چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا عوامی شکایات خود سننے کا خوش آئند فیصلہ
بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے جو دیمک کی طرح ملک کے وسائل کو جہاں کم کرتی ہے وہاں میرٹ اور شفافیت کا استحصال کرتے ہوئے حق دار اور میرٹ پر اترنے والے افراد کو ان کے جائز حق سے محروم کرتی ہے۔
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جناب جسٹس جاوید اقبال بے داغ ماضی، دیانتدار، قابل، محبت وطن، میرٹ، شفافیت، قانون اور انصاف کی پاسداری کرنے، اﷲ تعالیٰ اور رسول پاک حضرت محمدؐ پختہ یقین رکھنے والے اور اچھی شہرت رکھنے والے انسان کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر نیب کے چیئرمین کے طور پر کیا جس کو نہ صرف معاشرے کے تمام طبقوں نے نہ صرف سراہا بلکہ پورے پاکستان کی نظریں جناب جسٹس جاوید اقبال چیئرمین نیب پر آ کر نہ صرف ٹھہر گئیں بلکہ ان کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ پاکستان جس کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی کا خاتمہ ہے اس کے لئے لیڈر آف دی ہاؤس اور لیڈر آف دی اپوزیشن نے جو فیصلہ انتہائی سوچ بچار اور مشاورت سے کیا ہے وہ نہ صرف درست ہے بلکہ جناب جسٹس جاوید اقبال چیئرمین نیب ہی واحد شخصیت ہیں جو نہ صرف دباؤ اور سفارش کی پرواہ کئے بغیر بدعنوانی کے خاتمے کے لئے زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے ماضی میں چاہے ایبٹ آباد کمیشن ہو یا لاپتہ افراد کا کمیشن ہو نہ صرف آپ نے محنت، ایمانداری اور ’’انصاف سب کے لئے‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف 2700 سے زائد لاپتہ افراد کو دن رات کی پرواہ کئے بغیر اپنے گھروں میں واپس پہنچانے میں مکمل طور پر اپنی توانائیاں صرف کیں بلکہ قائم مقام چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدہ پر کام کرتے ہوئے نہ صرف بلا تفریق انصاف سب کے لئے کی پالیسی پر عمل کیا اور ایسے تاریخی فیصلے لکھے جو قانون کی کتابوں میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔
جناب جسٹس جاوید اقبال نے جب چیئرمین نیب کے منصب کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو آپ نے نیب کے تمام افسران/اہلکاروں کو اپنے پہلے خطاب میں جو الفاظ ادا کئے وہ صرف الفاظ نہیں تھے بلکہ ان کا مستقبل کا لائحہ عمل تھا جو انہوں نے انتہائی آسان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر پہلے خود عمل کرتے ہوئے نیب کے تمام افسران/اہلکاروں سے نہ صرف اردو میں خطاب کیا بلکہ واضح الفاظ میں اس بات کی ہدایت کی کہ نیب میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر اب من و عن عمل کیا جائے گا۔
نیب میں ترقی، تعیناتی، سنیارٹی، پرفارمنس/کارکردگی کو اب صرف اور صرف قانون کے مطابق دیکھا جائے گا۔ صوبوں کے کوٹہ پر سختی سے عمل کیا جائے گا اور کسی صوبہ سے نا انصافی نہیں ہوگی۔ نااہل بدعنوان اور بری کارکردگی رکھنے والے افسران/اہلکاروں کی نیب میں کوئی جگہ نہیں ہوگی بلکہ محنتی، دیانتدار، قابل اور فرض شناس افسران اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جہاں قانون ہمیں اختیار دیتا ہے وہاں قانون ہمیں اختیارات کے غلط استعمال سے روکتا اور خود احتسابی کا درس دیتا ہے۔
جناب جسٹس جاوید اقبال چیئرمین قومی احتساب بیورو نے اپنے پہلے خطاب میں سمندر کو کوزے میں نہ صرف بند کر دیا بلکہ انہوں نے اپنی پالیسی/لائحہ عمل کے خدوخال انتہائی آسان الفاظ میں افسران/اہلکاروں تک نہ صرف پہنچا دیئے بلکہ ٹیم ورک کو نیب میں فروغ دینے کی تلقین کرتے ہوئے تمام افسروں/اہلکاروں کو ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کو قومی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے نئے جذبے، توانائی، محنت، لگن، دل جمعی، میرٹ، شفافیت اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فرائض سرانجام دینے کی نہ صرف تلقین کی بلکہ احتساب کے لئے نئی پالیسی/لائحہ عمل بھی واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اپنے کام میں مزید بہتری لائیں گے، قانون کے مطابق نیب میں پیش ہونے والے تمام افسران سے خوش اخلاقی اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام اپنی بدعنوانی سے متعلق شکایات لے کر نیب ہیڈ کوارٹرز اور نیب کے تمام علاقائی دفاتر کا دورہ نہ کریں۔ اس سے نہ صرف نیب کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا بلکہ عوام کا اعتماد بھی نیب پر بڑھے گا کیونکہ اب نیب کے افسران/پراسیکیوٹرز کی استعداد کو نہ صرف جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے بلکہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق نیب کے پاس ایک جدید فرانزک سائنس لیبارٹری بھی موجود ہے۔
اب نہ صرف مفرور اور اشتہاری ملزمان کو پکڑنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے بلکہ تمام معزز عدالتوں میں نیب کے انوسٹی گیشن افسران اور پراسیکیوٹرز پوری تیاری کے ساتھ مزید موثر اندازسے اپنے مقدمات کی پیروی کریں گے بلکہ بدعنوان عناصر کے خلاف اب قانون کے مطابق انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا اور نیب میں صرف اور صرف کام، کام اور کام ہوگا کیونکہ نیب نہ تو کسی کے خلاف ذاتی انتقام اور رنجش کے لئے نہیں بنا بلکہ بدعنوان عناصر سے عوام کی لوٹی گئی رقم برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کروانے کے ساتھ ساتھ بدعنوان عناصر کو قانون کے مطابق مجاز معزز عدالتوں سے نہ دلوائی جا سکے۔
قومی احتساب بیورو کیچیئرمین جناب جسٹس جاوید اقبال نے چند روز پہلے جو الفاظ کہے اور جو میڈیا میں شائع ہوئے ان پر بلا تفریق زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف اپنے دفتر کے دروازے نیب کے افسران/اہلکاروں کی جائز شکایات کے لئے کھول دیئے ہیں بلکہ ہر ماہ کی آخری جمعرات کو دو بجے سے لے کر چار بجے سہ پہر تک عوام کی بدعنوانی سے متعلق شکایات نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام اباد میں خود سننے کا جو فیصلہ کیا ہے جس میں نیب کے تمام سینئر افسران بھی موجود ہوں گے، یہ ایک احسن اور خوش آئند اقدام ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے جس کو ہر محب وطن شہری نے سراہا ہے کیونکہ چیئرمین نیب صاحب جناب جسٹس جاوید اقبال نے ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے نہ صرف عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے جس سے نہ صرف عوام کی بدعنوانی سے متعلق جائز شکایات کے ازالہ کے لئے مدد ملے گی بلکہ نیب کی کارکردگی میں مزید اضافہ ہوگا اور لوگوں کا نیب پر اعتماد بھی بڑھے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب ملک سے نہ صرف بدعنوانی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہیں بلکہ انہوں نے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ جو بات کہتے ہیں اس پر قانون کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں۔ قومیں افراد سے بنتی ہیں اگر افراد اپنی تقدیر بدلنے کی خود کوشش کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کرپشن فری ملک نہ بنے بات صرف اور صرف عدل کے زنجیر ہلانے کی ہے جو کہ جناب جسٹس جاوید اقبال چیئرمین نیب نے عوام کی بدعنوانی سے متعلق شکایات خود سننے کے فیصلے کے بعد ہلا دی ہے۔ پوری پاکستان کی دعائیں جناب جسٹس جاوید اقبال چیئرمین نیب کے ساتھ ہیں جنہوں نے عملی طور پر ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے نیب کو ایک متحرک ادارہ بنایا ہے جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔