے۔ یہ کام ہونا چاہیے۔ اقتدار کی سیاست اپنی جگہ قومی مفادات اپنی جگہ، بہتر عمل کہ اب بھی ایسا کر لیا جائے۔
وفاقی حکومت کے ایک وزیر جو ریٹائر لیفٹیننٹ جنرل ہیں نے کورکمانڈر میٹنگ کے حوالے سے سرکاری ترجمان سے الگ موقف اپنا لیا اور جوابی طور پر رخ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی طرف پھیر دیا، جہاں اب بلدیاتی انتخابات کے اگلے دو مراحل مکمل ہونے والے ہیں، ایسے میں جو سیاسی کشمکش سندھ میں ہے اس میں ذوالفقار مرزا اور فنکشنل لیگ کی پرزور سرگرمیاں بھی اشارے دیتی ہیں لیکن پیپلزپارٹی کو عوامی حمائت پر اعتماد ہے بلاول بھٹو زرداری دیر بعد کسی تقریب میں بولے ! اور جو کچھ انہوں نے کہا اس سے مترشح ہوتا ہے کہ ان کی آئندہ پالیسی جارحانہ ہوگی اور وہ اب والد کی مفاہمتی پالیسی سے باہر آ رہے ہیں، بہرحال ایسی سیاسی محاذ آرائی اچھی نہیں۔ لیکن برداشت جب ہوگی جب قومی پالیسی پر اتفاق رائے ہو جائے اور اخلاق کو مدنظر رکھا جائے کہ سیاست اور وہ بھی جمہوری سیاست میں یہ ضروری ہے۔

مزید :

تجزیہ -