سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، سپریم کورٹ فیصلے کیخلاف سینیٹ میں قرار داد منظور
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) سینیٹ نے آرمی ایکٹ میں ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون کو دوبارہ لکھنے کی کوشش ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے، پاک فوج پرحملہ کرنیوالوں کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل آئینی وقانونی دائرہ کار میں ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف قرار داد سینیٹر دلاور خان نے ایوان میں پیش کی، سینیٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف قرار داد کثرت رائے سے منظورکی۔سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر مشتاق احمد نے قرارداد کی مخالفت کی۔قرار داد میں کہا گیا سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون کو دوبارہ لکھنے کی کوشش ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے، پاک فوج پرحملہ کرنیوالوں کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل آئینی،قانونی دائرہ کار میں ہے، ریاست مخالفت، جلا گھیرؤاور تشدد کے ملزمان کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ایسے واقعات کی روک تھام کرتاہے۔قرارداد میں کہا گیا سینیٹ شہدا کے خاندانوں کیساتھ کھڑا ہے، شہدا کے لواحقین نے اس فیصلے پر عدم تحفظ کے احساسات کا اظہار کیا ہے، خدشات ہیں ملٹری کورٹس ٹرائل کی عدم موجودگی میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی ہوگی، سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلح افواج اور سویلین کے شہدا کی قربانیوں کورائیگاں کرتا ہے، ملٹری کورٹس نے دہشت گردی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔سینیٹ سے منظور قرار داد میں کہا گیا سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کی دی گئی سزاں میں من مانی نہ ہونے کو مدنظر نہیں رکھا، سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں مروجہ طریقہ کار اختیار کرنیکا معاملہ بھی مدنظر نہیں رکھا، ملٹری کورٹس کی سزاں کیخلاف آرمی چیف اور صدر کے سامنے اپیل کا معاملہ بھی مدنظر نہیں رکھا گیا، ملٹری کورٹس کی سزاوں کیخلاف ہائی کورٹس میں درخواست کا معاملہ بھی مدنظر نہیں رکھا گیا، آرمی ایکٹ میں آئین کے آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے، آرمی ایکٹ کی متعلقہ شقوں میں ٹرائل کے دوران آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔قرار داد میں مطالبہ کیا گیا جب تک لارجر بینچ اس کا جائزہ نہ لے فیصلے پر عمل نہ کیا جائے، بینچ کا فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں،قانونی ابہام ہے، لارجر بینچ اس کا جائزہ لے، فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلے سے دہشتگردی کو فروغ ملے گا، 9 مئی واقعے میں ملوث افراد کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیا جائے، پارلیمنٹ نے ملٹری کورٹس کی اجازت دی تھی، فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیارت میں مداخلت ہے۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے قراداد کیخلاف احتجاج کیااور کہا رولز کو بلڈوز کیا گیا۔دوسری طرف پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر سردار محمد شفیق ترین، سینیٹر طاہر بزنجو اور سینیٹر حاجی ہدایت اللہ کی افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا غیر ملکی تارکین وطن کیخلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، افغان مہاجرین کیخلاف کارروائی نہیں، جو بھی پاکستان آنا چاہتا ہے وہ قانونی تقاضے پورے کر کے ہمارے ملک میں آ سکتا ہے، ہم غیر قانونی طریقہ سے آمد و رفت کو روکنا چاہتے ہیں۔ افغان شہریوں سے ہمارا بھائی چارہ ہے، ان کیساتھ محبت بھرا رشتہ ہمیشہ رہے گا، مختلف ادوار میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار ہے، غیر ملکی تارکین وطن کیخلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، افغان مہاجرین کیخلاف نہیں، افغانستان میں امن آ چکا ہے۔ افغان شہریوں کو اپنے وطن واپس جانا چاہیے، کوئی پاکستانی بغیر ویزہ کے کابل نہیں جا سکتا جو بھی پاکستان آنا چاہتا ہے وہ قانونی تقاضے پورے کر کے ہمارے ملک میں آ سکتا ہے۔اس سے قبل سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر و سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا قومی اسمبلی و سینیٹ کو اعتماد میں لیے بغیر دہشت گردوں کو چھوڑا گیا، کس نے کہا جیلوں میں قید دہشت گردوں کو چھوڑا جائے اور کابل جا کر طالبان حکومت کو انگیج کریں، 20 سال کے حقائق سامنے آنے چاہئیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں کہا تھا دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنا ہے، سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا۔ 2013ء میں 20، 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی، بجٹ صرف 9 ہزار ارب روپے کا ہے، 20 فیصد سے زائد آئی پی پیز کو ادا کیا جاتا ہے، 10 سال میں آئی پی پیز 6 ہزار 34 ارب روپے کی ادائیگیاں لے چکیں، 10 سال کے دوران کیپسٹی پیمنٹ کی ادائیگیوں میں 1136 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ مالی سال 2013ء میں آئی پی پیز کو 185 ارب روپے ادا کیے گئے، مالی سال 2023ء میں کیپسٹی پیمنٹ 185 ارب سے بڑھ کر 1321 ارب روپے ہو گئی، رواں مالی سال کیپسٹی پیمنٹ 1321 ارب روپے سے بڑھ کر 2150 ارب روپے ہو گئی۔ 1994ء کی پالیسی کے تحت قائم آئی پی پیز کو 86 ارب روپے سالانہ ادائیگی کی جاتی ہے پالیسی کے تحت قائم 54 آئی پی پیز صرف 3491 میگاواٹ بجلی دے رہی ہیں، 2002ء کی پالیسی کے تحت بننے والی آئی پی پیز 2700 میگاواٹ بجلی فراہم کرتی ہیں، 2002ء کی پالیسی کے تحت بنی آئی پی پیز کو سالانہ 66 ارب روپے ادا کیے جاتے ہیں، نیوکلئیر پاور پلانٹس کی کیپسٹی پیمنٹ سب سے زیادہ ہے۔سابق وفاقی وزیر خزانہ نے کہا آرمی پبلک سکول حملے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا، آرمی پبلک سکول حملے کے بعد سب نے مل کر نیشنل ایکشن پلان بنایا، دن رات محنت کر کے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، نیشنل ایکشن پلان بنانے میں پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں شامل تھیں۔ دہشت گردی، معیشت اور لوڈشیڈنگ سے بڑا مسئلہ ہے، کس نے کہا تھا دہشت گردی کے درجنوں واقعات میں ملوث لوگوں سے مذاکرات کریں؟ پچھلے 20 سال کے حقائق سامنے آنے چاہئیں، حالات یہاں تک کیوں پہنچے، اس معاملے پر سیاست نہیں کرنا چاہتا، چاہتا ہوں ہمیں پتا تو چلے کہاں غلطیاں ہوئیں۔ ہماری حکومت نے ملک سے لوڈشیڈنگ، دہشت گردی کے ناسور کو ختم کیا، اس طرح کام نہیں چلے گا، کلیئرکٹ روڈ میپ بنانا ہوگا، جیسے سانحہ اے پی ایس کے بعد بیٹھے ویسے بیٹھنا چاہیے، ان کیمرہ سب کچھ بتایا جائے۔ بعد ازاں سینٹ کااجلاس آج صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
سینیٹ قرارداد