اوستہ محمد کے طالب علم اپنے ہی سکول کے چوکیدار
بلوچستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر اوستہ محمد کا سب سے بڑااور قدیمی سرکاری ہائی اسکول اوستہ محمدہے جہاں ایک ہزار سے زاید بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سکول بنیادی سہولیات سے محروم تو ہے مگر سکول کے بچے پورا ماہ چوکیدار بنے ہوتے ہیں۔ کیا ایسے پڑھے گا بلوچستان ۔ کیا ایسے بدلے گا بلوچستان کا تعلیمی نظام ۔ حکومت بلوچستان کا نعرہ ہے ’’ پڑھے گا بلوچستان تو بدلے گا بلوچستان‘‘ مگر افسوس کہ بلوچستان کے سکولوں کے بچے پڑھائی کی بجائے چوکیداری کرتے نطر آتے ہیں ۔
دادا جان کہتے تھے اگر اولاد کو تحفہ نہ دیا جائے تو وہ کچھ دیر روئے گی مگر علم نہ دیا جائے تو وہ عمر بھر روئے گی۔ جو والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں لیکن وہاں پہ سکول ٹیچر طالب علموں کو پڑھانے کے بجائے چوکیدار بنا دیں تو یہ انتہائی افسوس ناک اور باعث شرمندگی عمل سمجھا جائے گا۔
طالب علموں کا کہنا ہے کہ ہر روز دو بچے مین گیٹ پہ چوکیدار کی ڈیوٹی دیتے ہیں اور پورے ماہ تک طالب علم ہی مین گیٹ پہ کھڑے ہوتے ہیں۔ چاہے سردی ہو یا گرمی وہ لوگ یہ کام احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں لیکنوہ اپنے والدین کو اس کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ ویسے بھی سکول کے چوکیدار کا کچھ پتا نہیں کہ وہ خودکہاں ہے اور کون ہے ؟طالب علموں کو یاد نہیں کب سے سکول کی چوکیداری بچوں سے ہی کرائی جارہی ہے ،چوکیداری کرنے والے بچوں کو بعد میں اس دن کا سبق یاد کرنے میں بڑی دشواری ہوتی ہے ۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کے سرکاری سکولوں کا خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں کیاحال ہوگا۔بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ انہیں ابھی تک ٹاٹ اور تختیوں پر پڑھنا پڑتا ہے۔آج کے دور میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایٹمی پاکستان میں تخت و تاج کی جنگ لڑنے والوں کے ہاں تختیوں پر تعلیم جاری ہے۔یہ کیسی ترقی ہے کہ عوام خوشحال ہونے کی بجائے مہنگائی میں پس رہی ہے اور تعلیم انڈسٹری بن گئی ہے۔جہاں تعلیم کاروبار بن جاتی ہے وہاں پھرغریب طالب علموں کو سبق کی بجائے چوکیداری ہی کرنی ہوتی ہے۔ نہ یقین ہوتو کبھی اوستہ محمد آکر دیکھ لیں ۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔