میری ڈھولنوال لاہور میں دودھ کی دکان ہے۔کئی سال سے میں یہ کاروبار کررہا ہوں۔جب میں نے یہاں دکان بنائی تو یہ خالی مکان تھا جس کو میں نے خرید کرایک بڑی دکان بنا لی ۔اس وقت مجھے کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ یہ جگہ ’’پکی ‘‘(آسیب زدہ)ہے اس لئے تم ختم شریف کروالو۔میرا نظریہ ذرا مختلف تھا ۔اس لئے میں نے باقاعدہ دیگیں اور ختم وغیرہ کا اہتمام تو نہیں کیا تھا البتہ غریب لوگوں اور آس پاس والوں کو مٹھائی کھلا دی تھی۔
جس دن دکان پر پہلی بار دودھ بیچا گیا وہ جمعرات کاروز تھا ۔سارا دن دودھ بیچا ،لوگوں نے پسند کیا کہ اتنا خالص ۔ رات کو دودھ گرم کیا گیا اور دہی کے پچاس کونڈے رکھ دئے گئے تاکہ صبح سویرے تک دہی جم جائے ۔صبح آکر دکان کھولی تو مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔دیکھا تو سب کونڈے خالی تھے ۔کسی میں بھی دودھ نہیں تھا،لڑکوں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے رات کو دہی جمایا تھا تو سب نے قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ وہ ہوش حواس کے ساتھ دہی جما کر گئے ہیں ۔ میں بہت پریشان ہوا۔ایک ملازم بولا’’ پہلوان جی غصہ نہ کرنا ۔یہ کام کسی جنّ کا ہوسکتا ہے‘‘
’’ جا دفع ہوجا۔ جنّ تیرے مامے کا پتر ہے جس نے تجھے بتایا ہے۔‘‘ میں نے اسے جھڑک دیا ’’ کوئی اور گڑبڑہوئی لگتی ہے‘‘ دکان کی دیواریں سلامت تھیں ، شٹر پر بھی تالے لگے تھے۔کوئی باہر سے نہیں آسکتاتھا ۔حیرت تو تھی کہ دہی کے کونڈے کہاں جاسکتے ہیں،یہ کوئی اڑنے والی چیز تو تھی نہیں۔اس بات کا شور بھی مچ گیا کہ پہلوان کی دکان پر کوئی دہی کے کونڈے چٹ کرگیا ہے ۔خیر وہ دن تو جیسے تیسے گزرا ،رات کو پھر تازہ دودھ آیاتو پھر کونڈے رکھ دئے گئے اور میں نے یہ کام کیا کہ اس رات سے دو بندوں کو دکان کے اندر ہی سونے کی ہدایت کردی۔اگلے دن دکان پر گیا تو تازہ دہی کونڈوں میں موجود تھا ۔ میں نے ملازم سے طنزیہ کہا’’ ہاں بھئی موچھے ،کتھے گئے تیرے جنّ شن ‘‘۔
یونہی پورا ہفتہ گزرگیا۔اور اگلی جمعرات کو بھی یہی واقعہ رونما ہوگیا حالانکہ اس رات بھی دونوں ملازم دکان کے اندر سوئے تھے۔وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے رہے کہ انہوں نے رات کو کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس نے آکر سارا دودھ پی لیا ہو۔
یہ بات انوکھی تھی ۔باعث حیرت اور خوف کی علامت تھی۔
میرا وہی ملازم بولا’’ پہلوان جی ہوگیا نہ پھرکام ،پچھلی جمعرات کو کونڈے خالی ہوگئے تھے۔‘‘ میں نے اسے تشویش بھری نظروں سے دیکھا۔کاروبار خراب ہونے لگے تو بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوجاتا ہے۔
’’ میرے ایک جاننے والے پیر صاحب ہیں۔بولیں تو ان سے بات کروں‘‘ میں جو پیروں کے قصے سن سن کر ان سے خائف تھا ،مجبوری میں ہاں میں سر ہلانے پر مجبور ہوگیا۔اس نے اپنے پیر صاحب سے میری بات کرائی اور پھر میں نے سواری بھیج کر انہیں دکان پر ہی بلالیا۔وہ سادہ سے کپڑوں میں ملبوس تھے۔مٹھی بھر داڑھی،ماتھے پر محراب ۔مجھے اچھے لگے۔انہوں نے کوئی اگربتی جلائی نہ کوئی تعویذدیا،بس آرام سے بیٹھ گئے اور سب سے کہا کہ سب لوگ درود شریف پڑھ لیں۔اسکے بعد وہ کچھ پڑھ کر پھونکتے رہے اورآنکھیں بند کرکے ایسے بیٹھ گئے کسی سے ہمکلام ہورہے ہوں۔پانچ منٹ بعد انہوں نے میری جانب دیکھا اور کہا ’’ پہلوان جی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔اچھی خبر یہ ہے کہ اس جگہ آباد جنات مسلمان ہیں اور وہ جمعرات کو یہاں ذکر اذکارکی محفل کیا کرتے ہیں جس میں دوسرے علاقوں کے جنات بھی آتے اور ذوق شوق سے نعتیں پڑھتے ہیں۔ اب آپ نے دکان بنا لی ہے جس سے ان کے ہاں خلل پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک شرارتی جنّ آپ کو تنگ کرنے کے واسطے ہر جمعرات کو دہی جما دودھ پی جاتا ہے ۔جنات نے اس شرارتی کو روک دیا اور میں نے بھی انہیں سمجھا دیا ہے کہ اب وہ یہ کام نہ کریں کیونکہ وہ آبادی کے اندر رہنے کا حق نہیں رکھتے ۔انہوں نے وعدہ کیا ہے آئیندہ وہ کسی کو تنگ نہیں کریں گے‘‘ ۔میں نے پیر صاحب کی سیوا کرنا چاہی تو انہوں نے روک دیا اور دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔میں نے دیکھا کہ اگلی جمعراتوں میں ایسی واردات پھر نہیں ہوئی۔میرے دل کی کیفیت بدل گئی ۔میرا دل چاہتا تھا کہ وہ جنات ہر جمعرات آیا کریں اور دودھ پی جایا کریں لیکن اسکے بعد پھر یہ واقعہ رونما نہیں ہوا۔
(آپ کی زندگی میں بھی کوئی حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے تو لکھ بھیجئے nizamdaola@gmail.com)
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔