دہشت گردوں کے خلاف شدید مزاحمت کرنے والے بہادر پولیس افسر ایس پی طاہر خان داوڑ کا افغانستان میں مبینہ قتل قومی نوعیت کا انتہائی حساس معاملہ ہے ۔ اسلام آباد سے اغوا کے بعد افغانستان کے صوبہ کنٹر سے انکی مسخ شدہ لاش کا برآمد ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے کہ انہیں اغوا کرنے والے کون تھے اور سب سے اہم سوال یہ کہ انہیں اغو اکیوں کیا گیا ؟ کیا وہ دہشت گردوں کی نظر میں بہت اہم ٹارگٹ تھے ؟ یا ان کے قتل کئے جانے کے پیچھے کچھ اور محرکات ہوسکتے ہیں ؟ اگرچہ ابھی تک ان کے قتل کے حوالہ سے مصدقہ رپورٹ سامنے نہیں آئی تاہم قیاس یہی کیا جارہا ہے کہ انہیں داعش اور طالبان کے زیر قابض افغان صوبے ننگر ہار میں لے جاکر قتل کردیا گیا ہے ۔
ایس پی طاہر داوڑ میراں شاہ کے داوڑ قبیلے کے سپوت تھے ۔انکی گمشدگی کے بعد چند دن پہلے ہی ان کے اہل خانہ نے پریس کانفرنس بھی کی تھی کہ اگر انہیں فوری برامد نہ کیا گیا تو وزیر ستان سے اسلام آباد تک ایک بڑی تحریک کا آغاز ہوسکتا ہے ۔اس پر بی بی سی نے ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی جس میں نپے تلے لفظوں میں ایس پی طاہر داوڑ کے بارے انکشافات کئے گئے تھے کہ ان کے پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ بھی رابطے تھے اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے ۔وہ اپنے فیس بک اکاونٹ پر بھی پشتون تحفظ موونٹ کے حق میں پوسٹیں کرتے تھے ۔۔۔۔۔دیکھا جائے تو ایسی باتوں سے ایس پی طاہر داوڑ کی فرض شناسی پر بلاوجہ شک کرنے کے لئے ماحول پیدا کیاگیا کہ چونکہ وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے ۔لہذا اس بات کا خدشہ ہوسکتا ہے کہ انہیں اس تنظیم سے تعلق کی بنا پر منظر عام سے ہٹایا گیا ہو،دوسری جانب حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ اپنی فرض شناسی کی بنا پر تمغہ قائد اعظم حاصل کرنے والے ایس پی طاہر داوڑ کو کئی بار اعلیٰ کارکردگی پر انعامات سے بھی نوازا گیا ۔جس بنا پر ان پر دو بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے ۔انکی پیشہ وارانہ خدمات کو دیکھا جائے تو زیادہ تر قوی خدشہ یہی ہوسکتا ہے کہ انہیں امن کے دشمنوں نے منظر سے ہٹا کر وزیرستان کی عوام میں احساس محرومی جگا کر ریاست کے خلاف محبان وطن کو اکسانے کی کوشش کی ہے ۔
ان حالات میں جبکہ وہ دہشت گردوں کے حملوں کا شکار بھی ہوئے تھے ان کا اپنے گھر سے معمول کے مطابق اکیلے واک کے لئے نکلنا اچنبھے کی بات ہے ۔پولیس رولز کے مطابق وہ اپنی سکیورٹی سے غافل نہیں رہ سکتے تھے ۔ستائیس اکتوبر کی رات آٹھ بجے کے بعد وہ اسلام آباد میں اپنے اہل خانہ کو یہ بتا کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ واک پر جارہے ہیں لیکن اسکے بعد وہ واپس نہیں آئے تو اسکی اطلاع متعلقہ پولیس تھانہ میں درج کرا دی گئی تھی ۔رپورٹس کے مطابق وہ گھر سے نکلے تو اپنا پستول اور سرکاری موبائل گھر چھوڑ گئے تھے ۔ایس پی طاہر داوڑ چند دن کی چھٹی پر اسلام آباد میں اپنی فیملی سے ملنے آئے تھے ۔ان کا رات کے وقت نہتے ہوکر واک کے لئے نکلنا خود اہم ترین سوال ہے کہ جب ان کی جان کو خطرہ تھا تو وہ ایسی بے احتیاطی کے مرتکب کیوں ہوئے؟ اغوا کے چند دن بعد ان کے ایک ذاتی موبائل سے اہل خانہ کو میسج بھی آیا تھا جو انگریزی میں تھا کہ وہ جہلم کے پاس ایک جگہ پر ہیں اور خود ہی چند دن تک آجائیں گے ،مگر ان کے اہل خانہ کے بقول یہ میسج ان کے موبائیل سے آیا ضرور تھا مگر ان کا نہیں لکھا ہوا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ میسج اردو میں لکھتے تھے ۔ حیرانی کی بات ہے کہ جب ان کا میسج آیا تو پولیس نے انکی لوکیشن ٹریس کیوں نہ کی جبکہ دہشت گردی کی جنگ کے دوران موبائیل ڈیٹا سے لوکیشن ٹریس کرنے کی جدید ترین ٹیکنالوجی سکیورٹی اداروں کے پاس موجودہے ۔اغوا کے سترہ دنوں کے بعد ان کی مبینہ لاش کا ننگر ہار جیسے صوبہ سے ملنااس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انہیں پشاور کے قریب تر افغان صوبے میں لے جایا گیا ۔یہ صوبہ داعش اور طالبان کا گڑھ ہے جہاں داعش اور طالبان میں بھی لڑائی ہورہی ہے اور اتحادی فورسز بھی ان پر حملہ کرتی ہیں ۔ننگر ہار بدترین دہشت گردی کا علاقہ ہے جہاں سے ایس پی طاہر خان داوڑ کی مبینہ لاش کا ملنا اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ انہیں دہشت گرد قوتوں نے ہی اغوا کیا ہوگا ۔ایک ایسے وقت میں کہ جب فادر آف طالبان مولانا سمیع الحق کو بھی پراسرارانداز میں اسلام آباد کے علاقہ میں قتل کیاگیا ہے اور طالبان کے ہی گاڈ فادر جنرل حمیدگل مرحوم کے صاحبزادے عبداللہ گل پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ کہیں ایس پی طاہر خان داوڑ کے قاتل بھی تو کسی ایسی تنظیم سے وابستہ نہیں جن کو افغانستان سے کنٹرول کیا جارہا ہے ۔
۔۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔