سڑکوں پر خوار ہونے کے بعد ایک کالم

سڑکوں پر خوار ہونے کے بعد ایک کالم
 سڑکوں پر خوار ہونے کے بعد ایک کالم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گاڑیوں کا ایک سمندر میرے ارد گرد موجزن تھا ، ہارن بج رہے تھے ، ٹریفک اہلکار اسے قابو کرنے میں ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔ مجھے لاہور سے باہر جانا تھا اور اس کے لئے میرے پاس روٹ ریلوے اسٹیشن، دو موریہ پل، بادامی باغ ، راوی پل اور امامیہ کالونی کا تھا، مجھے جی ٹی روڈ پر پہنچنا تھا اور میں ان لوگوں کو یاد کر رہا تھا جو لاہور سمیت پنجاب میں سڑکوں کی تعمیر اور توسیع کی مختلف وجوہات کی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔ لاہور میں بہت ساری سڑکیں سگنل فری کوریڈور میں بدل چکی ہیں مگر اس کے بعد بھی ہر جگہ رش ہے، گاڑیوں سے گاڑیاں جڑی ہوئی ہیں، کسی ایک جگہ بھی سگنل تھوڑی دیر کے لئے بند ہوجائے تو لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور جب بھی ویک اینڈ یا دن دیہاڑ ہو تو لاہور ایک قید خانے میں بدل جاتا ہے جس کے اندر یا باہر جانا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ جی ٹی روڈ کی بجائے رنگ روڈ یا موٹر وے پر صورتحال نسبتا بہتر ہے مگر جمعے، ہفتے اور اتوار کی رات لاہور میں داخل ہونے کے لئے آپ کو بہت سارا اضافی وقت درکار ہے۔


میں نے لاہور پریس کلب سے آگے ایمپریس روڈ پر ٹریفک کا ہجوم دیکھاکیونکہ ریلوے اسٹیشن پر ٹریفک بلاک ہونے کی وجہ سے نکلسن روڈ یعنی بوہڑ والے چوک پر ہی ٹریفک روکی جا رہی تھی اور اس سے آگے ریلوے اسٹیشن اور دوموریہ پل تک سڑک بری طرح بلاک تھی، ٹریفک یا تو بلاک تھی یا چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہی تھی۔بادامی باغ سے آگے نئی بننے والی کھلی ڈلی سڑک پرصورتحال کچھ بہتر تھی، اوور ہیڈ برج پر ٹریفک پولیس کے اہلکاروں نے ناکہ لگا کر اور کچھ گاڑیاں روک کر مشکل پیدا کر رکھی تھی اور اس سے آگے راوی کے پل پردوبارہ ٹریفک جام تھی جس کی وجہ شاہدرہ چوک تھا۔ آپ شاہدرہ چوک تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو اس سے آگے امامیہ کالونی تک مزید مشکل مرحلے درپیش ہوں گے۔ بہت عرصہ پہلے سنا تھا کہ امامیہ کالونی سے ایک اوورہیڈ برج بنایا جائے گا جو ریلوے کراسنگ اور شاہدرہ چوک کراس کرتے ہوئے راوی کے پل پر اترے گا جس سے لاہور میں جی ٹی روڈ کے ذریعے داخلہ بہت آسان ہوجائے گا۔شاہدرہ میں بہت بڑا مسئلہ تجاوزات اور موٹرسائیکل رکشے ہیں۔ سلوموونگ ٹریفک کے لئے بننے والی سائیڈ روڈز پوری طرح ریڑھی بانوں کے قبضے میں ہیں جبکہ مین جی ٹی روڈ پر بھی موٹرسائیکل رکشوں کی وجہ سے ٹریفک بلاک رہتی ہے۔ مجھے لاہور پریس کلب سے کالاشاہ کاکو پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹے سے بھی زائد وقت لگ گیا جو عمومی طور پر بیس منٹ سے زائد کا راستہ ہرگز نہیں ہے۔میں نے جب کالاشاہ کاکو انٹر چینج کے پاس جا کے تیس روپے ٹیکس ادا کیا تو سوچا کہ یہاں حکومت کو مجھ سے ٹیکس لینے کی بجائے وقت اور پٹرول ضائع کرنے پر ہرجانہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ میں کسی دوسرے ملک کے شہری سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہوں تو کم از کم دوسرے ملکوں کے برابر سہولتوں کابھی حق دار ہوں۔ میں پیسے کماتا ہوں تو ٹیکس دیتا ہوں،ان پیسوں سے گاڑی خریدتا ہوں تو ٹیکس دیتا ہوں، اس گاڑی کو رجسٹرڈ کرواتا ہوں تو ٹیکس دیتا ہوں، اس میں پٹرول ڈلواتا ہوں توٹیکس ادا کرتا ہوں،ہر برس کا ٹوکن ٹیکس الگ ہے اور یہ تمام ٹیکس الگ ہیں جو میں لاہور سے راولپنڈی جاتے ہوئے بدترین نظم و نسق والی جی ٹی روڈ پر دو سے اڑھائی سو روپوں تک ادا کرتا ہوں۔


اس علاقے سے ہمارے سابقہ دوست خواجہ عمران نذیر رکن پنجاب اسمبلی ہیں، اب وہ ماشا ء اللہ صوبے کے وزیر صحت کے طور پر ذمہ داریاں بھی سرانجام دے رہے ہیں اور حکمران جماعت کے صوبائی دارالحکومت میں جنرل سیکرٹری کے طور پر بھی، مجھے یاد ہے کہ میں نے ان سے بہت عرصہ پہلے ایک پروگرام میں گزارش کی تھی اوراس کے نتیجے میں شاہدرہ میں سڑکوں پر سے قبضے چھڑواتے ہوئے ماڈل ریڑھی بازار بنانے کی بات کی گئی تھی مگر اب وہاں دوبارہ قبضہ گروپ فعال ہیں۔ حکومت ان ریڑھی بانوں کو قبضہ گروپ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے، وہ کہتی ہے کہ یہ ریڑھی بان غریب کاروباری افراد ہیں جو یہاں سے چند سو روپے روزانہ کماکے لے جاتے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں مگر میں غربت بارے اس دلیل کو اس وجہ سے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ کل کلاں سڑکیں بند کرنے کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام کو تسلیم کرنے کے بعد چوری ، ڈاکے اور قتل و غارت میں بھی غربت کو بطور جواز تسلیم کرنا شروع کر دیں گے تو پورا معاشرہ تباہ ہو کے رہ جائے گا۔ حکومت کو ان لوگوں کو کاروبار کے لئے متبادل جگہ فراہم کرنی چاہئے اور سڑکوں پر قبضوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ میں نے شہر کے اندر بھی بے شمار سڑکیں دیکھی ہیں جو گاڑیوں کی نقل وحمل کے لئے ہوتی ہیں او ران کے فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے مگر وہاں بھی کاروبار ہو رہے ہوتے ہیں، ہوٹلوں اور ریڑھی والوں نے کرسیاں اور میزیں بنا کے روکے ہوتے ہیں جبکہ بیشتر جگہوں پر ان کی دکانیں اندر سے خالی ہوتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ضرور صوبائی وزیر کی بات سنے گی اگر وہ اپنے حلقے میں داخل ہونے والی ملک کی اہم ترین سڑک کی کارپیٹنگ اور امامیہ کالونی کے مقام سے کھلے کر دینے کا کہیں گے، انہیں موٹرسائیکل رکشوں کو بھی مین جی ٹی روڈ کی بجائے سائیڈ پر بنی ہوئی سڑکوں پر چلنے کا پابند بنانا ہو گا۔


میرے ذہن میں حکومت کا تصور قانون کی عملداری سے مشروط ہے اور قانون کی بہترین عملداری آپ کو سڑکوں پر ہی نظر �آسکتی ہے۔ اگر آپ کی سڑکوں پر قانون کی حاکمیت نہیں ہے تو پھر چاردیواری کے اندر تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور یہ چاردیواری جتنی اونچی اور محفوظ ہوگی، قانون وہاں داخل ہوتے ہوئے اتنا ہی زیادہ ہراساں ہو گا۔میں نے پاکستان کی سب سے بڑی اور مصروف سڑک جی ٹی روڈ پر قانون کو ٹائروں تلے روندے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ٹرکوں سمیت سلو موونگ وہیکلز بغیر کسی ڈر اور خوف کے اوورٹیکنگ لین میں چلائی جاتی ہیں ۔ موٹرسائیکل رکشوں کو گرینڈ ٹرنک روڈ پر آنے سے روکنے کے لئے کہیں بھی کوئی رکاوٹ نہیں، مجھے اپنا ایک تجربہ یاد ہے کہ میں نے جی ٹی رود پر سفر کرتے ہوئے ایک ٹرک ڈرائیور کی انتہائی خطرناک ڈرائیونگ بارے ون تھری زیرو پر شکایت کی تو آپریٹر نے کال ریکارڈ ہونے کے میسج کے باوجود مجھے کہا کہ یہ جی ٹی روڈ ہے اور اس پر اس طرح تو ہو گا اور اسی طرح میں نے موٹر وے پر فجر کے وقت ایک بس کو کم و بیش ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے جاتے ہوئے دیکھا تو اس کے بارے رپورٹ کیا مگر مجھے کچھ علم نہ ہوا کہ کہیں کوئی کارروائی ہوئی ہے یا نہیں۔جی ٹی روڈ پر ڈائیورشنز کا ڈیزائن بھی انتہائی بے ہودہ ہے، ہر ڈائیورشن سے پہلے ایک محفوظ یوٹرن کو یقینی بنانے کے لئے اوورٹیکنگ والی لین کو ختم کر دیا جاتا ہے جس سے خطرات جنم لیتے ہیں۔


بنیادی طور پر لاہور کے دونوں اہم ترین ایگزٹ ( یا انٹری )پوائنٹس پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔آپ نے راوی پل اور امامیہ کالونی سے گزرتے ہوئے گوجرانوالہ کی طرف جانا ہو یا آپ کا رخ ملتان رڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ کے راستے ساہیوال اور ملتان کی طرف ہو تو یہاں سڑک بہت دور تک محض دو رویہ ہے ۔ ٹریفک پولیس نے بہت سارے مقامات پر ڈائیورشنز کوبند کر رکھا ہے مگر جہاں بھی ڈائیورشن دی گئی ہے ہر اس مقام پر ٹریفک بلاک ہوجاتی ہے۔میں ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اورتفریحی مقامات کی تعمیر و ترقی کا مخالف نہیں ہوں مگر میرا سوال یہ ہے کہ سڑکوں کی تعمیر کی مخالفت کے ذریعے سیاست چمکانے والے خود تو سرکاری ہیلی کاپٹروں کو رکشے کی طرح استعمال کرتے ہوئے اڑے پھرتے ہیں، وہ اوران کے پیٹی بند بھائی ہمارے زیر استعمال سڑکیں بند کر کے بیٹھے رہتے ہیں ، انہیں خود کہیں آنا جانا ہو تو ان کے گاڑیوں کے آگے پیچھے پولیس کی ہوٹر بجاتی گاڑیاں ہم جیسوں کو سائیڈ پر لگا کے انہیں راستے فراہم کرتی ہیں اور میں پاکستان کا ایک عام شہری انہی ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور دیگر مقامات پرجانے کے لئے آزادانہ نقل و حمل کا قانونی حق مانگتا ہوں تو تنقید کا نشانہ بنتا ہوں۔

مزید :

کالم -