کلامِ اقبال کا سرائیکی ترجمہ اور عرفان جمیل

       کلامِ اقبال کا سرائیکی ترجمہ اور عرفان جمیل
       کلامِ اقبال کا سرائیکی ترجمہ اور عرفان جمیل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  لاہور میں گرمی کا زور جب سے ٹوٹا ہے ربیع الاوّل کی برکتوں اور اکتوبر کی آمد نے موسم کو رنگ برنگے پھولوں اور پودوں سے نئی تازگی بخشی ہے بلکہ لاہوریوں کی طبیعتوں میں بھی دوبارہ لطافت کے پہلو نکھر کے نمایاں ہونے لگے ہیں۔ بے شک لاہور کو ادب کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ ہر سال اس موسم میں مشاعرے، مذاکرے، کتابوں کی رونمائی اور فیسٹیول کی تیاریاں زوروں پر رہتی ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ڈاکٹر عرفان جمیل کی کتاب ”کلامِ اقبال کا سرائیکی ترجمہ“ کی تقریبِ رونمائی ہے۔ یہ پروگرام ڈاکٹر افتخار بخاری کی کاوشوں سے کاسموپولیٹن کلب باغِ جناح میں منعقد ہوا۔ ڈاکٹر افتخار بخاری کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں وہ کاسموپولیٹن کلب کے سابق صدر اور اس کلب کے لیے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر افتخار شاعر، ادیب اور نقاد ہیں اور کئی معروف کتابوں کے مصنف ہیں۔

یہ پروگرام پبلک آرٹ اینڈ لٹریری سوسائٹی لاہور اور کوہسار ادبی فورم اسلام آباد کے زیراہتمام منعقد کیا گیا جس کے روحِ رواں محمد عرفان خان ہیں۔ صاحبِ کتاب عرفان جمیل، پروفیسر نثار ترابی اور محمد عرفان خان خاص طور پر اسلام آباد سے لاہور تشریف لائے۔ مقبول احمد چوہان بھی اس پروگرام کے منتظمین میں شامل تھے۔ کاسموپولیٹن کے لائبریری ہال میں نامور ادیب، شاعر بڑی تعداد میں موجود تھے۔ وحید رضا بھٹی بھی خاص طور پر اس تقریبِ رونمائی میں شرکت کے لیے وہاں تشریف فرما تھے۔ وحیدرضابھٹی کا مختصر تعارف کرواتی چلوں وہ سنٹرل ٹریننگ کالج میں انگریزی کے لیکچرار رہے۔ اُن کی مرتب کردہ مشہور نصابی کتاب A book english Prose & Poetry for.B.Ed. Classes پنجاب کے ٹریننگ کالجوں میں لازمی نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی ہے بعد میں وحیدرضا بھٹی سول سروسز میں شامل ہونے کے بعد وزارتِ تجارت شعبہئ برآمدات صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل رہے اور خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں انگلش کے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر بھی کلاسز لیتے رہے۔ 

پروفیسر عرفان جمیل یوں تو کسی تعارف کے محتاج نہیں انہوں نے ایک دور لاہور میں گزارا۔ یہاں وہ ٹیلی ویژن اور پاکستان کے براڈکاسٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ساتھ ساتھ تعلیم و تدریس میں بھی استاد کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا اور طلباو طالبات کی آبیاری کرتے رہے۔ براڈ کاسٹر کی حیثیت سے میری بھی اکثر ملاقات اُن سے ٹی وی اور ریڈیو پر ہوتی رہی۔ اُن کی اس کتاب کی رونمائی پر بہت لمبے عرصے بعد اُن سے ملاقات ہوئی جس میں اُن کی بہت سی نئی جہتوں کا پتا بھی چلا۔ اُن کی کتاب کلامِ اقبال کا سرائیکی میں منظوم ترجمہ 128صفحات پر محیط ہے۔ جس میں پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید کا مضمون عرفان جمیل کی ترجمہ نگاری شامل ہے۔ وفاچشتی کا لکھا ہوا مضمون ”آئین جواں مرداں“ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ عرفان جمیل کا ”بیانِ حرفی“ بھی اُن کی مشقتوں کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے علامہ محمد اقبال کی 25 نظموں اور غزلوں کا ترجمہ سرائیکی زبان میں کیا ہے۔ عرفان جمیل کی ترجمہ نگاری میں ڈاکٹر ریاض مجید نے لکھا ہے کہ ترجمہ نگاری میں سب سے اہم مشکل ترجمہ نگار اور قاری کو ہمیشہ نامطمئن رکھنے والا مسئلہ شاعری کا شاعری میں ترجمے سے ہوتا ہے وہ اس لیے کہ عام لوگوں کا خیال ہے کہ شاعری میں لفظوں کا ترجمہ تو ہوجاتا ہے مگر کیفیات کا ترجمہ نہیں ہوتا یعنی ترجمہ نگار صرف متن کی ترجمانی تک ہی پہنچ پاتا ہے۔ وفاچشتی لکھتے ہیں کہ ان کی تحریر کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ترجمے کے حساس پہلوؤں کے دوران تہذیب و تمدن، زبان و بیان کی مٹھاس، معنی آفرینیوں کا یکساں طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں بامحاورہ انتقال پرمغز اور موسیقانہ روانی و فطری سلامت کا بدرجہ اتم خیال ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ جس نے بلاشبہ کارِ دشوار کو دل آویز دلفریب بنا دیا ہے۔ عرفان جمیل نے علامہ اقبال کے کلام کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کیا ہے، پنجابی زبان بولنے اور سمجھنے والے اسے کسی حد تک سمجھ لیتے ہیں شکوہ جوابِ شکوہ سے چند اشعار اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

کیوں زیاں کار بنوں سودِ فراموش رہوں 

فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں 

(اقبالؒ)

کیوں زیان اپڑاں کراں، فیدا بھُکا، زک چابہاں 

بان کیوں ماراں نہ کلھ دے، کیوں سرے اج دی سراں 

(عرفان) 

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے 

پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے 

(اقبالؒ)

گال جے دل توں نکلدی ہے ہلا ڈیندی ہوے

کھمب توڑے جو نہیں وَل وی اُڈا ڈیندی ہوے

(عرفان)

عرفان جمیل کو بچپن ہی سے علامہ اقبال کے کلام سے رغبت تھی۔ انہوں نے شکوہ اور جوابِ شکوہ زبانی یاد کر رکھی تھی۔ ان کا علاقہ اس قدر پسماندہ تھا کہ ڈھونڈنے سے بھی وہاں کوئی پڑھا لکھا نہ ملتا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے کی پہلی مسجد بن رہی تھی وہ اپنے علاقے کی مسجد کے لیے وہاں کا گارااور اینٹیں اپنی کمسنی میں کمزور ہاتھوں اور بازوؤں سے اُٹھاتے اور اس میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ اُس وقت کے بزرگوں کو معلوم تھا کہ اسے شکوہ جوابِ شکوہ ازبر ہے۔ وہ سب مسجد بنانے کے بعد تھک کر اکٹھے بیٹھتے تو مجھے کہتے کہ شکوہ جوابِ شکوہ سناؤ تو میں بڑی خوشی اور شوق سے سناتا تھا۔ یہی ایک بچپن کا شوق جو میری اس کتاب کو لکھنے کی وجہ بنا اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں مِیر اَمن کی طرح سرائیکی وسیب (معاشرے) کا روڑہ ہوں۔ 

پروفیسر نثار ترابی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منظوم تراجم کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ شاعر کو بہت سے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں جو مترجم گزرے ہیں اُن میں پروفیسر صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کا نام سرفہرست ہے۔ جنہوں نے غالب، علامہ اقبال، امیرخسرو کے کلام کے منظوم تراجم کیے۔ اُن کے بعد عبدالسمیع کا نام آتا ہے جنہوں نے سرائیکی میں اقبال کا پہلا ترجمہ کیا۔ 

وحید رضابھٹی نے بھی صاحبِ کتاب کو مبارکباد دی انہوں نے کہا کہ عرفان جمیل نے سرائیکی ادب میں بہت محنت اور جانفشانی سے کلامِ اقبال کا ترجمہ کیا ہے۔ بیاجی بھی محفل میں موجود رہیں اُنہوں نے بھی اُن کو کتاب پر مبارکباد دی۔ اس پروگرام کی نظامت پروفیسر ناصر بشیر نے کی اور انہوں نے بتایا کہ سرائیکی میں بالِ جبریل کا ترجمہ 45سال پہلے کیا گیا تھا۔ سرائیکی میں لاتعداد نام ہیں جنہوں نے اقبالیات پر کام کیا۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق اور حسن رضا گردیزی کے نام بھی سرفہرست ہیں۔ اُن صاحبان کو علامہ اقبال سے ملاقات کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ 

پروفیسر عرفان جمیل نے محنت سے کلام اقبال کا سرائیکی ترجمہ کیا ہے۔ اُن کو اس کتاب کی رونمائی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اُن کی تمام ادبی کاوشوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں بلاشبہ اُن کی یہ کتاب ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ یہ کام جاری و ساری رکھیں گے اور آئندہ چھپنے والی اس کتاب میں کلامِ اقبال بھی شامل کرلیں تو قارئین کا تراجم پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔ امید ہے کہ اگلی دفعہ اُن کی یہ کتاب اقبال اکیڈیمی شائع کرے گی۔ 

مزید :

رائے -کالم -