کیا موت کا ایک دن معین ہے؟
ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے۔ اس سے پہلے کوئی انسان مر نہیں سکتا اور نہ ہی اس کے بعد جی سکتا ہے۔۔۔ لیکن یہ دن کون سا ہے، کب آئے گا، کیا اس کے آگے پیچھے کرنے میں خدا کا حکم نہیں چل سکتا، اگر خدا خود یہ دن ٹالتا ہے تو اس کے سامنے اس کی وجوہات اور ترجیحات کیا ہیں، ان سوالوں کا علم صرف اور صرف خداوند کریم کی ذات ہی کو ہے کیونکہ صرف وہی باقی ہے اور باقی سب فانی ہے۔
یادش بخیر دو تین سال پہلے میں کسی محفل میں شریکِ بحث تھا اور شرکائے مباحثہ میں اکثریت مولوی صاحبان کی تھی۔۔۔ قرآن کے حافظ اور بات بات پر احادیث کا حوالہ دینے کو تیار۔۔۔ کسی نوعمر اور یونیورسٹی سے تازہ تازہ فارغ التحصیل ہونے والے شریکِ مباحثہ نے معاً ایک سوال اٹھایا: ’’حضرات اگر موت کا ایک دن معین ہے تو کیا مشرق اور مغرب کا خدا جدا جدا ہے؟‘‘ یہ سن کر سب نے استغفراللہ کہا تو اس نوجوان نے دوسرا سوال کردیا: ’’توپھرکیا وجہ ہے کہ جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں آبادیوں کی اوسط عمر ،ہم ایشیائیوں کی اوسط شرحِ زندگی سے زیادہ ہے؟‘‘
اس نوجوان نے اعداد و شمار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگرچہ موت کا ایک دن معین ہے لیکن چونکہ اس دن کا کسی کو علم نہیں۔ ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ نو عمری ہی میں مر جاتے ہیں اور کئی پیرِ فرتوت کی عمر پاتے ہیں۔اگر ہم جیسے ایشیائی ممالک میں اوسط عمر 47سال ہے اور یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ میں 80سال سے متجاوز ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟۔۔۔ کیا خدا جدید اور ترقی یافتہ ملکوں میں انسانوں کو طویل عمر عطا کرتا ہے اور پس ماندہ کو کم؟‘‘۔۔۔
نوجوان کا سوال اور استدلال بہت وزنی تھا۔
ایک کلین شیو ادھیڑ عمر کا آدمی بھی شریکِ مجلس تھا جو چپ چاپ یہ ساری باتیں سنتا رہا اور پھر اچانک بولا: ’’خدا نے یہ کہاں لکھا ہے کہ ایشیائی آبادیوں کی اوسط عمر، یورپی اور امریکی باشندوں کی اوسط عمر کے مقابلے میں ہمیشہ ہی کم رہی ہے اور ہمیشہ ہی کم رہے گی؟۔۔۔ کس آسمانی کتاب میں فرمایا گیا ہے کہ انسانی عمر کا تعلق کسی مخصوص خطے، مذہب یا اس کے پیرو کاروں کے اطوارِ عبادت سے منسلک ہے؟۔۔۔ کس صحیفے میں لکھا ہوا ہے کہ فلاں خطے کے باسیوں کی عمریں زیادہ ہوں گی اور فلاں کی کم؟۔۔۔ ہاں اللہ کریم نے اتنا فرمایا ہے کہ سب انسانوں نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، ہر ذی روح کا مقدر فنا ہو جانا ہے اور موت نے آکر رہنا ہے۔ لیکن جس خدا نے یہ تمام کچھ اپنی کتابوں میں فرمایا ہے اسی خدا نے یہ بھی تو فرمایا اور بار بار فرمایا ہے کہ ’اللہ کریم تمام اشیاء پر قدرت رکھتا ہے‘۔۔۔ وہ جسے چاہے ذلیل کرتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے، جس کو چاہے مار دیتا ہے اور جس کو چاہے اس کی عمر کی رسی دراز کر دیتا ہے۔
وہ ایسا کیوں کرتا ہے ہمیں اس کی کچھ خبر نہیں۔ ہمیں تو یہ خبر ہے کہ وہ خشک صحراؤں میں زم زم بہا دیتا ہے، چاہے تو چلتے دریاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا اور درمیان میں خشکی کا ایک ٹکڑا چھوڑ دیتا ہے، چاہے تو بغیر باپ کے بچے پیدا کر دیتا ہے اور چاہے تو۔۔۔؟ ذرا بتایئے کون سا مشکل کام اور اورکون سا گنجلک عقدہ ہے جو وہ وا نہیں کر سکتا؟۔۔۔ اسی نے یہ دنیا بنائی ہے اور وہی جب چاہے گا اس کو ختم کر دے گا۔ کیا وہ اپنی فرستادہ کتابوں میں بار بار اپنی اس قدرت وقوت کا اظہار نہیں کرتا رہا؟۔۔۔ چنانچہ یہ دلیل لانا کہ فلاں خطہ ء ارض پر انسانوں کی اوسط عمر زیادہ ہے اور فلاں پر کم ہے اور اس کمی بیشی کو کسی جغرافیائی محلِ وقوع کے ساتھ خاص کر دینا ہماری اپنی تاویلات اور اپنی تشریحات ہیں۔ خدا ہرگز کسی یورپی کو زیادہ عمر یا کسی ایشیائی کو کم عمر دے کر یہ روائت قائم نہیں کرتا کہ وہ (نعوذ باللہ) بعض اقوام پر زیادہ مہربان ہے اور بعض پر کم۔۔۔‘‘
’’کہاں ہیں اہرامِ مصر بنانے والے اور اپنی لاشوں کو حنوط کرنے والے؟۔۔۔ ان کے بس میں تو صرف اتنا ہی تھا کہ انہوں نے اہرامِ تعمیر کئے اور اپنی لاشوں کو ایسے کیمیائی مواد سے ڈھانپا کہ وہ صدیوں تک خاکستر نہ ہوئے اور ان کے نشاناتِ عبرت ہنوز باقی ہیں۔۔۔ لیکن ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ یہ نشانات ان کی زندگیوں کے نشانات نہیں بلکہ ان کی اموات کے نشانات ہیں۔ ان کی موت تو اسی لمحہ ء مقرر پر آئی جب خدا نے چاہا۔ البتہ ان کے لواحقین نے ان کی بے جان اور مردہ ہڈیوں کو تادیر محفوظ رکھنے کا اہتمام کر لیا!۔۔۔ کیا ایسا کرنے سے خدا کا یہ حکم (خدانخواستہ) باطل تصور ہوتا ہے کہ: ’’ہم نے ہر ذی روح کو ایک مقررہ وقت تک زندہ رکھنا ہے اور پھر انجام کار اس کو مار دینا ہے۔۔۔۔یعنی اس کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک جتنے بھی گھنٹے، منٹ اور سیکنڈہوں گے ان کا فیصلہ صرف اور صرف خدا کی ذات کو معلوم ہے، کسی اور کو نہیں‘‘۔۔۔
سب لوگ یہ سن کر محظوظ بھی ہوئے اور دم بخود بھی ہو گئے!
یہ بڑی دلچسپ بحث تھی اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے اپنے کسی گزشتہ کالم میں بھی اس کا ذکر کیا تھا۔ آج بارِ دگر اس کا تذکرہ اس لئے کرنا پڑا کہ اس موضوع پر حال ہی میں ایک نئی تحقیق امریکہ میں ایک کتابی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا نام ہے : ’’دِل: ایک تاریخ‘‘ (Heart: A History)۔۔۔ مصنف کا نام ڈاکٹر سندیب جوہر ہے جو ہندو ہیں اور برسوں پہلے جا کر امریکہ میں بس گئے تھے۔اس کتاب کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد اس کالم کو تحریر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہندو ۔ مسلم آئیڈیالوجی یعنی دو قومی نظریئے کے اس فرق کو واضح کیا جائے جو تخلیقِ پاکستان کا باعث بنا تھا۔
جہاں مسلمان خدا کو قادرِ مطلق مانتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے، وہاں ہندو ابھی تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ اس کی موت کا ذمہ دار بھگوان ہے یا وہ خود ہے۔ مغرب نے تو اول روز سے فیصلہ کیا ہوا کہ خدا کا کہیں وجود ہی نہیں۔بس ایک بڑا دھماکہ (Big Bang) تھا جو خود بخود ہو گیا تھا۔۔۔ ’’کُن فیکون‘‘ کہنے والا کوئی نہ تھا خود ہی لفظ ’’کن‘‘ کی آواز کہیں سے آئی تھی اور اس کے بعد آج تک مسلسل ’’فیکون‘‘ چلا آ رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے فلاسفر، سائنس دان، دانشور اور طبی ماہرین یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ’’بِگ بینگ‘‘ کی تھیوری کو کس طرح سپوٹ کریں۔ چونکہ اس کتاب کا ہندو مصنف F.Sc کرنے کے بعد امریکہ چلا گیا تھا اور وہیں علمِ طب (میڈیکل سائنس) کی کئی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں اور امراضِ قلب کی تحقیقات کا خصوصی میدان منتخب کیا اس لئے اس پر مغربی فلسفہ ء حیات اور تعلیم و تدریس کا اثر غالب ہے۔ وہ بزعم خود بڑے طمطراق سے استدلال کرتا ہے کہ جب کسی انسان کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے ’’دل کی صحت‘‘ کمزور پڑ جاتی ہے۔
یہ ’’دل کی صحت‘‘ کوئی نیا خیال نہیں۔۔۔ مشرق کے شعرا کی تو آدھی شاعری ہی دل کی صحت اور بیماری کے گرد گھومتی ہے۔ تاہم ہمارے ان مشرقی شاعروں کے ہاں ’’دل‘‘ کی تشریح (Defination) وہ نہیں جو مغرب کے معالجینِ امراضِ قلب کی ہے۔۔۔ ڈاکٹر سندیپ اسی مغربی فلسفے کا قائل ہے اور اس کتاب میں لکھتا ہے : ’’تقریباً ایک سو سال پہلے ایک جرمن سائنس دان کارل پیرسن (Karl Pearson) ہر روز قبرستان جایا کرتا تھا۔ وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ایک ہی خاندان کے افراد جب مر جاتے ہیں اور ان کو دفنا دیا جاتا ہے تو بلحاظِ عمران کی اموات میں کتنا فرق ہوتا ہے، کیا کسی خاندان کے بیشتر افرادِ خاندان نو عمری میں مر جاتے ہیں یا وسطانی عمروں میں یا بوڑھے ہو کر اور 80،90 برس تک کی زندگی پا کر موت کا ذائقہ چکھتے ہیں؟۔۔۔ کارل پیرسن نے اس سٹڈی کے دوران ایک حیرت انگیز حقیقت یہ بھی نوٹ کی کہ بعض میاں بیوی کی قبروں پر جو کتبے نصب تھے اور جن پر ان کی تاریخِ وفات لکھی ہوئی تھی ان کی عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا، یعنی میاں اگر بیوی کے انتقال کے بعد دو سال تک جی سکا تو بعض بیویاں، شوہروں کے انتقال کے چھ آٹھ ماہ کے اندر اندر ہی خدا کو پیاری ہو گئیں تھیں‘‘۔
’’کارل نے ان مرنے والوں کے خاندانوں کا سراغ لگایا، ان کے زندہ رشتہ داروں کے انٹرویو کئے اور معلوم کیا کہ مرنے والوں کے درمیان میاں بیوی کے تعلقات کیسے تھے؟۔۔۔ اسے معلوم ہوا کہ ایسے جوڑے (Couples) جن کے عرصہ ء وفات میں زیادہ فرق نہیں تھا، وہ ایک دوسرے کو نہ صرف یہ کہ دل و جان سے چاہتے تھے بلکہ ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ چنانچہ کارل نے اس سٹڈی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ: ’جن دو انسانوں کے درمیان شدید محبت کا رشتہ قائم ہووہ ایک دوسرے کی جدائی کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان کے دل اندر سے زخمی ہو جاتے ہیں اور یہ زخمی دل، تندرست دل کے مقابلے میں زیادہ دیر تک جسم کے ساتھ نہیں چل سکتا اور ہمت ہار دیتا ہے۔۔۔ یہ بیماری ء دل صرف دو چاہنے والے انسانوں کی جدائی کا ہی نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ دل کی صحت جن اور اسباب کی وجہ سے نحیف و نزار ہو کر کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ غربت، میاں بیوی کے جھگڑے، دو انسانوں یا طبقاتِ آبادی کے درمیان سوچوں کا اختلاف، ذرائع آمدن میں کمی بیشی اور قلبی سکون کا فقدان ہیں‘‘۔
’’دل۔۔۔ ایک تاریخ‘‘ کا مصنف اس پیش لفظ کے بعد اپنی کتاب میں دل کی بیماریوں کی تفاصیل بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے اپنی طویل پیشہ ورانہ سروس کے دوران ہزاروں مریضوں کو دیکھنے اور ان کا معائنہ کرنے کا اتفاق ہوا جن میں ہر عمر، جنس، رنگ و نسل، عقیدے، تعلیم اور پروفیشن کے لوگ شامل تھے۔ ان سب میں 60فیصد سے زیادہ ایسے لوگ تھے جن میں کسی نہ کسی وجہ سے ان کے دل کی صحت اور کیفیت دگرگوں تھی، وہ کسی بھی وقت آخری سانس لے سکتے تھے۔۔۔ پھر یہی ہوا کہ ڈاکٹر سندیپ کی پیشگوئی کے عین مطابق جلد ہی ان پر دل کا دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔
اگر آپ امراضِ قلب کے مغربی اطبّا (فزیشن اور سرجن دونوں) کی سٹڈیز کا مطالعہ کریں تو وہ لوگ یہ تو بتا سکتے ہیں کہ ان کا دل کن وجوہات کے سبب کمزور ہوا اور بالآخر کام کرنا چھوڑ گیا لیکن یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ اگر وہ ان امراض (دو طرفہ محبت، عشق، غربت و افلاس، اعصابی دباؤ، اپنے پیاروں کی طرف سے بے وفائی وغیرہ) کا شکار نہ ہوتے تو کیا ان کی عمر طویل تر ہو سکتی تھی؟۔۔۔ کیا اگر ان کی جیب بھری ہوتی، اگر کوئی اعصابی تناؤ نہ ہوتا، اگر قلبی سکون کی فراوانی ہوتی اور اگر اختلاف رائے کا ’’عارضہ‘‘ لاحق نہ ہوتا تو وہ زیادہ طویل عمر پا سکتے تھے؟۔۔۔جب ڈاکٹر سندیپ سے ایک مسلمان امریکی نے ایک انٹرویو میں یہی سوال پوچھا تو سندیپ ٹھٹک کر رہ گیا۔ کہنے لگا: ’’ہم ڈاکٹر لوگ نہ کسی مریض کو بتاتے ہیں اور نہ ہی ہمیں خود معلوم ہوتا ہے کہ کس مریض نے جلدی مرنا ہے اور کس نے تادیر زندہ رہنا ہے‘‘۔۔۔
یہ سن کر امریکی مسلمان نے کہا کہ : ’’آپ ڈاکٹروں سے تو ہمارا یہ عقیدہ ہی کہیں زیادہ امید افزا ہے کہ موت کا چونکہ ایک دن معین ہے اس لئے اس سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اس نے جب آنا ہے آ جائے گی‘‘۔۔۔ مسلمان کا یہ عقیدہ اور ایمان کسی بھی غیر مسلم کے عقیدے اور ایمان سے زیادہ اطمینان افزاء ہے۔۔۔ حضرت علیؓ کایہ قول کہ : ’’جب تک مقررہ لمحہ نہیں آ جاتا تب تک موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے‘‘ اس بحث میں حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے!