ماحولیاتی آلودگی: ایک ٹائم بم 

ماحولیاتی آلودگی: ایک ٹائم بم 
ماحولیاتی آلودگی: ایک ٹائم بم 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


موسم کو خراب کرنے میں بلاشبہ ہم انسانوں کا بہت عمل دخل ہے۔ ہم جب چاہتے ہیں زمین کے تھرموسٹیٹ کو اپنے مفاد کی خاطر توڑمروڑ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں موسم ہر دن رنگ بدل رہا ہے۔ التجا تو یہی ہے کہ تمام زہریلی گیسوں کو ری سائیکل کرکے  کوئی  ایسی چیز تیار کی جائے جو انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی آلودہ نہ کرے۔ صرف یہی بات نہیں کہ گلوبل وارمنگ سے گرمی کی شدت میں خوفناک اضافہ ہورہا  ہے، بلکہ سمندر کی سطح بھی نمایاں  طور پر بلند  ہورہی ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی زہریلی گیسیں ہیں اور ان میں سے کاربن ڈائی آکسائد نے اپنا نام لسٹ میں سب سے اوپر رکھا ہے۔ بہاماس اور موزمبیق میں تو باقائدہ ٹراپیکل طوفان آ رہے ہیں،جو جانی اور مالی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔یہی نہیں اب تو وہاں سیلاب اور سونامی کا بھی اندیشہ ہے۔ گلوبل وارمنگ اور سمندر کی تہہ  کا یہ رشتہ ہے کہ اس گرمی سے انٹارکٹکا  اور گرین لینڈ کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے جو پانی کی مقدار بڑھا رہی ہے۔ اب تک سمندر کی تہہ میں 3.2 ملی میٹر کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل آنتو نیو کو نیرس نے پچھلے سال منعقدہ کانفرنس میں یہی بات کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ 2050ء تک ہمیں کاربن کے اخراج کو صفر کرنا ہوگا اور تاکید کی کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو بند کر دینا چاہئے۔ ایسی ہی کچھ تجاویز  ہیں، جن کو اگر ہم ذہن میں بٹھا لیں تو بہت زیادہ فرق پڑ سکتا ہے، ورنہ یہ کہنا بھی غلط نہیں  ہو گا کہ قیامت سے پہلے ہی قیامت  ہو گی، جس میں درجہ حرارت ناقابل  برداشت ہوگا اور شہر بھی ڈوب جائیں گے۔ ہر سال 135،000 اموات ہوا کی آلودگی سے ہوتی ہیں۔ 

فضائی آلودگی میں گاڑیوں کی ٹریفک کا  45 فیصد، گھریلو ایندھن کا 20 فیصد اور صنعتوں اور جنریٹروں کا 15 فیصد حصہ ہے۔ گذشتہ ہفتے لاہور میں کل 291 ائیر کنٹرول انڈیکس ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ہوائی اڈے کے علاقوں میں 420، گلبرگ 317، اپر مال 291، کاہنہ 281 اور ایف سی کالج 255 بدترین آلودہ زون ہیں۔ موسم سرما کی آمد، کورونا اور سموگ پاکستانیوں، بالخصوص لاہور کے لئے برمودابننے جارہے ہیں۔ کورونا ایک بار پھر عروج پر ہے، اور سردیوں سے اس میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔ موسم سرما میں فلو اور کورونا کی علامات میں بہت سی مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں عوام کو نفسیاتی پیچیدگیوں میں ڈال دیں گے۔ گذشتہ سال اکتوبر میں لاہور کو دنیا کا دوسرا سب سے آلودہ شہر قرار دیا گیا۔ پچھلے نومبر میں لاہور میں سکول بھی دو دن کے لئے بند رہے تھے۔ چھٹی دینا یا ماسک لگانا، اس مسئلے کا حل نہیں۔ حکومت کو چاہیے کے سموگ پر قابو پانے کے لئے کوئی ٹھوص منصوبہ بندی کرے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی لگا ئی جائے۔ حکومت نے سموگ کو کم کرنے کی کوشش میں، 7 نومبر سے 31 دسمبر تک پنجاب میں 7،523 اینٹوں کے بھٹوں پر پابندی عائد کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا۔ مزید اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زاگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ امید ہے حالات میں اب کچھ بہتری آئے گی۔فوری اقدامات نہ کیے گئے تو سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ماحولیاتی آلودگی ایک ٹائم بم ہے، جسے چلنے سے پہلے ہی ڈی فیوز کرنا ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -